جمعہ کی شام کراچی کے مرکزی پولیس دفتر پر دہشتگردوں کا حملہ ناکام بنا دیا گیا۔ پولیس اور رینجرز کے مشترکہ آپریشن سے چار گھنٹے کے مختصر وقت میں دہشتگردوں کو جہنم واصل کردیا گیا۔ جہاں یہ تیز ترین آپریشن ہماری سکیورٹی فورسز کی پیشہ ورانہ قابلیت کی دلیل ہے ‘ وہیں دہشتگردوں کے بڑھتے ہوئے عزائم اور پولیس اور سی ٹی ڈی پر بڑھتے حملوں سے ان کی استعداد میں اضافہ بھی نظر آتا ہے جو کہ تشویشناک بات ہے۔ سکیورٹی ماہرین پہلے ہی اس خدشے کا اظہار کررہے تھے کہ بنوں سی ٹی ڈی سنٹر اور پشاور پولیس لائنز پر حملے کے بعد انتہا پسند ‘ اب خیبر پختونخوا کی حدود سے نکل کر دوسرے صوبوں میں دہشت پھیلانے کی کوشش کریں گے۔ یہ خدشات درست ثابت ہوئے اور عین اس وقت جب نیشنل سٹیڈیم کراچی میں پی ایس ایل کی ٹیمیں اگلے دن ہونے والے میچ کی تیاری کررہی تھیں ‘ پولیس دفاتر پر حملہ بہت سے سوالات چھوڑ جاتا ہے۔ اس ہدف کے انتخاب سے کیا ایسا نہیں لگتا کہ دہشتگردوں نے پیغام دیا ہے کہ وہ تیار ہیں اور دہشت گردی جاری رکھیں گے؟ آپ جو مرضی کہہ لیں کہ جس وقت حملہ ہوا ‘ اس وقت پولیس دفاتر بند تھے ‘ دہشتگردوں نے حملے کیلئے غلط وقت کا انتخاب کیا ‘ لیکن یاد رکھیں کہ کراچی پولیس آفس کوئی آسان ہدف یا سافٹ ٹارگٹ نہیں تھا۔ یہ ایک منظم حملہ تھا اور افسوس یہ کہ دہشت گرد جس عقبی راستے سے عمارت میں داخل ہوئے وہاں تین چوکیاں خالی پڑی تھیں اور ایک جگہ سے خاردار تاریں بھی ٹوٹی ہوئی تھیں۔ اخباری ذرائع کے مطابق‘ آئی جی سندھ نے کے پی او پر حملے سے محض چند گھنٹے قبل مذکورہ آفس کا دورہ کیا تھا اور یہاں موجود مورچوں اور سکیورٹی نظام کا جائزہ لیا تھا۔ انتہائی ضروری ہے کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور اینٹی ٹیررازم ٹریننگ سنٹرز وغیرہ کی سکیورٹی پر فوری نظر ثانی کی جائے تاکہ عوام کے محا فظوں کو پہلے خود تحفظ حاصل ہوسکے ۔اگر پولیس اور سی ٹی ڈی پر حملے جاری رہے تو عوا م کا مورال ختم ہوجائے گا۔ کراچی ویسے بھی ہماری معاشی شہ رگ ہے اور ان خوفناک حملوں نے شہر ِقائد میں ہونے والے مہران بیس اور کراچی ائیر پورٹ پر حملے کی یاد تازہ کردی۔ اس حوالے سے اہم بات یہ بھی ہے کہ ٹی ٹی پی‘ جس نے کراچی حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے ‘ اس کے حملوں میں کمی نہیں آرہی۔ گزشتہ ہفتے ‘ دہشت گردوں نے پنجاب میں کالاباغ کے علاقے میں سی ٹی ڈی ٹیموں پر حملہ کیا جبکہ دو ہفتے قبل انہوں نے میانوالی کے ایک پولیس سٹیشن پر حملہ کیا تھا۔ خوفناک بات یہ ہے کہ یہ دہشت گرد اتنے جدید اور خطرناک ہتھیاروں کے ساتھ حملہ کرتے ہیں جو ہماری فورسز کے پاس بھی شاید موجود نہیں ہیں۔دہشت گردی کے ان واقعات میں بیشتر اسلحہ امریکہ اور نیٹو فورسز کا ہے جو وہ افغانستان سے نکلتے ہوئے وہیں چھوڑ گئے اور اب وہ دہشتگردوں کے پاس ہے۔ تھرمل اور نائٹ ویژن ڈیوائسز سے مسلح بندوقوں کے ذریعے ٹی ٹی پی کے دہشت گرد رات کے وقت تین سے چار کلومیٹر دور سے فائرنگ کرتے ہیں اور ہمارے سپاہیوں کو نشانہ بناتے ہیں‘ لیکن ہمارا حال دیکھیں کہ ان دہشتگردوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ہماری ریاست ابھی کہاں کھڑی ہے ؟
یہ صورتحال کم از کم ہمارے حکمران طبقے کو جھنجھوڑنے کیلئے کافی ہونی چاہیے کہ آپس کی لڑائیوں کو ختم کریں اور عوام اور ان کے تحفظ کے بارے میں سوچیں۔ پشاور حملے کے فوری بعد حکومت نے نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا اجلاس کیا جس میں سول و عسکری قیادت نے کئی فیصلے کئے ‘ جن کی منظوری کیلئے بعد میں ایک اے پی سی بلانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر شہباز حکومت نے اے پی سی کو ملتوی کردیا حالانکہ پی ٹی آئی نے بھی اے پی سی میں اپنا وفد بھیجنے کی حامی بھر لی تھی ‘ لیکن قومی مفاد میں منعقد ہونے والی اس بیٹھک کو سیاسی مقاصد کیلئے نہ ہونے دیا گیا۔ سیاستدانوں کو قومی و عوامی مفاد کی خاطر کچھ ایسی چیزوں پر سیاست سے گریز کرنا چاہیے جن کا تعلق عوامی مفادات سے ہو۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ قومی معیشت دگرگوں ہے ‘ مہنگائی کا طوفان ہے لوگ دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں ‘ مایوسی عام ہے اور اوپر سے سیاسی منظر نامے پر کبھی آڈیو لیکس شہ سرخیاں بناتی ہیں تو کبھی جیل بھرو تحریک کی آواز لگتی ہے۔ اگر ذکر نہیں ہوتا تو مصیبت کے مارے عوام کا ‘ جن کا یہ ملک ہے اور جن کے کیلئے یہ ملک بنا ہے۔ شہباز حکومت کو اگر ڈارنامکس کے ذریعے عام شہریوں کو مہنگائی کے جھٹکوں پر جھٹکے دینے سے فرصت مل جائے اور مصیبت کی اس گھڑی میں ترکیہ کے عوام کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام کے ساتھ بھی کھڑی ہوجائے تو اس کا بہت احسان ہوگا۔ آپ نے اگر حکومت کے مسائل کی گٹھری سر پر اٹھانے کا فیصلہ کرلیا تھا تو یہ آپ کی اپنی چوائس تھی ‘ اب آپ کا فرض ہے کہ ملک معاشی ‘ سماجی اور سیاسی مسائل کے ساتھ ساتھ سکیورٹی کے چیلنجز سے بھی عوام کا پیچھا چھڑوائیں۔ اگر آپ ایسا نہیں کرسکتے تو آسان ترین حل ہے کہ الیکشن کروائیں اور فریش مینڈیٹ کی حامل حکومت کو ملکی چیلنجز سے نمٹنے کا موقع فراہم کریں۔ عوام اب یہ بات سوچنے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ ہم جس قدر تباہ ہوچکے ہے اس کے بعد مزید ایڈونچرز کی گنجائش نہیں ہے۔ اسی طرح عمران خان کو بھی اب ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔شاید ان کے نزدیک اپنی ذات سے بالا کوئی شے نہیں۔ مہنگائی کتنی بڑھ گئی ‘ سیاسی انتشار کتنا بڑھ گیا اور دہشت گردی کے واقعات میں کتنا اضافہ ہوگیا‘ انہیں کسی بات سے فرق نہیں پڑرہا۔ انہیں صرف اس بات کا مسئلہ ہے کہ وہ اقتدار میں کیوں نہیں اور وہ اقتدار میں واپس کیسے آسکتے ہیں۔ بطور اپوزیشن لیڈر اس وقت عمران خان کو عوام کیلئے امید کی کرن ہونا چاہیے تھا ‘ انہیں حکومت کی ناقص پالیسیوں کے جواب میں اپنا منصوبہ پیش کرنا چاہیے کہ وہ کیسے اقتدار میں آکر ملک کو ان چیلنجز سے نکالیں گے‘ لیکن بدقسمتی سے عمران خان بھی اتنے ہی روایتی سیاستدان ثابت ہوئے جتنے کہ دوسرے ہیں۔ بدھ سے وہ جیل بھرو تحریک کو شروع کرنے کا اعلان کرچکے ہیں اور دوسری جانب اپنے کیسز میں ضمانت حاصل کرنے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں۔ بظاہر وہ چاہتے ہیں کہ ان کے کارکن اور باقی وفادار جیل بھر دیں اور خود حتی الامکان کوشش کریں کہ جیل نہ جانا پڑے اور اس سے پہلے حکومت کو گھٹنوں پر آنے پر مجبور کردیا جائے۔ نجانے یہ کون سی سیاست ہے جس کے ذریعے وہ عوامی خدمت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ سیاسی اشرافیہ کو سوچنا چاہیے کہ اگر انہیں حکمرانی کرنے کیلئے سادہ لوح عوام مل گئے ہیں‘ جو کسی ظلم پر سڑکوں پر بھی نہیں نکلتے تو کچھ خیال کرلیں ‘ ان کیلئے کچھ کریں۔ نجانے حکمران اشرافیہ کو کیوں شوق ہے کہ جب تک عوام باہر نکل کر احتجاج اور توڑ پھوڑ نہ کریں ‘ ان کی بات نہیں سننی۔