چھ ماہ سے زائد عرصے کے سیاسی ہنگامے کے بعدبالآخر محسوس ہوا کہ شاید حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان برف پگھلے گی۔ عمران خان الیکشن تاریخ دینے کے عوض مذاکرات پر آمادہ ہوئے ہیں اور بدلے میں صوبائی اسمبلیاں تحلیل نہ کرنے کے حوالے سے مذاکرات کی بات کررہے ہیں۔ پی ڈی ایم کی جانب سے رانا ثنا اللہ نے اس پیشکش کا خیر مقدم کیا لیکن اس کے مشروط ہونے پر اعتراض کیا ‘ یعنی بنیادی طور پر بات چیت آگے بڑھنے کی راہیں کھلنے کی امید پیدا ہو ئی کیونکہ دونوں جماعتوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔تاہم خواجہ سعد رفیق سمیت بعض وفاقی وزرانے مذاکرات سے انکار کیا ہے۔
عمران خان نے جب صوبائی اسمبلیاں توڑنے کی دھمکی دی تب بھی اس کالم میں یہی تحریر کیا تھا کہ یہ عمران خان کے ترکش کا آخری تیر ہے جسے وہ لانگ مارچ کی ناکامی کے بعد فیس سیونگ کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ جب انہوں نے یہ دھمکی بھی دے ڈالی تو لامحالہ معاملہ آگے مذاکرات کی جانب ہی جانا تھا کیونکہ پی ٹی آئی پنجاب کی پارلیمانی کمیٹی کی اکثریت فی الحال اسمبلی توڑنے کے حق میں نہیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب کے صاحبزادے مونس الٰہی بھی اگلے بجٹ تک صوبائی حکومت برقرار رکھنے کے حامی ہیں‘ اگرچہ وہ یہ بات بھی کہہ چکے ہیں کہ عمران خان جب کہیں گے اسمبلی توڑ دی جائے گی۔وزیر اعلیٰ پنجاب کا بھی خیال ہے کہ پنجاب اسمبلی تبھی تحلیل کی جائے جب اس کے نتیجے میں جنرل الیکشن کا ماحول بنے۔ ایسے میں عمران خان کی جانب سے مشروط بات چیت کی پیشکش معنی خیز ہے کیونکہ انہیں اس بند گلی سے نکلنا ہے جس میں انہوں نے خود کو بڑی محنت کے ساتھ لاکھڑا کیا ہے۔ اسی لئے پہلی دفعہ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ الیکشن کی تاریخ دیں تو ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں بلکہ انہوں نے صوبائی اسمبلیاں نہ توڑنے کے عوض مذاکرات کی بات کی ہے جو ایک بڑی پالیسی شفٹ ہے۔ اس سے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ وہ فی الحال صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے معاملے کو طوالت دینا چاہتے ہیں تاکہ سسٹم میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھیں۔دوسری جانب پی ڈی ایم حکومت بھی بہت سے چیلنجز سے نبرد آزما ہے اور اس وقت عمران خان کی صوبائی اسمبلیاں توڑنے کی دھمکی سے پریشان لگتی ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ایک اور سیاسی انتشار ڈولتی ہوئی ملکی معیشت کے لیے نقصان دہ ہو گا۔ گزشتہ چھ ماہ کے سیاسی حالات نے ملک میں استحکام نہیں آنے دیا۔طرح طرح کے سیاسی بیانیوں کے ذریعے ادھم مچائے رکھا جس سے پاکستان کا عالمی امیج بھی متاثر ہوا۔ اس کی سب سے بڑی مثال بدترین سیلاب کے نتیجے میں دنیا کا امداد دینے میں ٹھنڈا رسپانس تھا۔
تیرہ جماعتوں پر مشتمل حکومت عمران خان کے ان بیانیوں کا توڑ پیش نہ کرسکی جن سے عمران خان صاحب اب خود یوٹرن لے رہے ہیں۔ دوسری جانب آئی ایم ایف نے پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا ہے جس کا احساس اسحق ڈار صاحب کی باتوں سے بھی ہورہا ہے۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا‘ لیکن عالمی مالیاتی ادارہ اس پرآشوب دور میں بھی ڈو مور کی رٹ لگائے ہوئے ہے۔ گوکہ پاکستان نے سکوک بانڈ کی وقت سے پہلے ادائیگی کرکے ایک دفعہ پھر ثابت کردیا ہے کہ ہم ادائیگی کے حوالے سے عالمی کمٹمنٹس پر قائم و دائم ہیں اور دیوالیہ نہیں ہورہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ سعودی عرب نے اپنے تین ارب ڈالرز قومی خزانے میں رکھنے کی مدت میں ایک سال کی توسیع کردی ہے لیکن یہ ڈالر ہیں تو ادھار کے۔اوپر سے ایل سیز کا نہ کھلنا‘ ایکسپورٹ انڈسٹری کے علاوہ مقامی انڈسٹری کے لیے گیس کی لوڈ شیڈنگ مسائل کو گمبھیر بنا رہی ہے۔ امپورٹ پر پابندی سے مقامی صنعتیں گھاٹے میں جارہی ہیں کیونکہ خام مال ہی نہیں آئے گا تو ہم بنائیں گے کیا؟ ہماری لوکل مینوفیکچرنگ تو نہ ہونے کے برابر ہے ‘ ہم 75 سال سے چیزیں اسمبل کرکے ان پر میڈ اِن پاکستان کا ٹھپہ لگا کر خوش ہورہے ہیں۔ایسے میں حکومت کے پاس فی الحال معیشت درست کرنے کا کوئی فارمولا نہیں ‘ سوائے اس کے کہ ملک میں سیاسی استحکام قائم ہو ‘ غیر ملکی سرمایہ کاری آئے‘ ایکسپورٹس بڑھیں اور معیشت کا پہیہ گھومے۔
اس صورتحال میں حکومت کے پاس عمران خان کے ساتھ مذاکرات کرنا بہترین آپشن ہے۔ اگرعمران خان مارچ ‘ اپریل میں الیکشن چاہتے ہیں اور پی ڈی ایم اکتوبر میں انتخابات چاہتی ہے تو دو دو قدم سب پیچھے ہٹیں اور اگلے سال کے وسط میں الیکشن کروالیں۔ تب تک پی ڈی ایم حکومت نے اپنی غیر مقبولیت کم کرنے کے لیے جو اقدامات اٹھانے ہیں اس پر کاربند ہوجائے اور پنجاب حکومت بھی جو صوبائی بجٹ دینا چاہتی ہے‘ اپنی مرضی سے وہ بھی پیش کر لے۔ اس وقت ملک چلانے کے لیے دونوں فریقوں کو سیاسی لچک دکھانے کے ساتھ ساتھ سیاسی پختگی بھی دکھانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت ان کے پاس گارنٹر کوئی نہیں۔ اسی لیے وہ ایک دوسرے سے جو بات کریں اس پر قائم بھی رہیں۔ یاد رہے کہ یہ مذاکرات صرف الیکشن کروانے کی حد تک محدود نہیں ہونے چاہئیں بلکہ ملک کو آگے کیسے چلانا ہے اس پر بھی گفت و شنید ہونی چاہیے۔ بہترین حل یہی ہے کہ پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں واپس آئے اور الیکشن ریفارمز‘ سول بالادستی اور احتساب کے حوالے سے حکومت کے ساتھ مل کر قانون سازی کرے۔ بدلے میں حکومت قبل از وقت انتخابات کی صورت میں انہیں فیس سیونگ دے تاکہ ہم دوبارہ ایک مستحکم آغاز کرسکیں۔
عمران خان ''چوروں ڈاکوؤں‘‘ کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کی ضد تو چھوڑ چکے ‘ نواز شریف بھی وسیع قلب دکھائیں اور عمران خان کے حوالے سے رویے میں لچک پیدا کریں۔ گوکہ آصف زرداری نے ایک حالیہ انٹرویو میں صوبائی اسمبلیوں میں تحریک عدم اعتماد لانے کی بات کی لیکن زرداری صاحب مفاہمت کے بادشاہ ہیں ‘ وقت آنے پر وہ بھی مذاکرات کو ترجیح دیں گے۔ دوسری جانب (ن) لیگ کی جانب سے الیکشن میں جانے کی ہچکچاہٹ کا جائزہ لیں تواس میں پنجاب سے ہار جانے کا خوف واضح ہے۔ جس کا صرف ایک ہی حل ہے نظر آتا ہے کہ نوازشریف وطن واپس آئیں اور پارٹی قیادت سنبھالیں۔اپنے قانونی معاملات حل کریں اور یہاں آکر معاملات کو ڈیل کریں۔ (ن) لیگ کا ووٹ بینک ان کے مرہون منت ہے ‘ جو حالیہ سخت فیصلوں کی وجہ سے بڑی حد تک ختم ہوچکا ہے۔ آخری حل کے طور پر انہیں واپس آکر کارکنوں کو پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ وہ ان کے درمیان موجود ہیں۔ اسی طرح پارٹی پر گرفت مضبوط کرکے اسے 90ء کی سیاست سے نکال کر موجودہ دور کے تقاضوں میں ڈھالیں تاکہ نوجوانوں کی پارٹی پی ٹی آئی کا مقابلہ کرسکیں۔ اپنی جماعت کا مؤقف طویل پریس کانفرنسوں کی بجائے سوشل میڈیا پر مؤثر انداز میں بیانیے کے انداز میں پیش کریں تاکہ ان کا پیغام عوام الناس خاص طور پر نوجوانوں تک پہنچ سکے۔ جلد از جلد انتخابات کروائیں کیونکہ ماہرین کے مطابق اگلا بجٹ مزید سخت ہوسکتا ہے ‘ اس لیے (ن) لیگ کے لیے بہتر ہو گا کہ یہ بجٹ نگراں حکومت کے لیے چھوڑ دے اور خود اس کا بوجھ نہ اٹھائے۔ دوسری صورت میں اگلے انتخابات میں سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ (ن) اٹھائے گی کیونکہ سندھ دوبارہ زرداری صاحب کو مل سکتا ہے‘ مولانا فضل الرحمان کا ووٹ بینک بھی اسی طرح موجود ر ہے گا لیکن سب سے زیادہ ملبہ اٹھانے والی جماعت (ن) لیگ اس بوجھ تلے دب جائے گی۔