جس معاشرے میں انصاف کا ترازو برابر ہو اس کے باسی خوشحال رہتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں‘ جہاں فوری اور سستا انصاف میسر ہو‘ جرائم کی شرح بھی کم ترین ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں نظامِ انصاف پر بہت سے سوال اُٹھائے جاتے ہیں۔ حالیہ عرصے کے دوران عدلیہ کے معزز جج صاحبان کے درمیان تقسیم کا تاثر بھی دکھائی دیا۔ ایک طرف سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور ان کے پسندیدہ جج صاحبان تھے تو دوسری طرف دیگر معزز ججز۔ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال پر اپنے من مرضی کے بینچ بنانے کا اعتراض بھی لگتا رہا ہے جس نے معزز عدلیہ کے جج صاحبان کے درمیان تقسیم کے تاثر کو مزید تقویت بخشی۔ اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے کے بعد یہ اُمید پیدا ہوئی ہے کہ یہ معتبر ادارہ پھر سے آئین اور قانون کے تحت فیصلے کرنے کے لیے آزاد ہوگا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 17ستمبر بروز اتوار سپریم کورٹ آف پاکستان کے 29ویں چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف اُٹھایا۔ وہ 25اکتوبر 2024ء یعنی 13مہینے اور آٹھ دن تک اس عہدے پر فائز رہیں گے۔ صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے ان سے اس عہدے کا حلف لیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تقریباً چار دہائیوں سے بینچ اور بار کا حصہ ہیں لیکن وہ ملک کی عدالتی تاریخ کے پہلے جج ہیں جن کی بطور جج پہلی تعیناتی ہی کسی ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر ہوئی تھی۔ 2009ء میں بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر بینچ کا حصہ بننے کے 14سال بعد آج وہ سپریم کورٹ کے سب سے بڑے عہدے پر فائز ہیں۔ بطور چیف جسٹس آف پاکستان اُنہوں نے پروٹوکول اور گاڑی لینے سے انکار کر کے ایک اچھی روایت ڈالی ہے اور انہوں نے ساتھی ججز کو ملنے والی عام سکیورٹی لینے پر ہی اکتفا کیا ہے۔ اُن کے چیمبر کے باہر لگی تختی پر چیف جسٹس آف پاکستان کے بجائے صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہی لکھا گیا ہے۔ اس سے قبل ہمیں ایسی روایت نہیں ملتی۔
بطور چیف جسٹس اپنے دور کا آغاز انہوں نے ایک منفرد کیس سے کیا ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فُل کورٹ میں سماعت کی جسے میڈیا پر براہِ راست نشر بھی کیا گیا۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ نئے چیف جسٹس صاحب کو اپنے دور میں کن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اُنہیں ایک نہیں بلکہ کئی ایک چیلنجز کا سامنا کرنا ہو گا۔ جن میں سے ایک چیلنج یہ ہے کہ وہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی طرف سے دیے گئے حکم امتناعی کو ختم کرسکیں گے یا نہیں۔ یہ ایکٹ جو کہ چیف جسٹس کے اختیارت کم کرنے سے متعلق ہے‘ فُل کورٹ نے نئے چیف جسٹس کی سربراہی میں اس پر سماعت کی اور اس پر مزید کارروائی تین اکتوبر تک ملتوی کردی گئی ہے۔ معزز چیف جسٹس کہتے ہیں کہ آئین اور قانون کے لیے وہ اپنے اختیارات سے بھی دستبردار ہونے کو تیار ہیں۔ پی ڈی ایم دورِ حکومت میں یہ قانون دونوں ایوانوں سے پاس کیا گیا تھا جس کے تحت چیف جسٹس کا ازخود نوٹس کا اختیار محدود کر دیا گیا تھا۔ اس قانون کے مطابق نئے بینچوں کی تشکیل اور از خود نوٹس کا فیصلہ ایک کمیٹی کے سپرد کردیا گیا تھا جس میں چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز شامل ہوتے۔ اس کے علاوہ نئی قانون سازی کے تحت میاں نواز شریف کو از خود نوٹس پر ملی سزا پر اپیل کا حق مل گیا تھا۔ یوسف رضا گیلانی‘ جہانگیر ترین سمیت دیگر افراد بھی اپنے خلاف ہونے والے عدالتی فیصلوں کو چیلنج کر سکتے تھے۔ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر چیف جسٹس کے خیالات واضح ہیں لیکن فُل کورٹ کیا فیصلہ کرتا ہے‘ وہ بھی جلد پتہ چل جائے گا۔ اس کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لیے جو چیلنج ہو سکتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا وہ ان فیصلوں پر جن پر سابق چیف جسٹس عملدرآمد نہیں کروا سکے‘عملدرآمد کروا سکیں گے یا نہیں۔ ہم نے دیکھا کہ سابق چیف جسٹس اپنے بہت سے فیصلوں پر عملدرآمد کرانے میں ناکام رہے۔ ایک چیلنج 90دن میں ملک میں عام انتخابات کرانے کا بھی ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے لیے یہ بھی ایک بڑا چیلنج ہوگا کہ وہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ہم خیال جج صاحبان کے موجود ہوتے ہوئے عدالتی تقسیم کے اُس تاثر کو کس طرح ختم کریں گے جو ماضی میں دیکھا گیاتھا۔ اسی طرح نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف درخواستیں بھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ اس معاملے پر چیف جسٹس کیا مؤقف اختیار کرتے ہیں۔ ماضی قریب میں جتنے بھی چیف جسٹس صاحبان گزرے ہیں‘ ان پر جانبداری سمیت مختلف اعتراضات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ تحریک انصاف نئے چیف جسٹس صاحب کو جانبدار خیال کرتی ہے‘ انہیں یہ تاثر بھی زائل کرنا ہوگا۔ حال ہی میں سپریم کورٹ میں 15جون تک زیر التوا مقدمات کی رپورٹ جاری کی گئی تھی جس کے مطابق زیر التوا مقدمات کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہوا اور یہ تعداد 54ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ نئے چیف جسٹس صاحب ان کیسز میں کس قدر کمی یقینی بنا پاتے ہیں۔
بادی النظر میں عدلیہ کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں جن سے نمٹنا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ماضی میں اپنی صلاحیتوں سے یہ ثابت بھی کر چکے ہیں کہ وہ ان مسائل سے بخوبی نمٹ سکتے ہیں۔ ان کے اہم فیصلوں میں میمو گیٹ‘ کوئٹہ انکوائری کمیشن‘ آرٹیکل 184کی تجدید سے متعلق اہم فیصلے شامل ہے۔ سب سے اہم ترین فیصلہ انہوں نے فیض آباد دھرنے پر دیا۔ یہی فیصلہ ان کے آئین پر عمل پیرا ہونے کا واضح ثبوت ہے۔ انہوں نے فروری 2017ء میں فیض آباد پر تحریک لبیک کی طرف سے دیے گئے دھرنے سے متعلق از خود نوٹس کیس کے فیصلے میں ان فسروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا جنہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی امور میں مداخلت کی تھی۔ اس فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ مقتدرہ کسی جماعت‘ تنظیم یا سیاستدان کی حمایت کر رہی ہے۔ اس فیصلے کے بعد وکلا کے ایک دھڑے بالخصوص پنجاب بار کونسل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جسے وکلا کی سب سے بڑی باڈی پاکستان بار کونسل نے مسترد کر دیا۔ ان کے خلاف وہ صدارتی ریفرنس بھی مسترد ہوا جو تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں بنایا گیا تھا۔ اور آج مکافاتِ عمل دیکھیے کہ وہی صدر جنہوں نے ان کے خلاف صدارتی ریفرنس بھیجا انہوں نے ہی ان سے چیف جسٹس کا حلف بھی لیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے کے بعد انصاف کی اُمید پیدا ہوئی ہے۔ اُمید کی جا رہی ہے کہ اب آئین اور قانون کی روشنی میں ہی فیصلے ہوں گے جس سے انصاف کا بول بالا ہوگا جس سے عوام کا نظامِ انصاف پر اعتماد پھر سے بحال ہو جائے گا۔ اُمید ہے کہ معزز چیف جسٹس ایسے فیصلے کریں گے جن کو مورخ سنہرے حروف میں لکھے گا۔ یہیں سے عدلیہ کے سنہری دور کا آغاز ہو گا۔