ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے سے یہ تو واضح ہو گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اُتنی بھی انصاف پسند نہیں جتنی نظر آتی ہے بلکہ بادی النظر میں وہ بھی اخلاقی دیوالیہ پن کے اُسی حمام میں غسل کر چکی ہے جس کا الزام پارٹی چیئرمین اپنے مخالفین پر لگاتے ہیں۔ ممنوعہ فنڈنگ کیس دراصل ایک ''اوپن اینڈ شٹ‘‘ کیس ہے‘ جو واضح کرتا ہے کہ پی ٹی آئی نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیرملکیوں سے اپنی پارٹی کے لیے فنڈنگ حاصل کی۔ دوسروں کو چور‘ ڈاکو کے القابات بانٹنے والے تحریک انصاف کے بیشتر رہنما درحقیقت خود بھی ویسے ہی نکلے‘ انہیں جب ڈالروں اور پاؤنڈز کی جھلک دکھائی دی تو انہوں نے بھی اس بات کی پروا نہیں کی کہ وہ کہاں سے آرہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد بجائے معذرت کرنے کے پی ٹی آئی نے حسبِ توقع فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے کو مسترد کر دیا ہے بلکہ الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈالنے کیلئے آج (جمعرات کو) الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے احتجاج کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ پی ٹی آئی کا یہ اعلان اس لیے بھی قابلِ اعتراض ہے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو اپنی صفائی کا پورا موقع فراہم کیا لیکن جماعت نے الٹا اس کیس کو تاخیر کا شکار کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
پی ٹی آئی کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کا مقدمہ پارٹی کے بانی اراکین میں سے ایک رکن اکبر ایس بابر نے نومبر 2014ء میں الیکشن کمیشن میں دائر کیا اور الزام لگایا کہ پارٹی غیر اعلانیہ اکاؤنٹس کے ذریعے غیر ملکی کمپنیوں اور غیر ملکی شہریوں سے رقوم حاصل کرتی رہی ہے۔ انہوں نے اس کی اطلاع پارٹی چیئرمین عمران خان کو بذریعہ خطوط دی لیکن انہوں نے اس وارننگ کو نظر انداز کردیا۔ اگر پولیٹکل پارٹیز آرڈیننس 2002ء کے آرٹیکل چھ (3) کا جائزہ لیا جائے تو اس کے مطابق کسی بھی غیرملکی حکومت‘ ملٹی نیشنل کمپنی یا مقامی طور پر قائم سرکاری یا نجی کمپنی‘ فرم یا تجارتی ادارے اور پیشہ وارانہ ایسوسی ایشن کی طرف سے فنڈز یا چندہ لینا سیاسی جماعتوں کے لیے ممنوع ہے۔ سیاسی جماعتیں صرف انفرادی چندہ لے سکتی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے متفقہ فیصلے کے مطابق پاکستان تحریکِ انصاف کو ممنوعہ ذرائع سے عطیات اور فنڈز موصول ہوئے اور اس فنڈ ریزنگ میں 34 غیرملکی ڈونیشنز لی گئیں‘ جو 16بینک اکاونٹس میں آئیں جنہیں نہ صرف غیر قانونی طور پر چھپایا گیا بلکہ غلط بیانی پر مبنی سرٹیفکیٹ بھی جمع کروایا گیا کہ تحریک انصاف کسی قسم کی ممنوعہ فنڈنگ نہیں لے رہی۔
پی ٹی آئی نے امریکا‘ آسٹریلیا اور متحدہ عرب امارات سے عطیات لیے۔ سونے پر سہاگا‘ تحریک انصاف نے بھارتی نژاد امریکی کاروباری شخصیات سے بھی فنڈز لیے۔ جن میں اندر دوسانجھ‘ ویرل لعل‘ مائیکل لین‘ صائمہ اشرف‘ مرتضیٰ لوکھنڈوالا‘ ابو بکر وکیل‘ چرنجیت سنگھ‘ ورشا لتھرا اور دیگر افراد شامل ہیں۔ الیکشن کمیشن کے تحریری فیصلے کے صفحہ نمبر 67 پر لکھا ہے کہ پی ٹی آئی مسز رومیتا شیٹی جو کہ بھارتی نژاد امریکی بزنس ویمن ہیں‘ کی ڈونیشن کی بھی بینیفشری ہے۔ رومیتا شیٹی نے پی ٹی آئی کو 13 ہزار 750 ڈالرز فنڈ دیا ہے جو ممنوعہ فنڈنگ کے زمرے میں آتا ہے اور پاکستانی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ بلوم برگ کے مطابق رومیتا شیٹی ''ڈی اے کیپٹل‘‘ کی منیجنگ ڈائریکٹر ہیں اور ایک پاکستانی امریکن بزنس مین کی اہلیہ ہیں۔ رومیتا نے عمران خان صاحب کو سنگاپور سے ڈالرز کی صورت میں ڈونیشن فراہم کی‘ سوال اٹھتا ہے آخر انہیں پاکستان کی ایک سیاسی جماعت سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟
اسی طرح پی ٹی آئی نے عارف نقوی کی کمپنی ووٹن کرکٹ سے ممنوعہ فنڈنگ لی‘ جس کی تفصیل حال ہی میں موقر غیرملکی جریدے فنانشل ٹائمز میں سامنے آئی۔ فیصلے کے مطابق‘ عارف نقوی کی کمپنی سے 21 لاکھ 21 ہزار 500 امریکی ڈالرز کی ممنوعہ فنڈنگ لی گئی اور یہ فنڈنگ آف شور کمپنی ووٹن کرکٹ کے ذریعے حاصل کی گئی۔ ووٹن کرکٹ لمیٹڈ انگلینڈ کے مین آئی لینڈ میں رجسٹرڈ ہے جو ٹیکس سے بچنے کی محفوظ پناہ گاہ ہے۔ عارف نقوی نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے 21 لاکھ ڈالرز ووٹن کرکٹ لمیٹڈ کے اکاؤنٹ سے پی ٹی آئی کو بھیجے۔ اسی طرح پی ٹی آئی نے مجموعی طور پر 83 کروڑ سے زائد کے ایسے فنڈز لیے جن کے ذرائع معلوم نہیں۔ مزید برآں تحریکِ انصاف کو 7 لاکھ 92 ہزار 265 برطانوی پاؤنڈز کے ممنوعہ فنڈز بھی ملے۔ پی ٹی آئی کو آسٹریلیا کی 7 کمپنیوں سے 2 ہزار 560 ڈالرز کی ممنوعہ رقم موصول ہوئی۔ پاکستان تحریکِ انصاف کو بھارت کی 4 کمپنیوں سے بھی 1 ہزار 84 ڈالرز کی ممنوعہ رقم موصول ہوئی۔
اپنی ان تفصیلی فائنڈنگز کے بعد اب الیکشن کمیشن نے عمران خان کو شوکاز نوٹس جاری کیا ہے کہ کیوں نہ پارٹی کی جانب سے حاصل کردہ ممنوعہ فنڈنگ ضبط کرلی جائیں لیکن لگتا نہیں کہ پی ٹی آئی اس شوکاز کا جلد کوئی جواب دے گی‘ کیونکہ ممنوعہ فنڈنگ کیس کی سماعت کے دوران یعنی 2014ء کے بعد سے اس کیس کی تقریباً 200 سماعتیں ہوئیں جبکہ مقدمہ دائر ہونے کے وقت سے تحریک انصاف نے 30 سماعتوں میں التوا مانگا اور 6 مرتبہ مقدمے کے ناقابل سماعت ہونے یا الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار سے باہر ہونے کی درخواستیں دائر کیں جبکہ 9 بار اس کیس میں اپنے وکیل تبدیل کیے۔ الیکشن کمیشن نے 21 بار تحریک انصاف کو دستاویزات اور مالی ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت کیں‘ تب جاکر یہ فیصلہ سامنے آیا۔ اب پی ٹی آئی اس معاملے کو عدالت میں لے جانے کا اعلان کررہی ہے‘ لیکن بات یہ ہے کہ جو حقیقت سامنے آنا تھی وہ تو اب آگئی۔
میرے نزدیک‘ اہم ترین بات تو یہ ہے کہ فیصلے سے تصدیق ہو گئی کہ پی ٹی آئی نے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی۔ دوسری بات یہ ہے کہ فارن فنڈنگ بھی اس ممنوعہ رقم میں شامل تھی اور تیسری بات یہ ہے کہ پارٹی کے چیئرمین کا اکاؤنٹس کی تفصیلات کے حوالے سے سرٹیفکیٹ غلط ہے۔ اس ساری صورتحال سے اگلے اقدامات کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق‘ فارن فنڈنگ ثابت ہونے کی صورت میں کسی جماعت کو کالعدم قرار دینے کا اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہے کیونکہ الیکشن کمیشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 212 کے تحت فارن فنڈ لینے والی پارٹی کو وفاقی حکومت ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے تحلیل کر سکتی ہے اور 15 دن کے اندر معاملہ سپریم کورٹ بھیجے گی جس کا فیصلہ حتمی تصور ہوگا۔ یہ بھی واضح ہے کہ پی ٹی آئی نے ممنوعہ فنڈنگ کے ذریعے فارن فنڈنگ بھی قبول کی ہے اور دفعہ 212 میں درج ہے کہ کسی پارٹی کے فنڈز کا کچھ بھی حصہ اگر فارن نیشنل سے آئے گاتو پارٹی فارن فنڈڈ سیاسی جماعت کہلائے گی۔ عمران خان چونکہ غلط بیانی کا ارتکاب بھی کر چکے ہیں تو ممکن ہے کہ ان کے خلاف آرٹیکل 62 ایف ون کے تحت صادق اور امین نہ ہونے کے حوالے سے نااہل قرار دلوانے کے لیے بھی کارروائی شروع ہو جائے۔ عمران خان اس وقت سیاسی طور پر بہت مقبول ہیں لیکن اس فیصلے نے انہیں متنازع بنادیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ وہ اس نازک صورتحال سے کیسے نکل پاتے ہیں؟