مہذب معاشرے اور ریاستیں آئین و قانون کے تابع چلتے ہیں‘ ورنہ معاشرے کی بجائے ہجوم اور ریاست کی جگہ طوائف الملوکی لے لیتی ہے۔ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف اور سابق وزیراعظم عمران خان نے گرفتاری سے بچنے کیلئے جس طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف مزاحمت کی اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ اگر ہمارے معاشرے کا حال یہ ہوجائے گا کہ پولیس جب چاہے ایک عام شہری کو گرفتار کرسکتی ہے لیکن ایک طاقتور شخص صرف اس وجہ سے گرفتار ی نہیں دیتا کہ اس کے پاس کارکنوں کا ایک ہجوم موجود ہے اور وہ پولیس کو طاقتور شخص کے قریب نہیں جانے دے گا تو پھر خان صاحب کی آئیڈیل ریاست کیسے بنے گی؟ عمران خان کے بقول‘ ملک میں موجود کمزور اور طاقتور وں کیلئے الگ الگ قانون کا خاتمہ کیسے ہوگا ؟ پھر یورپ کے ممالک کی مثالیں‘ جہاں سب ریاست کی نظر میں برابر ہیں‘ اس کو عملی جامہ کیسے پہنایا جائے گا ؟ کیا پاکستان میں پہلی دفعہ کوئی سیاستدان یا سابق حکمران گرفتار ہونے لگا تھا جس پر عمران خان کے حامیوں نے یوں ہڑبونگ مچائی ؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو‘ محترمہ بے نظیر بھٹو‘ آصف علی زرداری‘ نواز شریف‘ شہباز شریف‘ شاہد خاقان عباسی اور یوسف رضا گیلانی گرفتار نہیں ہوئے ؟ کیا ا نہوں نے جھوٹے سچے کیسز کا سامنا نہیں کیا ؟ کیس کے میرٹ اور قانونی نکات پر بالکل بات ہوسکتی ہے‘ لیکن جب ایک عدالت نے آپ کے وارنٹ نکال دیے ہیں جس کے نو دفعہ طلب کرنے کے باوجود آپ پیش نہیں ہوئے تو قانونی اور اخلاقی طور پر آپ کو گرفتاری دینی چاہیے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کی عدالت میں جب پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم نے وارنٹ گرفتاری معطل کرنے کی درخواست دی تو عدالت نے و اضح طور پر کہا کہ یہ سب کچھ پی ٹی آئی کا اپنا کیا دھرا ہے‘ ہم نے آپ کو باعزت طور پر عدالت کے سامنے پیش ہونے کی آزادی اور گنجائش دی تھی۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے عدالتوں کی جانب سے دیے گئے ریلیف اور نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور ان کے اس اقدام سے انہیں اور ریاست کو دور رس نقصانات سے دوچار کردیا ہے۔ اس تمام قصے میں بظاہر عمران خان کے دو جرائم ہیں‘ ایک انہوں نے عدالتی احکامات کی تعمیل پر عملدرآمد کو روکنے کی کوشش کی۔ دوم‘ انہوں نے پولیس فورسز کو ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کیا۔
عمران خان کئی ما ہ سے عدالتوں کے سامنے جانے سے گریز کررہے ہیں۔ پہلے انہوں نے اس کی وجہ زخمی ٹانگ بتائی‘ لیکن جب ان پر تنقید ہونے لگی کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پانچ ماہ گزرنے کے باوجود ٹانگ ٹھیک نہ ہوتو انہوں نے سکیورٹی کے نام پر عدالتوں کے سامنے پیش ہونے سے انکار کیا۔ ان کی بات پر اعتبار کیا جاسکتا تھا کیونکہ ان پر وزیرآباد میں فائرنگ ہوئی تھی‘ جو سب نے دیکھی لیکن ایک جانب عمران خان کے وکلا عدالتوں میں استثنا کی درخواستیں جمع کرا رہے تھے اور دوسری جانب خان صاحب زمان پارک سے داتا دربار تک ریلی نکال رہے تھے۔ جب جج صاحبان پوچھ رہے تھے کہ عمران خان عدالت کیوں نہیں آسکتے اور وکلا بتا رہے تھے کہ ان کی جان کو شدید خطرہ ہے‘ اسی وقت عمران خان صاحب 19 مارچ کو مینار پاکستان میں جلسہ کرنے کا اعلان کررہے تھے۔ جب عمران خان تین ہفتے پہلے لاہور ہائی کورٹ پہنچے تو ایک بڑا جلوس ساتھ لے کر گئے۔ دو ہفتے قبل اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس گئے تو ان کے کارکنوں نے وہاں خوب ہلڑ بازی کی۔ اس سے تو بظاہر صاف نظر آرہا ہے کہ سابق وزیراعظم نے ملک میں سول نافرمانی شروع کردی جہاں وہ کسی قانون کسی آئین کو نہیں مانتے۔ وہ اپنے کہے الفاظ کو قانون اور آئین کا درجہ دیتے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ پروجیکٹ عمران خان کے آغاز کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ ریاستی اداروں نے جو لاڈ پیار کا رویہ اپنا یا اس نے انہیں اس قدر خود سر کردیا ہے کہ انہوں نے اپنی گرفتاری سے بچنے کے لیے باقاعدہ خانہ جنگی شروع کردی۔یاد رہے کہ جب 2014ء میں عمران خا ن نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا تب بھی انہوں نے عدالت اور انتظامیہ کو حلف نامہ دیا تھا کہ وہ ریڈ زون میں داخل نہیں ہوں گے لیکن وہ ہوئے اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اسی طرح 25 مئی کو جب اسلام آباد پر یلغار کی تو سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود ا نہوں نے ریڈ زون کا رُخ کیا۔ بعد میں اس خلاف ورزی کی توجیہ یہ پیش کی گئی کہ نجانے خان صاحب تک عدالتی حکم پہنچا بھی تھا یا نہیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ عمران خان گرفتاری سے خوفزدہ کیوں ہیں؟ اس کی وجوہات وہ 80 کے قریب مقدمات ہیں جو اُن کے خلاف درج ہیں۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ گرفتاری کی صورت میں عمران خان کو ایک مقدمے سے ضمانت ملے گی تو باہر دوسرے علاقے کی پولیس کھڑی ہوگی کہ آپ کی وہاں طلبی ہے۔ وہاں سے فارغ ہوں گے تو کسی اور علاقے کی پولیس انہیں گرفتار کرنے کے خواہاں ہو گی۔ پھر ان پر اہم ترین کیسز میں فردِ جرم بھی عائد ہوگی جس سے وہ ابھی تک بچتے آئے ہیں۔ جن کی وجہ سے عمران خان نااہل ہوسکتے ہیں۔توشہ خانہ کیس‘ فارن فنڈنگ کیس اور ٹیریان کیس عمران خان کے لیے سخت خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ پنجاب کے صوبائی الیکشن سر پر کھڑے ہیں‘ عمران خان کے گرفتار ہونے کی وجہ سے پارٹی کی مربوط حکمت عملی نہیں بن سکے گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ وفاقی حکومت صوبائی انتخابات بھی مرکز کے ساتھ کروانے کے لیے ملتوی کر دے۔اگر یہ انتخابات اکتوبر میں ہوئے تو پھر دو اہم آئینی عہدوں یعنی صدرِ مملکت اور چیف جسٹس کے مناصب پر ستمبر میں تبدیلی آ جائے گی‘ جس سے نظام کا بیلنس بھی تبدیل ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے گرفتاری سے بچنے کے لیے اتنی مزاحمت کی ہے‘ لیکن ان کی مزاحمت نے ملکی تاریخ میں ایک غلط مثال قائم کردی ہے۔ اس مثال سے ریاست اور ریاست کی رٹ کو بری طرح نقصان پہنچا ہے۔ پہلے یہ رٹ لال مسجد اور طالبان جیسے عناصر نے توڑی تھی لیکن جب ایک سابق وزیراعظم ایسی حرکتیں کرے گا تو پھر جمہوریت اور آئین و قانون کی بالادستی کا اللہ ہی حافظ ہے۔
آج ملک کا ایک سابق وزیراعظم ایسی حرکتیں کررہا ہے‘ کل کو گوادر کا کوئی لیڈر حامیوں کے ساتھ باہر نکل آئے گا‘ پھر کوئی بلوچ رہنما کل کو پورا قبیلہ لے کر باہر نکل آئے گا۔ اس لئے ریاست کو اس طرح تماشا نہ بنائیں۔