پشاور پولیس لائنز کی مسجد پر خودکش حملہ اور اس کے نتیجے میں ہونے والی سو سے زائد شہادتیں سانحۂ اے پی ایس سے کسی صورت کم درجے کا واقعہ نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 2014ء میں سانحۂ اے پی ایس کے بعد ہم نے جس نیشنل ایکشن پلان کو دہشت گردی کے مستقل خاتمے کے لیے ترتیب دیا تھا‘ ہماری توجہ اس پلان پر عملدرآمد سے ہٹ چکی ہے اور ہماری اسی نااہلی کا خمیازہ سو کے قریب مظلوم خاندانوں کو بھگتنا پڑا۔دہشت گردوں کا بلاتاخیر سر کچلنا پڑے گا اور اُس وقت تک کچلنا پڑے گا جب تک ان کا قلع قمع نہیں ہو جاتا ہے۔ آخر سفاک دہشت گردوں کے حوالے سے ہماری پالیسی کیوں واضح نہیں؟ جب ہم ان کے خلاف ہزاروں قربانیاں دے کر جنگ جیت چکے‘ انہیں پیچھے دھکیل کر افغانستان پھینک چکے اور ملک میں امن قائم کر چکے تو کس ارسطو کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ امریکہ کے افغانستان چھوڑنے کے بعد اب پاکستان کو بھی کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں سے ویسے ہی مذاکرات کرنے چاہئیں جیسا کہ امریکہ نے افغان طالبان کے ساتھ کیے تھے؟ یہ جو بھی تھا‘ اس کا احتساب ہونا چاہیے۔ بات یہ ہے کہ ہم دہشت گردوں سے کب تک ڈریں گے؟ ہم کیوں ان سے لڑتے لڑتے ایک دم مذاکرات کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔جس وقت سانحۂ اے پی ایس ہوا تھا اس وقت بھی حکومت کے طالبان کے ساتھ مذاکرات ہی چل رہے تھے لیکن اُن ظالموں نے مذاکرات کی آڑ میں خود کو مضبوط کیا اور اتنا بڑا سانحہ کردیا۔ اسی کے جواب میں حکومت نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مزید مذاکرات سے توبہ کر لی اور آپریشن ضربِ عضب کے ذریعے دو سال کے اندر اندر ملک میں امن قائم ہو گیا۔ ماضی کو بھلاتے ہوئے جب دوبارہ ان کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا تو انہوں نے پھر ناجائز فائدہ اٹھایا‘ وہ سوات کے پہاڑوں تک آن پہنچے اور دوبارہ خود کو منظم کرنا شروع کر دیا۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ پاکستانی عوام لیبارٹری کے وہ جاندار ہیں‘ فیصلہ سازوں کے نزدیک جن کی زندگی کی کوئی قیمت نہیں۔ وہ اپنے من پسند فیصلے کرتے ہیں جن کا خمیازہ قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ پشاور کی جس مسجد پر خودکش حملہ کیا گیا‘ وہ پشاور کے محفوظ ترین علاقے پولیس لائنز میں واقع ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دہشت گرد عناصر ہمارے ملک میں کہاں تک پنجے گاڑ چکے ہیں۔ اس حملے کے حوالے سے پہلے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مہمند چیپٹر نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے افغانستان میں عمر خالد خراسانی نامی دہشت گرد کے قتل کے بدلے میں کیا۔ بعدازاں جماعت الاحرار نے پشاور حملے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ یاد رہے کہ عمر خراسانی مختلف ادوار میں داعش‘ جماعت الاحرار اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ منسلک رہا۔ اس حوالے سے سکیورٹی نظام کی کارکردگی پر بھی سوالات اٹھتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ آخر پشاور کی پولیس لائنز میں اتنا بارود کہاں سے جمع ہوا کہ اس نے پوری مسجد ہی اڑا دی؟ آئی جی خیبر پختونخوا نے اس حوالے سے سکیورٹی ناکامی کا اعتراف کیا ہے لیکن یہ کافی نہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ کون سہولت کار تھے جنہوں نے ریڈ زون میں موجود اس حساس مقام پر اتنا بارود جمع کرنے میں مدد دی؟ آخر ان دہشت گردوں کی کوئی کمیونیکیشن ہوئی ہو گی‘ یہ کسی سے ملے ہوں گے‘ چار ناکے عبور کرکے پولیس لائنز تک پہنچے‘ انہیں کیوں بروقت نہیں روکا جا سکا؟ یہ پولیس کی بہت بڑی ناکامی ہے۔ بہرحال اس واقعہ کے بعد قومی اسمبلی کے اجلاس اور کور کمانڈرز کانفرنس میں اس حملے کی مذمت کے ساتھ ساتھ اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ دہشت گردوں کو پنپنے نہیں دیں گے‘ لیکن یہی کافی نہیں بلکہ اس ضمن میں فوری عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
سابق حکومت کے دور میں تحریک طالبان افغانستان کے ساتھ جو مفاہمانہ پالیسی اختیار کی گئی تھی‘ یہ اسی کا شاخسانہ ہے کہ دہشت گرد ایک بار پھر سر اٹھا رہے ہیں۔ گزشتہ چند ماہ کے واقعات پر نظر دوڑائیں تو پاک افغان بارڈر کے باجوڑ‘ وزیر ستان اور کرم ایجنسی کے علاقے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے حملو ں کے مرکز رہے ہیں اور یہ وہی علاقے ہیں جو مشرقی افغانستان کے صوبوں ننگر ہار‘ کنڑ اور پکتیا وغیرہ سے منسلک ہیں جہاں کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور پاکستان مخالف عناصر کی ایک بڑی تعداد آزادی سے رہ رہی ہے۔ ان میں سے بیشتر وہ لوگ ہیں جنہیں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد طالبان حکومت نے جیلوں سے رہا کردیا اور اب یہ لوگ اس خیال میں ہیں کہ اگر افغان طالبان امریکہ جیسی سپر پاور کو شکست دے سکتے ہیں تو ہم پاکستانی حکومت کو کیوں نہیں؟ یہی وجہ ہے کہ یہ عناصر پاکستان پر حملہ آور ہیں لیکن افغان حکومت انہیں روکنے کے لیے تیار نہیں۔ افغان طالبان بضد ہیں کہ پاکستانی حکومت کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے مسائل حل کرے حالانکہ دوحہ معاہدے کے تحت افغان طالبان پابند ہیں کہ ان کی حکومت افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے نہیں دے گی۔ افغان طالبان کا اپنا یہ حال ہے کہ انہیں پاک افغان بارڈر پر لگی باڑ ہضم نہیں ہورہی‘ جسے اکھاڑنے کے لیے انہوں نے پاکستانی فورسز پر کئی حملے کیے ہیں۔ یہ صورتحال نہایت گمبھیر ہوتی جارہی ہے کیونکہ پاکستان اس وقت سیاسی و معاشی عدم استحکام کا شکار ہے‘ ایسے میں دہشت گردی کا عنصر ملک کو مکمل طور پر تباہی کی جانب لے جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو سفارتی اور عسکری محاذوں پر ایکٹو ہونے کی ضرورت ہے تاکہ ایک جانب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف افغانستان میں کارروائی شروع کروائی جائے اور دوسری طرف سابق فاٹا کے علاقوں میں اس کی سرکوبی شروع کی جائے۔ دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کارروائی کے لیے ڈرون جیسی جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی ضرورت ہے تاکہ آپریشن موثر ہو اور اس سے عام شہریوں کا کم سے کم نقصان ہو۔ اگر امریکہ سے یہ ڈرونز نہیں لیے جا سکتے تو ترکیہ اور ایران بھی مسلح ڈرونز تیار کر رہے ہیں‘ ان سے مدد لی جا سکتی ہے اور اس دفعہ اس عزم کے ساتھ میدان میں اُتریں کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو حتمی نتیجے تک لے کر جانا ہے‘ چاہے اس کے لیے جو بھی کرنا پڑا۔ اس کے لیے سب سے پہلے عوامی سطح پر رائے عامہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گردی کے خلاف قوم متحد ہو جبکہ سیاسی سطح پر ہمار ے ملک میں جتنی تقسیم پیدا ہو چکی ہے‘ اسے ختم کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی اس حوالے سے اپنا وزن پاکستان کے پلڑے میں ڈال سکیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ملک میں ایک جانب سیاسی افراتفری ہو اور دوسری جانب دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کی کوشش ہو رہی ہو۔ سب اپنی اپنی ذمہ داری نبھائیں اور ملک کا قبلہ درست کریں۔