معاشی بحران کیا کم تھا کہ ملک میں اب سیاسی انتشار بھی بڑھتا جارہا ہے۔ اس وقت پی ڈی ایم اور پاکستان تحریک انصاف میں محاذ آرائی عروج پر ہے اور گزشتہ ایک ہفتے کے دوران دونوں اطراف سے ایک دوسرے کے خلاف جو سخت مؤقف اپنایا گیا ہے‘ وہ مزید محاذ آرائی کے اشارے دے رہا ہے جس کا ہمارا ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔ گوکہ اگلے روز یہ خبر اخباروں کی زینت بنی کہ عمران خان آل پارٹیز کانفرنس کا حصہ بننے کو تیار ہیں یعنی وہ اب مقتدرہ سمیت باقی سیاسی سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بھی بات کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے انہوں نے یہ شرط عائد کی ہے کہ حکومت کی جانب سے اعتماد سازی کے کچھ اقدامات کیے جائیں تاکہ وہ حکومت کے ساتھ بات چیت کیلئے آمادہ ہو سکیں۔ عمران خان نے یہ بات سول سوسائٹی کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہی۔ وفد ایک گھنٹے سے زائد کی گفتگو کے بعد انہیں اس بات پر قائل کر پایا کہ انتخابی عمل کا وہ اکیلے سٹیک ہولڈر نہیں ہیں بلکہ باقی سیاسی جماعتیں بھی ووٹ کی طاقت سے آئی ہیں۔ اس پر عمران خان جو پہلے سیاسی مخالفین پر حسبِ سابق تنقید کررہے تھے‘ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر آمادہ ہوئے لیکن شرط یہ رکھی کہ حکومت اعتماد سازی کے اقدامات کرے۔ یہ اقدامات ظاہر ہے ان کے خلاف مقدموں اور ایف آئی آرز میں ریلیف کی صورت میں ہی کارگر ہو سکتے ہیں‘ دوسرے الفاظ میں عمران خان کو اس وقت حکومت سے این آر او کی ضرورت ہے۔
بظاہر یہ ایک اہم پیشرفت ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کی طرف سے سیاسی مخالفین کے خلاف بیانیے کی جنگ جس طرح خانہ جنگی میں بدلتی نظر آ رہی ہے‘ اس نے حکومت کے علاوہ ریاست کو بھی چونکا دیا ہے۔ اس لیے کیا دوسرا کیمپ اب تحریک انصاف کی قیادت کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہوگا‘ یہ ایک اہم سوال ہے۔ خان صاحب کی ممکنہ گرفتاری کے پیش نظر جس طرح ان کے سیاسی کارکنان ان کی ڈھال بنے اور پھر توڑ پھوڑ اور پولیس سے تصادم کا جو سلسلہ شروع ہوا‘ اس نے ریاست کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔
دوسری طرف تحریک انصاف کے کارکنان کے پولیس سے تصادم کے بعد مریم نواز سمیت کئی رہنماؤں نے تحریک انصاف کو کالعدم تنظیم قرار دینے کی مہم شروع کررکھی ہے‘ اس حوالے سے پی ڈی ایم کی قیادت کا اہم اجلاس بھی ہوا جس میں تمام اتحادی جماعتوں کی اعلیٰ سیاسی قیادت نے شرکت کی۔ اسی اجلاس کی بنیاد پر بعد ازاں قومی اسمبلی کا اہم اجلاس بھی طلب کیا گیا۔
اس وقت اصل مدعا یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنی موجودہ مقبولیت کی بنا پر فوری الیکشن چاہتے ہیں اور اس مقصد کو پانے کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ دوسری جانب حکومتی اتحاد ملک بھر میں الیکشن ایک ساتھ اور مقررہ وقت پر کرانا چاہتا ہے اور اگر ممکن ہو تو انتخابات کا انعقاد مزید مؤخر کرنا چاہتا ہے۔ حکومتی اتحاد کا موقف ہے کہ ہم نے ریاست کو بچانے کیلئے سیاست قربان کی‘ اس لیے تھوڑی بہت رعایت ہمیں بھی ملنی چاہیے لیکن عمران خان نے جلد الیکشن کیلئے حکومت پر دباؤ بڑھانے کیلئے صوبائی اسمبلیاں توڑ کر پوری سکیم کو بگاڑ کر رکھ دیا۔ ہمارے آئین میں الیکشن کے حوالے سے جو بھی قانون سازی کی گئی ہے‘ اسی مفروضے کے تحت ہے کہ قومی و صوبائی انتخابات ایک ساتھ ہوں گے۔ اگر پنجاب اور کے پی میں الیکشن علیحدہ ہوں گے تو نگراں حکومتوں کے حوالے سے سوالات اٹھیں گے بلکہ اب بھی اٹھ رہے ہیں کہ کیا پورے ملک میں بیک وقت نگران حکومتوں کا نہ ہونا‘ سیاسی مداخلت کو دعوت نہیں دیتا؟ اس وقت تحریک انصاف پنجاب کی نگران حکومت پر (ن) لیگ کی لائن لینے کے جو الزامات لگا رہی ہے‘ یہ خود تحریک انصاف کا کیا دھرا ہے۔ اگر خان صاحب چودھری پرویز ا لٰہی کا مشورہ سن لیتے اور اسمبلی نہ توڑتے تو آج انہیں ان حالات کا سامنا نہ کرنا پڑتا‘ جن سے اب وہ دوچار ہیں۔ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف نے جلد الیکشن کے لیے سیاسی نظم کو بگاڑنے کی غلطی کی ہے۔ تحریک انصاف کی طرف سے مبینہ طور پر اب بھی مقتدر حلقوں کے خلاف مہم جاری ہے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے اور افغانستان و عراق جنگ کے کلیدی کردار زلمے خلیل زاد‘ جو اپنی پاکستان دشمنی کے لیے مشہور ہیں‘ وہ مسلسل ایسے بیانات داغ رہے ہیں جن میں تحریک انصاف کے بیانیے کی تائید کا واضح تاثر ابھرتا ہے۔ اس حوالے سے صرف سوشل میڈیا مہم کو ہی کافی نہیں سمجھا گیا‘ اس بار تو ٹائمز سکوائر اور ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ کے باہر بھی تحریک انصاف کے ورکرز احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں۔ ان مظاہروں میں بے بنیاد الزامات لگا کر الیکشن کے لیے دباؤ بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تحریک انصاف کے اس دباؤ نے حکومتی اتحاد کو جارحانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے جس کا سراسر نقصان تحریک انصاف اور پاکستانی جمہوریت کو ہوگا۔
تاریخ کے آئینے پر نظر ڈالیں تو ذوالفقار علی بھٹو کے گرد گھیرا تنگ ہونے کی وجوہات بھی اسی سے ملتی جلتی تھیں‘ نواز شریف کے زوال کا اسباب بھی اس سے مختلف نہیں۔ اب عمران خان فرما رہے ہیں کہ وہ اقتدار میں آکر اپنے خلاف سازش کرنے والوں کا محاسبہ کریں گے تو اس سے عمران خان کے مستقبل کا بیانیہ بھی واضح ہو جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان اپنے خلاف جس سازش کی بات کرتے ہیں‘ وہ مفروضات بھی ان کے اپنے ہی تخلیق کردہ ہیں۔ یہ بات پوری طرح عیاں ہے کہ وہ آئینی طریقے سے اقتدار سے ہٹائے گئے جس پر بعد ازاں عدلیہ نے بھی اپنی مہر ثبت کی۔
حالاتِ حاضرہ پر بحث مباحثے میں رہ رہ کر نوازشریف کے 'ووٹ کو عزت دو‘ بیانیے کا بھی یاد آتا ہے۔ الیکشن سے فرار کی کوشش اور اب پاکستان تحریک انصاف کو کالعدم تنظیم قرار دینا‘ آخر یہ سب کیا ہے؟ عمران خان کچھ معاملات میں غلط ہیں تو حکومتی جماعتیں بھی غلط ہیں۔ سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ حکومتی اتحاد نے گزشتہ سال ہی بروقت الیکشن نہ کرا کر عمران خان کی غلطیوں کا ڈھول اپنے گلے میں ڈالا۔ پھر کارکردگی کے لحاظ سے حکومت صفر بٹا صفر پر کھڑی ہے۔ معیشت تباہ سے تباہ حال‘ غریب فاقوں پر مجبور اور ملکی مسائل سنگین سے سنگین تر ہورہے ہیں لیکن حکومت عمران خان کے خلاف داؤ پیچ میں مصروف ہے۔ اس خبر کا سامنے آنے کے بعد کہ حکومت اور مقتدر ہ میں ملک بھر میں ایک ساتھ الیکشن کرانے پر اتفاق ہوگیا ہے‘ بسم اللہ کریں اور فوری الیکشن کا اعلان کردیں۔ اگر عمران خان نے صوبائی اسمبلیاں توڑ کر غلطی کی ہے تو حکومت بھی 90دن میں الیکشن نہ کرا کے آئین سے انحراف کی مرتکب ہو رہی ہے۔ ایک تاریخ خود بنائی جاتی ہے اور ایک تاریخ مؤرخ لکھتا ہے۔ اپنے بنائے سچ کو آپ شاید کچھ عرصہ ہی بیچ پائیں لیکن مورخ جو آپ کے بارے میں لکھے گا وہ حتمی ہوگا۔ بہتر یہی ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز خاص طور پر جمہوری قوتیں اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں اور خود یہ فیصلہ کریں کہ جب آزاد تاریخ لکھی جائے گی تو وہ تاریخ کی کس سمت میں کھڑے ہوں گے؟