ملکی سیاست اس وقت دو نکات کے گرد گھوم رہی ہے کہ عام انتخابات کب ہوں گے اور نیا آرمی چیف کون ہوگا؟ لندن میں وزیراعظم شہباز شریف کی سابق وزیراعظم میاں نواز شریف سے ہوئی ملاقات کے بعد سامنے آنے والی خبروں کے مطابق نہ حکومت وقت سے پہلے انتخابات کروائے گی اور نہ ہی نومبر میں ہونے والی تعیناتی کے حوالے سے کوئی پریشر قبول کرے گی۔ یاد رہے کہ 1988ء میں جمہوریت کے احیا ء سے لے کر اب تک یہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف ہی ہیں جن کے ادوار میں نہ صرف سب سے زیادہ آرمی چیفس کی تعیناتی ہوئی بلکہ ان کے ادوار میں کسی سربراہ کو ایکسٹینشن بھی نہیں دی گئی۔ ان 34 برسوں میں صرف دو ایکسٹینشنز ہوئیں‘ جن میں سے ایک پیپلز پارٹی اور دوسری پاکستان تحریک انصاف نے دی۔ اس ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ میاں نواز شریف نے وزیراعظم شہباز شریف کو عمران خان کے دباؤ میں آ کر موجودہ سربراہ کو توسیع دینے کی بات کی ہو گی۔ خاص طور پر جب ڈی جی آئی ایس پی آر بھی کہہ چکے ہیں کہ آرمی چیف 29 نومبر کو ریٹائر ہونے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ سابق وزیراعظم نے موجودہ وزیراعظم کو میرٹ پر تعیناتی کے لیے اپنا آئینی اختیار بروئے کار لانے کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کیا ہو گا کہ جلد انتخابات کے لیے وہ عمران خان کے لانگ مارچ اور احتجاج کی دھمکیوں کو خاطر میں نہ لائیں اور اپنی حکومت کی مدت پوری کریں۔ 2014ء میں جب عمران خان اسلام آباد کا گھیراؤ کرکے میاں نواز شریف سے استعفیٰ مانگ رہے تھے تو سابق وزیراعظم نے ان کی ایک نہ سنی تھی‘ یہ دھرنا ناکام ہوگیا تھا‘ اسی لیے وہ اب بھی عمران خان کی لانگ مارچ کی دھمکی کو زیادہ اہمیت نہیں دے رہے۔ دوسری جانب‘ شہباز حکومت نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے اپنی سیاسی ساکھ کی بڑی قربانی دی ہے لیکن اس وقت ان کا الیکشن میں جانے کا مطلب عوام کے ہاتھوں وائپ آوٹ ہونا ہے کیونکہ عوام حکومت کے مشکل معاشی فیصلوں کی وجہ سے مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ مہنگی بجلی‘ مہنگے پٹرول اور مہنگے آٹے کا سارا غصہ عوام اگلے عام انتخابات میں نکال سکتے ہیں۔ میاں نواز شریف یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں اسی لیے وہ فی الحال چاہتے ہیں کہ شہباز حکومت جلد انتخابات کے لیے نہ عمران خان کے دباؤ میں آئے اور نہ ہی اس حوالے سے کسی اور حلقے کے مطالبہ پر کوئی کان دھرے۔
دوسری طرف سابق وزیراعظم عمران خان چاہتے ہیں کہ ملک میں فوری انتخابات کروائے جائیں اور اگر اس حوالے سے کوئی تاخیر ہو بھی تو اگلے سال مارچ تک ہر حال میں انتخابات ہو جانے چاہئیں اور پھر نئی حکومت نئے آرمی چیف کا تقرر کرے‘ تب تک موجودہ سربراہ کو توسیع دے دی جائے۔ عمران خان کے اس مطالبے کا تجزیہ کریں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ وہ اگلے انتخابات بڑی آسانی سے بلکہ دو تہائی اکثریت سے جیت جائیں گے اور جس کے بعد وہ اپنی مرضی سے نئے آرمی چیف کا تقرر کریں گے۔ خان صاحب کے اقتدار کا محور ہمیشہ سے اسی اہم تعیناتی کے گرد گھومتا رہا ہے۔ اب بھی ان کے اندرونی حلقوں سے یہ خبر ملی ہے کہ وہ مخصوص طریقے سے تقرریاں کرکے اگلے دس سال تک اقتدار کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان کا اقتدار پہلے بھی تمام تر پلاننگ کے باوجود چوتھے سال میں داخل نہ ہو سکا۔ اب عمران خان نے اس اہم تقرری کے حوالے سے جو تنازع کھڑا کیا ہے‘ وہ اسی امر کی عکاسی کرتا ہے کہ کپتان عوامی طاقت کے بجائے شارٹ کٹس سے اقتدار میں آنے کے خواہشمند ہیں۔ اُدھر خان صاحب کا کہنا ہے کہ اگر انتخابات کا جلد اعلان نہ کیا گیا تو وہ ایک عدد لانگ مارچ کا اعلان کر سکتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے چکوال جلسے میں ایک لمبی خاموشی کے بعد جس طرح پھر سے اداروں کے حوالے سے جارحانہ رویہ اپنایا ہے‘ اس نے بہت سے افراد کو چونکا دیا ہے۔ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی یہ واضح کر چکے تھے کہ ملک کو سیاسی انتشار سے نکالنے کے لیے وہ عمران خان اور اہم شخصیات کے مابین مصالحت کا کردار ادا کررہے ہیں۔ اس حقیقت کی نشاندہی اس وقت بھی ہوئی جب عمران خان نے جلسوں میں اداروں کے بجائے صرف حکومت پر تنقید شروع کردی لیکن چکوال جلسے میں جس طرح انہوں نے دوبارہ اداروں کو اپنے نشانے پر رکھا اس سے یوں لگتا ہے کہ شاید اہم افراد سے مذاکرات ناکام ہوگئے۔ دوسرے‘ خان صاحب اپنی شنوائی نہ ہونے پر اضطراب کا شکار ہیں۔
خان صاحب اضطراب کا شکار اس لیے بھی ہوئے ہیں کیونکہ اُن کے پاس کھیلنے کے لیے پتے بہت کم رہ چکے ہیں اور یہ بھی نہیں پتا کہ وقت آنے پر اُن کے باقی ماندہ پتے ہوا کے ساتھ اُڑ جائیں۔ گزشتہ دنوں عمران خان نے پارٹی کے کور کمیٹی اجلاس میں اپنے چند سینئر ساتھیوں کو وارننگ دی کہ وہ انہیں بائی پاس کرتے ہوئے مقتدرہ سے میل ملاقات نہ کریں۔ فیصل واوڈا کے بقول پی ٹی آئی کے کچھ رہنما ان ملاقاتوں میں عمران خان کے خلاف غلط فہمیوں کو مزید بڑھاتے ہیں اور سارا ملبہ کپتان پر ڈال کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔ عمران خان پریشان ہیں کہ ان کے اپنے ساتھی اُن کے مقتدرہ مخالف بیانیے میں اُن کا ساتھ دینے سے ہچکچا رہے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ اب عمران خان کے پاس لانگ مارچ کے سوا کوئی آپشن نہیں اور اگر یہ آخری آپشن بھی ناکام ہو جاتا ہے‘ جیسا کہ مولانا فضل الرحمن کے بقول وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کا سامنا کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں‘ تو پھر عمران خان کیا کریں گے؟ اگر وفاقی حکومت اس لانگ مارچ کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ خان صاحب کی پاپولسٹ سیاست تو دب کر رہ جائے گی۔ ویسے بھی عمران خان سیلاب اور معاشی مشکلات کے ان دنوں میں بھی عوامی مسائل کے بجائے اپنی سیاست کے جس بیانیے کے ساتھ مسلسل جلسے کررہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ ان کے حمایتی بھی جلد تھک جائیں گے۔ وہ جب دیکھیں گے کہ عمران خان اس دباؤ سے جلد انتخابات کا آپشن حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں تو ان میں مایوسی پھیل جائے گی۔ عوام ریاستی اداروں کے ساتھ قلبی لگاؤ رکھتے ہیں‘ وہ آخر کب تک کسی سیاسی جماعت کے بیانیے میں آکر اداروں کے خلاف باتیں سنیں گے۔
اس وقت بہترین راستہ یہی ہے کہ آئین کے مطابق چلا جائے۔ کچھ شخصیات کے ذاتی مفادات کے بجائے ملک کا مفاد عزیز رکھا جائے۔ موجودہ حکومت اس وقت سیلاب کی تباہ کن صورتحال کا سامنا کررہی ہے‘ اسے چاہیے کہ اپنی پالیسی کا تسلسل جاری رکھتے ہوئے ملک کو ان چیلنجز سے نکالے۔ انتخابات اپنے وقت پر منعقد ہوں جبکہ وزیراعظم شہباز شریف اپنے آئینی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے نئے سپہ سالار کا تقرر کریں۔ اس وقت ملک کسی نئے بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ تمام فریقوں کے لیے یہی ضروری ہے کہ آئین کے مطابق چلیں اور غیر ضروری تنازعات میں الجھنے سے گریز کریں۔