ملک عزیز پاکستان میں ہر مسئلے کی طرح عمران خان پر حملے کا معاملہ بھی سیاست زدہ ہوگیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایف آئی آر کے اندراج کے معاملے پر پی ٹی آئی اپنی ہی پنجاب حکومت کے خلاف احتجاج کررہی ہے۔ اصل مسئلہ یہ احتجاج نہیں بلکہ وہ بیانیہ ہے جو اس حملے کی شفاف تحقیقات سے قبل ہی بنایا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے سپریم کورٹ کو عمران خان پر حملے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کی دوسری دفعہ استدعا کردی ہے تاکہ اصل حقائق ریکارڈ پر لائے جا سکیں۔ ویسے تو حملے کے بعد خان صاحب کے لیے ایف آئی آر کا اندراج کرانا اتنا پیچیدہ معاملہ ثابت نہیں ہونا چاہیے تھا جتنا ہو گیا۔ جب ملک میں آئین اور قانون موجود ہے تو پھر ایک پرچے کا اندراج اتنا مشکل کیوں ہو گیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کو مداخلت کرکے سابق وزیراعظم پر حملے کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دینا پڑا۔ شنید ہے کہ ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر کی وجہ یہ تھی کہ عمران خان جن تین اہم عہدیداروں کو مقدمے میں نامزد کرنا چاہتے تھے‘ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی اس پر عملدرآمد کے لیے تیار نہیں تھے۔ آئی جی پنجاب نے عدالتِ عظمیٰ کے استفسار کرنے پر واضح کردیا تھا کہ انہیں ایف آئی آر درج کرنے سے پنجاب حکومت نے منع کیا تھا‘ یعنی اس مقدمے کے اندراج میں رکاوٹ وفاقی حکومت یا کسی ادارے کے بجائے پی ٹی آئی کے اپنے اتحادی تھے۔ اس کے بعد عمران خان اور چودھری پرویز الٰہی کے تعلقات میں سرد مہری کوئی اچنبھے کی بات نہ ہوگی کیونکہ اس دوران ایک موقع ایسا بھی آیا جب ہمارے واقفانِ حال کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنا منصب چھوڑنے کی پیشکش کردی کہ اگر خان صاحب کو بطور اتحادی ان کی طرف سے دیے گئے مخلصانہ مشورے پر یقین نہیں تو پھر وہ اپنا عہدہ چھوڑ دیتے ہیں لیکن پرچہ قانون کے مطابق ہی کٹے گا۔ تحریک انصاف جنہیں نامزد کرنا چاہتی تھی کیا انہوں نے اس حوالے سے کوئی ثبوت دیا کہ وہ کس بنا پر وزیراعظم‘ وزیر داخلہ اور ایک ادارے کے افسر کونامزد کرنا چاہتی ہے؟ جب حال ہی میں سی این این پر انٹرویو دیتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی نے حسبِ سابق اپنے الزامات دہرائے تو اینکر نے بار بار عمران خان سے ثبوتوں کے بارے میں پوچھا لیکن خان صاحب اسے مطمئن نہ کر سکے۔ عمران خان نے اب پنجاب پولیس کی جانب سے کاٹی گئی ایف آئی آر کو قانونی طور پر چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے کیونکہ ان کا مؤقف ہے کہ ایف آئی آر ان کی دی گئی درخواست کے مطابق درج نہیں کی گئی۔ یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ قانونی ماہرین کے مطابق پولیس آرڈر 2002ء میں یہ بات یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ جھوٹے پرچے کروانے کی علت جو معاشرے میں عام ہو چکی ہے‘ اس پر قدغن لگائی جا ئے۔ اس طرح تو کوئی بھی بلاوجہ کسی کے بھی خلاف درخواست دے سکتا ہے۔ پولیس آرڈر میں یہ بھی واضح ہے کہ مدعی کا حق ہے کہ اس کی دی ہوئی معلومات کے مطابق ہی ایف آئی آر درج کی جائے‘ لیکن اگر پولیس ایسا نہیں کرتی تو اپنی مرضی کی ایف آر درج کرنے کے بعد متاثرہ افراد سے ان کے بیانات کراس ورژن کے طور پر ریکارڈ کا حصہ بنانے کی پابند ہے۔ یوں اگر عمران خان ایف آئی آر کے متن سے مطمئن نہیں تب بھی وہ دورانِ تفتیش کسی مرحلے پر اپنا بیان ریکارڈ پر لا سکتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ پولیس آرڈر‘ پنجاب پولیس کو بھی ایف آئی آر کے اندراج کا اختیار دیتا ہے کیونکہ اس وقت متعلقہ تھانے کی پولیس بھی وقوعہ پر موجود تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ پولیس خود اس واقعہ کی ایف آئی آر درج کر سکتی ہے کیونکہ وہ بھی اس کی عینی شاہد ہے۔ ویسے بھی تفتیشی افسر کے پاس یہ اختیارات ہیں کہ وہ ضابطۂ فوجداری کی شق 161 کے تحت عمران خان اور دیگر زخمیوں کے بیان ریکارڈ پر لا سکتا ہے اور ایف آئی آر کے اندر درج مواد یا ملزمان کے ناموں کو شق 157 بی کے تحت ختم کر سکتا ہے۔
بہرحال ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر اور پھر اس کے متن نے تحریک انصاف کے چیئرمین کو اپنا یہ بیانیہ آگے بڑھانے میں مدد دی ہے کہ کچھ حلقے اپنے اثر و رسوخ سے انہیں انصاف دلوانے میں تاخیر کر رہے ہیں۔ دوسری طرف پولیس کے مطابق عمران خان کی جانب سے میڈیکولیگل دیر سے کروانے‘ ایف آئی آر کا متن مرضی سے لکھوانے کی ضد نے یہ تاخیر کی‘ صرف یہی نہیں بلکہ عمران خان کا یہ مطالبہ کہ اس کیس کی تفتیش تب کی جائے جب ان کے مطابق وہ تینوں افراد عہدوں سے استعفیٰ دے دیں جنہیں وہ ایف آئی آر میں نامزد کروانا چاہتے تھے۔ یعنی وہ وزیراعظم کی جانب سے عدلیہ پر مشتمل تحقیقاتی کمیشن بنانے کے اعلان کا تو خیر مقدم کررہے ہیں لیکن اس کو مشروط بنا کر معاملے کو سیاسی رنگ دے رہے ہیں۔ لیکن جب خان صاحب کے پاس کوئی ثبوت نہیں تو وہ کس بنیاد پر تینوں افراد سے استعفیٰ مانگ سکتے ہیں؟ کیا یہ لوگ صرف اس لیے استعفیٰ دے ڈالیں کیونکہ عمران خان ایسا چاہتے ہیں‘ یہ مطالبہ مضحکہ خیز ہے۔ یہ ایسے ہی جیسے خان صاحب نے 2014ء میں چار حلقوں کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف کے استعفے کا مطالبہ کیا تھا‘ بعدازاں جوڈیشل کمیشن نے چاروں حلقوں میں کسی بھی منظم ٹھوس دھاندلی کے الزام کو یکسر مسترد کردیا تھا۔
قارئین کو ایک اور تاریخی حوالہ دیتے چلیں کہ حال ہی میں عمران خان نے صدرِ مملکت کو خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ بطور سپریم کمانڈر وہ پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے کام کا دائرہ کار دفاعی اور عسکری معاملات پر معلومات کے اجرا تک محدود کریں۔ عمران خان کا یہ مطالبہ بھی جائز نہیں کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ عمران خان اپنے دور میں اداروں کو اپوزیشن اور اپنے اتحادیوں کے خلاف استعمال کرنے کا اعتراف بھی کر چکے ہیں‘ اس لیے انہیں یہ مطالبہ جچتا نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ صدرِ مملکت کے پاس اداروں پر اثر انداز ہونے کا کوئی اختیار ہی نہیں ہے۔ جب 1997ء میں سپریم کورٹ پر حملے کا واقعہ ہوا تو اس وقت کے چیف جسٹس‘ جسٹس سجاد علی شاہ نے صدر مملکت فاروق لغاری سے درخواست کی تھی کہ وہ آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو حکم دیں کہ ان کی حفاظت کے لیے فوجی دستہ مقرر کیا جائے کیونکہ انہیں پولیس پر بھروسا نہیں۔ صدرِ مملکت کے خط کے جواب میں جی ایچ کیو نے وضاحت دی کہ وہ صدر کے ماتحت نہیں بلکہ محکمہ دفاع کے ماتحت ہیں جو وزیراعظم ہاؤس کے ماتحت ہے‘ اس لیے انہی سے بات کی جائے۔ اس لیے عمران خان کو ایسے غیر آئینی مطالبے نہیں کرنے چاہئیں۔ بہتر یہی ہے کہ جس طرح وزیراعظم نے چیف جسٹس کو دوسرا خط لکھ کر واقعہ کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کی استدعا کی ہے‘ عمران خان بھی اس واقعہ پر سیاست کے بجائے اس تجویز کا خیرمقدم کریں۔ چاہے لانگ مارچ کا دوبارہ آغاز کردیں لیکن ایسے کسی بھی عمل سے احتراز کیا جائے جس سے حقائق کے مسخ ہونے کا کوئی احتمال ہو تاکہ اُن پر حملے کے اصل حقائق سامنے آئیں اور ملک میں جاری غیریقینی کی صورتحال ختم ہو سکے۔