کالام کی ہری بھری وادی اپنے حسن سے آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے‘ جس کے دامن میں بہتا شفاف پانی سے لبریز دریائے سوات سبزے اور بلند پہاڑوں کا عکس سموئے بے ساختہ دلوں کو اپنی جانب کھینچتا ہے۔اسی لیے ملک بھر سے سیاح جوق در جوق ان فرحت بخش نظاروں کے مہمان بننے کی تمنا میں کھنچے چلے آتے ہیں۔ یہاں ان کے قیام کیلئے کئی عمدہ ہوٹل موجود ہیں‘ ان میں سے سب سے عمدہ ہوٹل ''ہنی مون‘‘ تھا‘ جو اپنے نام کی طرح خوبصورت اور رومانٹک تھا‘ جس کے کناروں پر دریا کا پانی سر پٹکتا اور دیکھنے والوں کو محظوظ کرتا تھا‘ لیکن آج یہ ہوٹل اپنی تمام تر حشر سامانیوں سمیت دریائے سوات کی تہہ میں پڑا ہے ‘ کیونکہ اس کی خوبصورت عمارت جتنی بھی بلند قامت اور مضبوط تھی‘اس کی قدرت کے سامنے حیثیت ایک تنکے کی مانند تھی جسے سیلابی ریلے یوں اڑا کر لے گئے جیسے وہ کبھی وہاں تھی ہی نہیں۔ قدرت سے چھیڑ چھاڑ کا یہی افسوسناک انجام ہوتا ہے‘ لیکن انسان غلطی سے سیکھ لے تو پھر خطا کا پتلا کیوں کہلائے۔ ہوٹل ہنی مون ‘ پہلی نہیں بلکہ دوسری مرتبہ یوں تباہی کا شکار ہوا۔ اس سے قبل 2010ء کے سیلاب نے اس ہوٹل کو زمین بوس کردیا تھا کیونکہ اس ہوٹل سمیت پہاڑی مقامات پر سیلابی ریلوں کی نذر ہونے والی متعدد عمارتیں غیر قانونی اور پانی کے راستے میں بنی تھیں‘ جن کی تعمیر میں مالکان کے علاوہ مقامی انتظامیہ اور صوبائی حکومتیں بھی ذمہ دار تھیں جو دریا کنارے تعمیرات کے حوالے سے واضح قوانین ہونے کے باوجود ان پر عمل کروانے میں دلچسپی نہیں رکھتیں اور یوں ہر چند سال بعد جب تباہ کن سیلاب آتا ہے تو ہمیں بار بار وہی تباہی دیکھنا پڑتی ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ 2010 ء میں آنے والے سیلاب سے پوری وادی سوات میں تباہی ہوئی تاہم سب سے زیادہ نقصان وادیٔ کالام میں ہوا تھا جہاں کئی عمارتیں اور سڑکیں سیلابی پانی کے نذر ہوگئی تھیں۔ کچھ عرصہ بعد شہریوں نے سیلاب سے تباہ ہونے والے علاقوں میں عمارات کی تعمیر کے حوالے سے قوانین سے آگاہی نہ ہونے یا پھر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی مرضی کے مطابق مکانات اور کاروباری مراکز آباد کرنا شروع کر دیے۔انہی میں کالام میں دریا کے کنارے 'نیو ہنی مون‘ کے نام سے ایک نیا ہوٹل تعمیر کیا گیا‘ کیونکہ پرانا ہوٹل سیلاب سے تباہ ہوگیا تھا جس سے مالکان کو اندازاً 20 کروڑ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ قانون کے مطابق ریور پروٹیکشن ایکٹ سوات میں بھی لاگو ہے جس کے تحت دریا کے کنارے سے دو سو فٹ تک کوئی عمارت بنانا غیر قانونی ہے‘ لیکن اس کے باوجود دریا کے کنارے تعمیرات ہورہی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کیا جاسکے‘ لیکن اس کا نتیجہ انسانی المیوں کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔
ایک ہی غلطی بار بار کرنے کا انجام یہ ہے کہ ہمیں دوبارہ وہی نتائج بھگتنے پڑ رہے ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی کا قیام 2010ء کے سیلاب کے بعد عمل میں لایا گیا تھا تاکہ ایسی کسی آفت سے نمٹنے کیلئے ایک ادارہ موجود ہو جو لوگوں کی مدد کیلئے بروقت پہنچ سکے۔ اس ادارے نے بہت اچھا کام کیا لیکن اس کی ایک بڑی کوتاہی یہ ہے کہ یہ کسی آفت سے قبل متاثرین کو بروقت اطلاع فراہم کرنے میں ناکام نظر آتا ہے بلکہ مربوط پلاننگ کے ذریعے ایسی قدرتی آفات کا نقصان کم سے کم کرنے میں بھی کامیاب ثابت نہیں ہورہا۔ موجود سیلاب تقریباً 12 سال قبل آئے تباہ کن سیلاب کا ری پلے ہے اور زیادہ خطر ناک ری پلے ہے‘ لیکن این ڈی ایم اے ‘ صوبائی اور وفاقی حکومت وہی غلطیاں دہرا رہے ہیں جو وہ اس سے قبل بھی کر چکے ہیں‘ یعنی نہ وہ سیلاب کی روک تھام کے حوالے سے مؤثر اقدا مات اٹھارہے ہیں اور نہ اس حوالے سے بننے والے قوانین پر عمل کروانے میں کامیاب ہورہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ سیلاب سے ہونے والے نقصانات بڑھتے جارہے ہیں۔ محکمہ موسمیات کے مطابق 2010ء کا سیلاب 'دریائی سیلاب‘تھا جبکہ رواں مون سون میں آنے والے سیلاب کو فلیش فلڈ کہا جاتا ہے۔ کلاؤڈ برسٹ کی وجہ سے دریاؤں میں پانی کی سطح اچانک بلند ہوئی اور پانی تمام تر حفاظتی بند اور پشتوں سے بلند ہو کر دیہات اور شہروں میں داخل ہو گیا۔2010ء کے سیلاب میں ملک کے 78 جبکہ رواں سال 116 اضلاع متاثر ہوئے ہیں۔ 2010ء میں دو کروڑ آبادی جبکہ اس سال اب تک تین کروڑ سے زائد آبادی متاثر ہوچکی ہے۔ مسلسل دو ماہ سے ہونے والی بارشوں کے باعث زمین کے اندر مزید پانی جذب کرنے کی صلاحیت یا گنجائش نہیں رہی یہی وجہ ہے کہ جوں جوں بارشیں ہو رہی ہیں پانی سیلابی ریلوں کی شکل اختیار کرتا جاتا ہے۔ اس سے وہ علاقے جو پہاڑیوں کے قریب ہیں‘ جیسا کہ جنوبی پنجاب‘ بلوچستان‘ چترال اور سوات‘ شدید متاثر ہوئے جبکہ سندھ کے بیشتر اضلاع میں سیلابی ریلے نہیں آئے بلکہ بارشوں کا پانی ہی اتنا زیادہ ہے کہ اسے کہیں جانے کا راستہ نہیں مل رہا اور وہ شہروں اور دیہات میں مسلسل جمع ہو رہا ہے جس سے انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ مکانات‘ جانور اور فصلیں تباہ ہو رہی ہیں۔
2010ء کے سیلاب میں نقصانات کا تخمینہ 10 ارب ڈالر لگایا گیا تھا تاہم رواں سال سیلاب کے باعث ہونے والی تباہ کاریوں کا ڈیٹا تو مرتب کیا جا رہا ہے لیکن خدشہ ہے کہ یہ سیلاب پاکستان میں غذائی قلت لاسکتا ہے کیونکہ صرف صوبہ سندھ کی 90 فیصد فصلیں تباہ ہوگئی ہیں‘ یعنی ہمیں اپنی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کیلئے اجناس امپورٹ کرنا پڑیں گی ‘ جس سے ہمارا قیمتی زر مبادلہ بھی خرچ ہوگا اور کھانے کی اشیا مہنگے داموں بکیں گی۔ اس وقت پاکستان کو سیلاب سے نمٹنے کیلئے قبل از وقت خبردار کرنے والے مؤثر نظام کی ضرورت ہے۔
ایک امریکی تھنک ٹینک ''ورلڈ ریسورس انسٹیٹیوٹ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق ہر سال پاکستان میں اندازاً سات لاکھ 15 ہزار افراد سیلاب سے متاثر ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں ملک کے جی ڈی پی کا سالانہ نقصان تقریبا ایک فیصد یعنی 1.7 ارب ڈالر تک ہوتا ہے۔ اس کے ذیلی اثرات کے نتیجے میں 2030ء تک پاکستان میں سالانہ 2.7 ملین افراد دریائی سیلابوں سے متاثر ہو سکتے ہیں‘ تاہم ملک میں خستہ حال ارلی وارننگ سسٹم کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ابھی باقی ہے اور سیلابی خطرات سے متاثرہ شہروں میں سیلابی ریلوں سے ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کیلئے جدید ترین ٹیکنالوجی نصب کرنے کی ضرورت ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک طویل مدت کی واٹر پالیسی‘ اپ گریڈیڈ ٹیکنالوجی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ معلومات کا تبادلہ پاکستان کو سیلابی پانی کی آفات سے نکلنے میں مدد کرسکتا ہے۔ ملک میں موسم کی پیشگوئی کیلئے مختلف شہروں میں سات ریڈار نصب کیے گئے ہیں جو کہ اگرچہ ایک ارلی وارننگ سسٹم کے اہم حصے ہیں لیکن ان میں سے صرف دو ریڈار مؤثر طریقے سے کام کر رہے ہیں۔ ہما رے پاس 15 سال پرانی ریڈار ٹیکنالوجی ہے‘ اگر ملک کو سونامی‘ سائیکلون اور سیلاب جیسی قدرتی آفات کی تباہ کاریوں سے مؤثر انداز میں بچانا ہے تو اس پرانے نظام کو جدید نظام سے بدلنے کے حوالے سے فوری فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔