قوم کو مبارک ہو کہ پاکستان 75 برس کا ہوگیا۔ یہ موقع فخر و انبساط کا بھی ہے اور لمحۂ فکریہ بھی۔ قابلِ فخر اس لیے کہ وہ ملک جس کے بارے میں کانگریس کے جید لیڈروں اور انگریزوں کا خیال تھا کہ یہ نوازئیدہ مملکت (خدانخواستہ) چند برس بھی سلامت نہیں رہ پائے گی اور بالآخر پکے ہوئے پھل کی طرح ہندوستان کی جھولی میں گرے گی‘ وہ تمام اندازے غلط ثابت ہوئے اور ہم نے بطورِ قوم کامیابی سے اپنی زندگی کے 75 سال مکمل کر لیے۔ دوسری طرف لمحۂ فکریہ اس لیے کہ یہ وہ ملک ہے ہی نہیں جس کا خواب بانیانِ پاکستان نے دیکھا تھا۔ وہ اس مملکتِ خداداد کو جس طرح کی اسلامی فلاحی ریاست دیکھنا چاہتے تھے‘ ہم اس مقصد کا عشرِ عشیر بھی نہ پا سکے۔ غربت‘ افلاس‘ جہالت‘ بے ہنگم آبادی اور آئین و قانون کی پاسداری نہ کرنے کے سبب ہم نشانِ منزل سے کوسوں دور ہیں۔ اس سفر میں ہم نے کیا کھویا‘ کیا پایا؟ اور مزید کیا پانے اور کھونے کی امید ہے‘ اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
میرے نزدیک بطورِ قوم ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ایک قوم بن ہی نہیں پائے۔ بدقسمتی سے ہم وطن سے محبت کے دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن جب ہمیں ذاتی مفاد اور قومی مفاد میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے تو ہم عمومی طور پر ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس ملک نے کتنوں کو کروڑ پتی یا ارب پتی بنایا‘ لیکن جب قومی خزانے میں ٹیکس جمع کروانے کا وقت آتا ہے تو ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب نکال کر دیکھ لیں کہ ہم باقی دنیا کے مقابلے میں کتنے پست مقام پر کھڑے ہیں۔ پاکستان نے کتنوں کو رہبری یا رہنمائی کا درجہ دیا‘ وزارتیں دیں‘ حکومتیں دیں‘ بڑا مقام دیا لیکن جب کالا باغ ڈیم یا کسی اور بڑے مقصد پر مجتمع ہونے کا وقت آیا تو ہمارے چھوٹے چھوٹے تعصبات نے پورے ملک کا مستقبل نگل لیا۔
اس ملک پر حکومت کرنے والے طالع آزما اچھی طرح جانتے تھے کہ کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی طرح پاکستان کا سنہرا مستقبل بھی قانون و آئین کی پاسداری میں چھپا ہے‘ نظریۂ ضرورت ایجاد کرنے والے نظام عدل کو بھی اس نظریے سے جنم لینے والی تباہی کا ادراک تھا‘ نام نہاد جمہوری حکمران بھی اسی طرح ووٹ لے کر چھوٹے موٹے فرعون بننے کی جستجو میں لگے رہے‘ یعنی قومی مفاد کے بجائے ذاتی مفاد ان کے پیش نظر رہا۔ آخر اس سب کا حاصل کیا ہے؟ یہی کہ آئین و قانون مذاق بن کر رہ گئے جس نے ہمیں ایک مضبوط قوم بننے سے مزید دور کردیا۔ آئین کو کبھی قومی اداروں کے اکٹھ نے گھر کی لونڈی بنا لیا تو کبھی جمہوری حکومتوں نے تگنی کا ناچ نچوا دیا‘ نتیجتاً اس وقت عام شہری بھی آئین کو عام کاغذ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا کیونکہ وہ دیکھ چکا ہے کہ اس ملک میں طاقت کے زور پر حکومتیں چھینی گئیں‘ طاقتور کیلئے قانون کچھ اور کمزور کیلئے کچھ اور بن گیا‘ جبکہ وقت پڑنے پر آئین کو موم کی ناک کی طرح کسی بھی طرف موڑا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے ہمارے اندر جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا رویہ راسخ ہو چکا ہے‘ یعنی جو طاقتور ہے اس کا قانون اور ہے اور ہمیں اس سے کوئی خاص مسئلہ بھی نہیں۔ سڑک پر بڑی گاڑی والا چھوٹی گاڑی والے کو‘ چھوٹی گاڑی والا موٹر سائیکل والے کو اور موٹر سائیکل والا سائیکل والے کو کچھ نہیں سمجھتا۔ آئین و قانون پر عملداری ہماری ترجیح کبھی رہی ہی نہیں‘ یہی وجہ ہے کہ آج ہم ان حالات کا شکار ہیں۔
میری نظر میں پاکستان کا دوسرا اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ عام شہری‘ حکومت اور ریاست دونوں کی ترجیح نہیں رہا۔ ہم نے انسانوں پر انویسٹ نہیں کیا۔ یعنی وہ ملک جس نے بہترین میزائل ٹیکنالوجی سے لے کر ایٹم بم تک بنا کر دنیا کو حیران کر ڈالا‘ جب اس ملک میں عام شہری کیلئے بجلی‘ صاف پانی اور صحت کے وسائل کسی تیسرے درجے کے افریقی ملک کی طرح ہوں گے تو ہماری ترجیحات پر سوالیہ نشان تو لگے گا۔ یہ صحیح ہے کہ ہماری مخصوص جیو سٹریٹجک لوکیشن اور ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ آزادی کے فوراً بعد اٹھنے والے تنازعات نے ہمیں سکیورٹی سٹیٹ بننے پر مجبور کردیا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ سوشل ویلفیئر کو ہم بھول ہی جائیں۔ تھر جیسے ریگستان میں پانی نہ ملنے کی قدرتی وجوہات تو سمجھ آتی ہیں لیکن سمندر کنارے بسنے والا کراچی کیوں پیاسا ہے؟ دریائے راوی چاہے معاہدۂ سندھ طاس میں فراست سے عاری فیصلوں کی بھینٹ چڑھ گیا لیکن اس بچے کھچے دریا کو نالہ بنانے میں کس کا ہاتھ ہے؟ کیوں دنیا میں سکولوں سے باہر سب سے زیادہ بچے پاکستان میں بستے ہیں؟ کیوں ایک ہی ملک میں پانچ نظام تعلیم ہیں اور کیوں ہم دنیا کو اچھے ہنر مند دینے سے قاصر ہیں؟ کیوں پی آئی اے‘ ریلوے اور سٹیل ملز جیسے شاندار ادارے آج اپنے ماضی کا شکستہ عکس بن گئے ہیں؟ کیوں ہمارا وکیل تاریخ پر تاریخ لینے کا طلبگار ہے جبکہ ڈاکٹر اپنے مطالبات منوانے کیلئے ایمرجنسی اور آئی سی یو کو تالے لگا کر مریضوں کو سسک سسک کر مرنے دیتا ہے؟ یہ تمام ہولناکیاں اپنی شدت کے ساتھ تبھی ابھرتی ہیں جب ریاستیں انسانوں پر سرمایہ کاری نہیں کرتیں‘ نتیجتاً ہماری حالت اس جاں بلب مریض جیسی ہوگئی ہے جو نہ تو جی پاتا ہے اور نہ ہی مرتا ہے۔
دوسری جانب‘ پاکستان میں ٹیلنٹ یا وسائل کی کوئی کمی نہیں۔ جب کبھی پاکستانیوں کو دنیا بھر میں کہیں بھی اچھا سسٹم یا نظام تعلیم ملا تو انہوں نے اپنی قابلیت کا سکہ پوری طرح جمایا۔ امریکہ سے لے کر آسٹریلیا تک کوئی ایک خطہ نہیں جہاں پاکستانی طلبا اور پروفیشنلز نے اپنا مقام نہیں بنایا۔ بہترین ڈاکٹر‘ انجینئر ز‘ بزنس مین اور ٹیکنالوجی کے ماہرین کا تعلق پاکستان سے ہے۔ پاکستان نے ڈاکٹر عبدالسلام‘ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے لے کر عارفہ کریم جیسے قابلِ فخر لوگ دنیا کو دیے۔ کھیل کے میدانوں میں ایک عرصے تک ہم نے حکمرانی کی بلکہ سال 1994ء میں وہ وقت بھی آیا جب پاکستان بیک وقت کرکٹ ‘ ہاکی ‘ سنوکر اور سکواش کا عالمی چیمپئن تھا۔ 1947ء کی بے سامانی سے لے کر 1965ء کی جنگ اور 2005ء کے زلزلے تک ہماری قوم نے لاتعداد مشکلات کا سامنا عزم و استقلال سے کیا۔ اسی طرح زرخیز زمینوں سے لے کر فلک بوس چوٹیوں تک پاکستان میں کیسے کیسے خوبصورت نظارے اور قدرتی وسائل موجود ہیں‘ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان تمام انسانی و قدرتی وسائل کا بہترین استعمال ہو تو کیسے ہو؟ کیا ہمارا کوئی رہبر‘ کوئی رہنما اس قابل نہیں کہ اس قافلے کو منزل کے پار پہنچا سکے یا کم از کم درست سمت میں ہی ڈال سکے؟ کیا اس کے بعد پاکستانی قوم اپنے رہبروں سے یہ پوچھنے میں حق بجانب نہیں کہ ؎
تو ادھر اُدھر کی بات نہ کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے