اوکاڑہ کے مردم خیز خطے کے شاعر اور افسانہ نگار علی اکبر ناطق کی نظموں کا ایک مجموعہ ''بے یقین بستیوں میں‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا اور اس میں ایک نظم بانسوں کے جنگل کے دو مصرعے کچھ یوں ہیں
میں بانسوں کے جنگل میں ہوں جن کے نیزے بنتے ہیں
صاف ہری لچکیلی شاخوں والا جنگل بانسوں کا
اگر ملکی حالات پر نظر دوڑائیں تو یوں لگتا ہے کہ علی اکبر ناطق نے برسوں پہلے بھانپ لیا تھا کہ ہم کون ہیں اور کہاں ہیں۔ ملک بھی اس وقت بے یقین بستی کا منظر پیش کر رہا ہے اور حالات بانسوں کے جنگل جیسے ہیں۔بانسوں کے جنگل کی تصویر کشی علی اکبر ناطق نے یوں کی تھی:
لیکن صدافسوس یہاں کے کالے ناگ قیامت ہیں
شاخوں پر لٹکے رہتے ہیں اور دھرتی پر رینگتے رہتے ہیں
ڈس لیتے ہیں‘ کھا جاتے ہیں‘ سانس ہوا ہو جاتی ہے
آخر خود بھی بن جاتے ہیں سانپ کے اندر جا کر سانپ
وائے کچھ معصوم یہاں سے بچ کر بھاگنے لگتے ہیں
لیکن جنگل بانسوں کا ہے جن کے نیزے بنتے ہیں
آپ سوچیں گے کہ میں '' بے یقین بستیوں‘‘ اور'' بانسوں کے جنگل‘‘ کو ملکی حالات کے ساتھ کیوں جوڑ رہا ہوں؟ تو شاید آپ حالات سے مطمئن ہیں ورنہ کچھ بھی ٹھیک نہیں لگتا۔ معاشی حالات یہ ہیں کہ غریب دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے اور حکمران کہتے ہیں کہ ان کے پاس ز ہر کھانے کو پیسے نہیں۔ اپوزیشن کے سب سے بڑے لیڈر کو الیکشن کی پڑی ہے۔ ان کے خیال میں عوام اور ملک کے تمام مسائل کا حل الیکشن ہیں۔ وہ یہ بتانے کو تیار نہیں کہ انہیں اقتدار کا جو مختصر عرصہ ملا تھا اس میں کیوں ناکام رہے اور اگر پھر حکومت مل جائے تو وہ معاشی اور سماجی ترقی کا کیا منصوبہ رکھتے ہیں۔
یوں لگتا ہے بانسوں کے جنگل میں ہر طرف سانپ لہرا رہے ہیں اور عوام کا مقدر ڈسے جانا اور کھا لیے جانا ہے‘ بھاگنے کی کوشش بھی بیکار ہے کیونکہ بانسوں کے نیزے بنتے ہیں۔
دو دن پہلے کے واقعات ہی دیکھ لیں‘ اعلیٰ عدلیہ کی ہدایت پر سیاسی جماعتیں مل بیٹھیں لیکن پھر پرویز الٰہی کے گھر پر پولیس کا دھاوا ‘ پتھراؤ اور تشدد بحران کو مزید گہرا اور راہوں کو مزید تاریک بنا گیا۔ عمران خان نے اس چھاپے کے بعد نئی حکمت عملی دینے کا اعلان کیا ہے اور اس کی کچھ وضاحت فواد چوہدری نے ایک ٹویٹ کے ذریعے کی اور کہا کہ پرویز الٰہی کے گھر پر حملہ‘ علی امین گنڈا پور کو ضمانت کے باوجود حبس بے جا میں رکھنا اور ورکرز کی گرفتاریاں مذاکراتی عمل کو بے معنی بنا رہی ہیں۔اگر حکومتی مذاکراتی ٹیم یقین دہانی کے بعد ماحول بہتر رکھنے میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی تو وہ بڑے فیصلے کیسے کرے گی؟انہوں نے اپنی ٹویٹ میں مزید کہا کہ عمران خان کی صدارت میں اجلاس میں مذاکرات جاری رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کریں گے۔
پرویز الٰہی نے اپنے گھر پر پولیس چھاپے اور کارروائی پر لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کر لیا ہے تو دوسری طرف پنجاب پولیس نے پرویز الٰہی اور ان کے ساتھیوں کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔ ایف آئی آر کے متن میں کہا گیا ہے کہ اینٹی کرپشن ٹیم نے پرویز الٰہی کی گرفتاری کے لیے ان کے گھر پر چھاپہ مارا تو اس دوران رہائش گاہ میں موجود 40 سے 50 افراد نے پتھراؤ اور تشدد شروع کر دیا‘ چھاپہ مار ٹیم پر پٹرول پھینکا گیا اور اس دوران پرویز الٰہی فرار ہو گئے۔
ان واقعات کے بعد بھی کسی کو لگتا ہے کہ ملک کے سیاسی اور معاشی حالات میں بہتری ممکن ہے تو وہ پاگل پن کی حد تک رجائیت کا شکار ہے۔ حالات کی سنگینی کا مزید اندازہ کرنا ہو تو ملٹری اکیڈمی کاکول کی پاسنگ آؤٹ پریڈ سے آرمی چیف کے خطاب کو توجہ سے سن اور پڑھ لیا جائے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا کہ دشمن عوام اور مسلح افواج کے درمیان دراڑ ڈالنے کی سازشوں میں سرگرم ہے۔ریاست کا محور پاکستان کے عوام ہیں‘ ہماری پہلی اور اہم ذمہ داری ریاست سے وفا داری اور پاکستان کی مسلح افواج کے آئینی کردار سے وابستگی ہے۔
دشمن کون ہے اور سازش کی نوعیت کیا ہے؟ اس کا علم عام آدمی کو ہے نہ کسی نے اس کی وضاحت کی لیکن فوج کے سربراہ نے اگر دشمن اور سازش کا ذکر کیا ہے تو یقینا کچھ نہ کچھ تو ہو گا۔ لیکن کیا سازش اور دشمن سے نمٹنے کے لیے قوم میں یکسوئی پائی جاتی ہے؟ ہرگز نہیں‘قوم سیاسی اور سماجی طور پر اس قدر ٹوٹ پھوٹ اور تقسیم کا شکار ہے کہ اب تو قومی لیڈر کہلوانے والے بھی افواج کے بارے میں ایسی باتیں کر رہے ہیں جو کبھی دشمن تصور کیے جانے والے ملکوں کے لیڈر کیاکرتے تھے۔
حالات یہ ہیں کہ ہر کوئی وارننگ جاری کرتا ہے‘ کبھی ڈیفالٹ کا ڈراواتو کبھی دشمن کی سازش کا انتباہ‘ یوں لگتا ہے کہ خوف کا موسم سب کو راس ہے‘ خوف چھایا رہے‘ بے یقینی بنی رہے اور حالات وہ ہو جائیں جو برسوں پہلے ن م راشد نے ایک نظم میں بیاں کیے تھے۔
زندگی سے ڈرتے ہو؟
زندگی تو تم بھی ہو زندگی تو ہم بھی ہیں!
زندگی سے ڈرتے ہو؟
آدمی سے ڈرتے ہو؟
آدمی تو تم بھی ہو آدمی تو ہم بھی ہیں
عام آدمی کرے تو کیا کرے‘ اس کی امیدیں قوم کے لیڈروں سے ہیں لیکن ان امیدوں کو اثر لکھنوی کے اس شعر میں دیکھا اور سمجھا جانا بہتر ہوگا۔
کچھ نہ کچھ ہو ہی رہے گا درد مندی کا مآل
جان کے دشمن تجھی کو ہم پکارے جائیں گے
عوام اب بھی اپنی اپنی پسند کے لیڈر سے توقع لگائے بیٹھے ہیں لیکن یہ امیدیں کسی دشمنِ جاں سے لگائی جانے والی امیدیں لگتی ہیں۔