معیشت کی گمبھیرصورتحال‘ افغانستان کی جانب سے چمن میں جارحیت اور سیاسی عدم استحکام نے پاکستان کو پیچیدہ صورتحال کا شکار کردیا ہے۔ کسی بھی جمہوری ملک میں اگر ریاست اتنے مسائل کا شکار ہوتو سٹیک ہولڈرز اور فریقین سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور ملک کو اس صورتحال سے نکالنے کی تدبیر کرتے ہیں لیکن وطن عزیز میں قومی مفاد کے سامنے سیاسی اَنا کے پہاڑ نظر آتے ہیں۔ اور تو اور‘ یہاں قومی مفاد کو اپنی ذات سے جوڑ دیا گیا ہے کہ میں اقتدار میں ہوں تو اس میں ملک کا مفاد ہے‘ اگر میرا مخالف حکومت میں آ گیاتو ملکی مفاد کو نقصان پہنچے گا۔ یہ سو چ اس وقت ہماری قومی اقدار کو کھوکھلا کررہی ہے جس سے ملک کی سیاسی تقسیم گہری سے گہری ہوتی جارہی ہے۔ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی دونوں کو اس وقت اپنی سیاسی حکمت عملی پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ان کے لیڈرز میچور سیاست دانوں کے بجائے ناتجربہ کاروں جیسی حرکتیں کررہے ہیں اور ایک دوسرے سے منہ پھلائے پھر رہے ہیں۔ شاید آخری دفعہ سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سنجیدگی سے اختلافات دور کرنے کیلئے اکٹھے بیٹھے تھے‘ جب 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پر تحریک نظام مصطفی اپنے عروج پر تھی۔ بھٹو نے حالات دیکھ کو سیاسی مخالفین کو مذاکرات کی دعوت دی اور مخالفین نے بھی غیر مشروط طور پر مذاکرات پر آمادگی ظاہر کر دی۔گوکہ ان مذاکرات کا انجام مارشل لاء کی صورت میں نکلا لیکن کم از کم وہ ملک کیلئے ایک میز پر تو بیٹھے۔ اب تو ایسا صبر‘ ایسی برداشت خواب بن چکی ہے۔ اب تو سیاسی مخالفین ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کو راضی نہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ جس سیاستدان میں مذاکرات اور بات کرنے کا حوصلہ اور جذبہ سب سے زیادہ ہونا چاہیے تھا وہ عمران خان ہیں۔ بطور کھلاڑی‘ ان سے سپورٹس مین سپرٹ کی توقع کی جاتی ہے‘ کہ وہ مخالفت بھی حوصلے اور صبر سے کریں‘ مخالفت برداشت بھی کریں اور وقت آنے پر آگے بڑھنے کاراستہ بھی نکالیں‘ لیکن انہوں نے جس انداز سے سیاسی ماحول پراگندہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ گوکہ (ن) لیگ او ر پیپلزپارٹی جیسی سیاسی جماعتیں اپنے ادوار میں بہت کچھ کہہ سن چکی ہیں لیکن میثاقِ جمہوریت کے بعد ان میں ٹھہراؤ آیا ہے اور ایک دوسرے سے نفرت کے باوجود وقت آنے پر وہ اکٹھی ہوجاتی ہیں‘ لیکن عمران خان نے دوسروں کے لیے ''چور ڈاکو‘‘ کے بیانیے بنا کر اور خود کو برگزیدہ قرار دے کر سیاست میں تلخیاں بھر دی ہیں‘ جس سے نکلنا ان کیلئے مشکل سے مشکل تر ہوچکا ہے۔ تاہم توشہ خانہ سکینڈل سامنے آنے اور پھر '' میر جعفر‘ میر صادق‘‘ کے بیانیے سے ہوا نکلنے کے بعد وہ سیاسی قلابازیاں کھانے پر مجبور ہیں۔جس نے ان کے سیاسی نظریات کا کھوکھلا پن اور واضح کردیا ہے۔ حال ہی میں ان کا افواجِ پاکستان سے درخواست کرنا کہ وہ جلد الیکشن کروانے کیلئے حکومت کی رہنمائی کریں‘ مضحکہ خیز ہے۔ دو ہفتے قبل‘ نئے آرمی چیف کی تقرری پر ان کی جماعت کا کہنا تھا کہ نئی عسکری قیادت سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ بالکل غیر سیاسی رہے گی اور اب وہ دوبارہ اسی طرح کی فرمائشیں کر رہے ہیں۔وہ تو شکایت ہی یہ کرتے ہیں کہ وہ حکومت میں ہوتے ہوئے بھی بے اختیار تھے‘ لیکن اب وہ دوبارہ یہ چاہتے ہیں کہ اداروں کو سیاست میں داخل کریں ؟ بھلاوہ کیوں ایساکریں گے؟ جلد انتخابات کروانا اور معاشی صورتحال کنٹرول کرنا عسکری اداروں کا کام ہے یا سیاستدانوں کا؟ خدارا سیاست دان اپنی لڑائی سیاسی انداز سے لڑیں‘ سیاسی مکالمے سے اور مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کریں‘ خود پر اعتماد کریں۔عمران خان ساڑھے تین سال حکمران رہے ہیں‘ انہوں نے اداروں کے سر پر حکومت کی‘ جب اداروں نے ان کو اپنے بل بوتے پر حکومت کرنے کا مشور ہ دیا تو وہ نہ چل سکے۔ اب بھی انہیں اپنے بل پر حکومت میں آنا چاہیے‘ اپنی مقبولیت پر بھروسا کرنا اور حکومتی اختیار استعمال کرنا چاہیے‘ اگر اب بھی شارٹ کٹ اور آسان راہوں کی تلاش ہے تو بدقسمتی سے اس غلطی کا نتیجہ بھی سو فیصد وہی ہوگا جو گزشتہ غلطیوں کا ہوا۔
جہاں تک صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا معاملہ ہے تو پی ٹی آئی پہلے پنجاب اور پھر خیبر پختونخوا اسمبلی توڑنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس کی دو بنیادی وجوہ ہیں۔ پنجاب میں عمران خان کی اتحادی( ق) لیگ ان کے ساتھ کھڑی ہے‘ چودھری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی اپنا مستقبل پی ٹی آئی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ وقت آنے پر تحفظات ہوئے بھی تب بھی وہ عمران خان کے کہنے پر اسمبلی توڑ دیں گے‘ لیکن خان صاحب اور چودھری صاحب اس بات پر پریشان ہیں کہ کہیں اسمبلی توڑنے پر تین ماہ کی نگران حکومت کے بجائے‘ زیادہ طویل نگران حکومت نہ بنادی جائے جس سے ان کو سیاسی نقصان ہوسکتا ہے۔ پھر جو نگران حکومت بنے گی اس پر بھی خدشات ہیں کہ وفاقی حکومت اس پر اپنا اثر و نفوذ کیسے استعمال کرے گی۔ کہیں یہ نہ ہو کہ عمران خان حکومت کا سایہ چھن جانے کے بعد سکیورٹی خدشات کے باعث کھل کر الیکشن کمپین ہی نہ کرپائیں اور کہیں کسی کیس میں گرفتار ہی نہ ہو جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی پنجاب اسمبلی توڑنے کے بعد خیبر پختونخوا حکومت برقرار رکھے گی تاکہ ایک محفوظ ٹھکانا تو ہو۔ اگر پنجاب میں عمران خان سادہ اکثریت سے بھی جیت جائیں تو پھر قومی اسمبلی میں پنجاب کی نشستوں پر وہ اثر انداز ہوسکیں گے۔ ان پر جو کیسز چل رہے ہیں‘ وہ شاید ا ن سے بھی بچ جائیں گے۔
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر عمران خان کے پاس اقتدارمیں دوبارہ آنے کا اتنا عمدہ پلان موجود ہے تو پھر بھی وہ اداروں کو مدد کیلئے کیوں پکار رہے ہیں؟ کیوں دوبارہ انہیں سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کررہے ہیں ؟ پنجاب اسمبلی توڑنے کا نیم حتمی اعلان تو وہ کرچکے ہیں تو پھر پی ڈی ایم کے ساتھ بیٹھ کر قبل از وقت انتخابات کا راستہ کیوں نہیں ڈھونڈتے؟ ملک میں سیاسی افراتفری پیدا کرکے وہ کون سا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ اگر واقعی ملک کے موجود معاشی حالات پر اتنے پریشان ہیں کہ جلد انتخابات ہی کو اس کا حل سمجھتے ہیں تو اس ابتری کو مزید پھیلا کر معیشت کی کون سی خدمت کررہے ہیں؟خان صاحب کو چاہیے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھیں‘ کچھ لو‘ کچھ دو کی بنیاد پر مذاکرات کریں اور اس ڈیڈ لاک کو ختم کریں‘ سیاسی ابتری پیدا کرکے اور اداروں کو سیاست میں گھسیٹ کر کسی سیاسی قوت کے ہاتھوں کچھ نہیں آئے گا۔