وقت کو قید کرنا ممکن نہیں‘ یہ بے لگام گھوڑے کی طرح بھاگتا ہے‘ یہ ہاتھ میں ریت کی مانند پھسلتا چلا جاتا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں وقت سے کالم کی شروعات کیوں کر رہا ہوں تو عرض یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت کو ایک سال مکمل ہو چکا ہے۔ یہ ایک سال ایسے گزرا کہ پتہ ہی نہیں چلا‘ یوں حکومت کو بھی ایک سال گزرنے کا پتہ نہیں چلا ہوگا اور ویسے بھی بقول شیخ رشید اقتدار کے دن چھوٹے ہوتے ہیں اور اپوزیشن کے دن بڑے ہوتے ہیں۔ اب حکومت کو تو اپنے اقتدار میں رہنے کا پتا نہیں چلا ہوگا لیکن عوام کو ضرور لگ پتہ گیا ہے۔ اسی لیے حکومت کی یہ کوشش ہے کہ کسی طرح اقتدار کو وسعت دے کر وہ فوری طور پر عوام کے سامنے جانے سے بچ جائے۔
مجھے یاد ہے کہ کس طرح سابق وزیراعظم عمران خان نے پٹرول کی قیمت کو کم کیا اور آئی ایم ایف کو ناراض کیا کیونکہ جی کا جانا ٹھہر چکا تھا اور یہ جانا دیکھ کر خان صاحب نے مصلحتاً پی ڈی ایم کیلئے مشکلات کھڑی کیں لیکن سچ تو یہ بھی ہے کہ آج حکومت میں موجود وہی نمائندے‘ جو عمران خان کے دورِ حکومت میں پٹرول کی قیمتیں 5روپے بڑھ جانے پر بھی انہیں تنقید کا نشانہ بناتے تھے‘ آج پٹرول کی قیمت 282روپے فی لٹر ہونے پر بھی گم سم نظر آتے ہیں۔ اس بڑھتی مہنگائی نے عوام کا جینا اجیرن کردیا ہے۔ عوام اس حکومت کی کارکردگی سے اس قدر تنگ ہیں کہ وہ اس سے جلد از جلد جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ میرے نزدیک آج عمران خان کی مقبولیت کی وجہ ان کے اپنے بیانیے سے کہیں زیادہ موجودہ حکومت کی ناقص کارکردگی ہے۔
معاشی اشاریوں کی بات کروں تو وہ منفی ہی منفی ہیں‘ کہیں سے اچھے کی توقع نظر نہیں آرہی اور رہی سہی کسر ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ نے پوری کردی ہے۔ عالمی بینک نے حال ہی میں پاکستان اکنامک ڈویلپمنٹ آؤٹ لک اینڈ رِسک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق ملک میں مزید 39لاکھ افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ موجودہ سیاسی صورتحال کے تحت پاکستان کی معیشت کو تاحال سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ غربت بڑھنے کی وجہ سیلاب کی تباہی‘ مہنگائی اور بیروزگاری ہے۔ اس لیے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں زرعی پیداوار بڑھانے کی بہت ضرورت ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر ایک ماہ کی درآمدات سے بھی کم اور مہنگائی 25فیصد سے زائد ہے اور یہ کہ 2025ء تک بیرونی ادائیگیوں کا بوجھ 29ارب ڈالر سالانہ تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔ مالیاتی خسارہ 6.7فیصد تک پہنچنے کا اندیشہ ہے جبکہ معاشی ترقی کی شرح محض 0.4فیصد رہنے کا امکان ہے۔ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے دوران ملک میں پٹرولیم مصنوعات 55فیصد اور بجلی 47فیصد مہنگی ہوئی۔ مزید یہ کہ 2025ء تک کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ کر جی ڈی پی کے 2.2فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ اعداد و شمار آپ کے ساتھ شیئر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ سیاسی بے یقینی کی وجہ سے معیشت کا کس قدر ستیاناس ہو چکا ہے اور ورلڈ بینک بھی یہی کہتا ہے کہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معیشت شدید متاثر ہو رہی ہے لیکن حکومت اور اپوزیشن اب تک ساتھ بیٹھ کر معاملات کو حل نہیں کر سکے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق مسلم لیگ (ن) کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اس حکومت میں فرنٹ لائن پر وہ کھیل رہی ہے جبکہ دیگر اتحادی اس کی پشت پر ہیں۔ اس لیے مہنگائی ہو یا معیشت کی ابتر صورتحال‘ سارا ملبہ (ن) لیگ پر ہی گر رہا ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے بڑی کامیابی کے ساتھ (ن) لیگ کو اس آگ میں دھکیلا ہے اور اس کی دلیل یہ دی جارہی ہے کہ پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ میں عمران خان کے ساتھ مذاکرات کو لے کر اختلافات جنم لے رہے ہیں گو کہ پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی‘ (ن) لیگ اور تحریک انصاف میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ الیکشن کی تاریخ پر کوئی اتفاق ہو سکے۔ ایسے میں کچھ بعید نہیں کہ جلد انتخابات کے انعقاد کی صورت میں پیپلز پارٹی (ن) لیگ کو کارنر کرا کے انتخابی دنگل میں اتر جائے جبکہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ صاف کہہ چکے ہیں کہ الیکشن کسی صورت 14مئی کو نہیں ہوں گے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت نے عوام پر فوکس کرنے کے بجائے حکومت بچانے پر فوکس کیا ہوا ہے۔ شاید یہ مثال کسی کو اچھی نہ لگے لیکن یہ حقیقت ہے کہ بھارت کی کرنسی عالمی سطح پر اپنی شناخت بنا رہی ہے۔ 18ممالک اب تک بھارتی کرنسی میں تجارت کرنے پر اتفاق کر چکے ہیں۔ اور ہم الیکشن کب ہوں گے؟ الیکشن ہوں گے بھی یا نہیں؟ اسی سے باہر نہیں آرہے۔ اس ایک سال میں پی ڈی ایم حکومت کو کچھ اداروں کی طرف سے ٹف ٹائم بھی دیا گیا۔ اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس امر نے موجودہ سیاسی بحران کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ حکومت کہتی ہے کہ الیکشن کے معاملے پر تحریک انصاف عدالت کا سہارا تلاش کر رہی ہے اور تحریک انصاف حکومت کو پارلیمنٹ کے پیچھے چھپنے کا طعنہ دیتی ہے۔ کچھ عرصے سے عدلیہ اور پارلیمنٹ ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔ خدانخواستہ یہ معاملہ اب بھی نہ تھما تو پھر شاید بات انتخابات جلدی یا تاخیر سے ہونے سے بہت آگے بڑھ جائے۔
انتخابات کی تاریخ کے معاملے پر حکومت اپنی لڑائی پارلیمنٹ کے ذریعے لڑ رہی ہے۔ پارلیمنٹ نے الیکشن کمیشن کو انتخابات کیلئے فنڈز جاری کرنے سے منع کر دیا ہے جس کے بعد بال ایک بار پھر سپریم کورٹ کی کورٹ میں چلی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں اپنی رپورٹ جمع کروادی ہے‘ جس میں کہا گیا ہے کہ بروقت فنڈز اور سکیورٹی کی عدم فراہمی کی وجہ سے 14مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانا ممکن نہیں۔
اگر متعلقہ حکام اور ادارے ہی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے تو پھر کیا ہو سکتا ہے؟الیکشن کمیشن نے بھی ملک بھر میں انتخابات ایک ہی وقت میں کروانے کو مناسب قرار دیا ہے اور یہ کہ اگر اس راستے کو نہ اپنایا گیا تو ملک میں انارکی پھیلی گی۔ سٹیٹ بینک نے بھی انتخابات کیلئے فنڈز کی فراہمی کے حوالے سے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروا دی ہے۔ وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کہا ہے کہ سٹیٹ بینک کو پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر اخراجات کا اختیار نہیں۔ ہر کوئی دوسرے کا دائرہ اختیار بتا رہا ہے لیکن اب سپریم کورٹ اس حکم عدولی پر کیا فیصلہ کرتی ہے‘ یہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ حکومت کے بڑوں کے سروں پر نااہلی کی تلوار بھی منڈلا رہی ہے۔ ایک سینئر تجزیہ کار بتاتے ہیں کہ اگر معاملہ نا اہلی تک گیا تو پھر تین لوگ اس کا نشانہ بن سکتے ہیں جن میں سے ایک وزیراعظم شہباز شریف‘ دوسرے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور تیسرے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر یہ تینوں افراد نا اہل ہو بھی جائیں تو کیا انتخابات ہو جائیں گے؟ میری رائے میں اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ اگر ان تینوں کی نااہلی کے بعد حکومت انتخابات کی طرف چلی جاتی ہے تو پھر ان کی قربانی دینے کا کیا فائدہ؟ میں سمجھتا ہوں (ن) لیگ اور جے یو آئی کو تحمل سے کام لینا چاہیے اور تصادم کے آگے مذاکرات کی دیوار کھڑی کرکے افراتفری اور تناؤ کے ماحول سے باہر آنا چاہیے۔ سیاسی قیادت مل کر مسائل کا حل تلاش کرے گی تو کوئی راستہ نکل آئے گاجس سے ادارے مضبوط ہوں گے۔ معیشت توانا ہوگی۔ ورنہ پی ڈی ایم حکومت کی کارکردگی ایک سال بعد کیا‘ اکتوبر تک بھی ایسی ہی رہے گی اور معیشت اسی طرح وینٹی لیٹر پر پڑی رہے گی۔ ایسے میں ورلڈ بینک سمیت دیگر عالمی مالیاتی ادارے بھی ہماری معیشت پر اسی طرح نوحہ کناں رہیں گے۔