"IYC" (space) message & send to 7575

الیکشن2024ء‘ کون بنے گا وزیراعظم ؟

آٹھ فروری کو ملک میں ایک ایسا الیکشن ہونے جا رہا ہے جس کے حوالے سے بہت سی سازشی تھیوریاں مارکیٹ میں گردش کررہی ہیں۔ ملک کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو شاید کوئی بھی انتخابات ایسے نہیں جن کوحتمی طور پر صاف اور شفاف قرار دیا جا سکے۔ اگرچہ 1970ء میں ہونے والے انتخابات کو بہت سے سیاسی تجزیہ کار غیرجانبدارانہ اور شفاف قرار دیتے ہیں لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے ان انتخابی نتائج کو بھی تسلیم نہیں کیا اور اکثریتی نشستیں جیتنے والی سیاسی جماعت کو بھی زبردستی اقتدار سے دور کر دیا جس کا نتیجہ ملک کے دو لخت ہونے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔
یہ عام انتخابات ماضی میں ہونے والے تمام انتخابات سے کچھ اس لحاظ سے مختلف ہیں کہ ماضی میں ہوئے تمام انتخابات پر اعتراضات ان کے انعقاد کے بعد اٹھائے گئے لیکن آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات کے حوالے سے ابھی سے بہت سی کہانیاں جنم لے چکی ہیں۔ ملک کی ایک مقبول جماعت پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیراعظم مقتدرہ‘ الیکشن کمیشن اور دیگر ریاستی اداروں پر نہ صرف سنگین الزامات عائد کر چکے ہیں بلکہ وہ سائفر کیس‘ توشہ خانہ کیس اور دورانِ عدت نکاح کیس میں خود کو اور اپنی اہلیہ بشریٰ بی بی کو سنائی جانے والی سزاؤں کو بھی سیاسی انتقام قرار دے چکے ہیں۔ بیرسٹر گوہر خان سمیت بانی پی ٹی آئی کے وکلا بھی اسے پی ٹی آئی کو نشانہ بنانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سب اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ عوام میں یہ تاثر پیدا کیا جا سکے کہ پی ٹی آئی اب اقتدار میں واپس نہیں آئے گی۔ پی ٹی آئی کے بیشتر رہنما سیاست سے باہر ہو چکے ہیں لیکن عوام سمجھدار ہیں اور وہ آٹھ فروری کو اپنی پسند کی جماعت اور پسند کے امیدوار کو ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ سٹیشنز کا رُخ کرینگے۔
دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف کے اعتماد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اب تو بین الاقوامی نشریاتی ادارے بھی اُن کے اقتدار میں آنے کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ جس کی ہیڈ لائن ''نواز شریف: پاکستان کے کم بیک کے بادشاہ ایک بار پھر وزیراعظم بننے کے لیے تیار‘‘ ہے‘ میں لکھا ہے کہ پاکستان کے تین بار وزیراعظم رہنے والے نواز شریف گزشتہ سال خود ساختہ جلاوطنی سے واپس آئے تھے۔ اب وہ آٹھ فروری کو ہونے والا الیکشن جیتنے کے لیے میدان میں ہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں میں پاکستانی سیاست میں ان کے غلبے کے باوجود بہت کم لوگ ان کی واپسی کی پیش گوئی کر رہے تھے۔ ان کی آخری حکومت ان پر بدعنوانی کے الزام میں سزا یافتہ ہونے پر ختم ہوئی اور اس سے پہلے ایک آمر نے ان کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا تھا۔ اب ایک بار پھر وہ وزارتِ عظمیٰ کی کرسی کے لیے کامیابی کے دہانے پر کھڑے نظر آتے ہیں جو ایک ایسے شخص کے لیے ایک ڈرامائی تبدیلی ہے جسے اس سے قبل مقتدرہ کے مخالف کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔
وِلسن سنٹر تھنک ٹینک کے جنوبی ایشیا کے ڈائریکٹر اور تجزیہ کار کیوجل مین کہتے ہیں کہ نواز شریف اگلے وزیراعظم بننے کے لیے ایک مضبوط امیدوار ہیں‘ اس لیے نہیں کہ وہ بے حد مقبول ہیں‘ وہ یقینی طور پر مقبول نہیں ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ اس لیے کہ انہوں نے اپنے کارڈ صحیح کھیلے ہیں۔ اس سے پہلے گیلپ پاکستان کے سروے میں میاں نواز شریف کو پنجاب کا سب سے مقبول لیڈر قرار دیا گیا تھا۔ وفاقی سطح پر بھی ان کی مقبولیت جون 2023ء کے مقابلے میں 36فیصد سے بڑھ کر دسمبر 2023ء میں 52فیصد پر پہنچ چکی ہے۔ اسی طرح بلوم برگ نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں نواز شریف کی معاشی پالیسیوں کو بہترین قراردیتے ہوئے انہیں پنجاب کا مقبول ترین لیڈر قرار دیا ہے۔ اس سے پہلے انسٹی ٹیوٹ فار پبلک اوپینین ریسرچ کے سروے میں 51فیصد لوگوں نے رائے دی کہ مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنے گی۔
ملکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف کے حوالے سے عالمی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹس اور سرویز یہ ظاہرکرتے ہیں کہ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ اور دیگر اہم ادارے نہ صرف پاکستانی سیاست اور آئندہ ہونے والے انتخابات پر نظر رکھے ہوئے ہیں بلکہ عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ ہونے والے مستقبل کے تمام اہم معاہدے بھی اسی پر منحصر ہیں۔ دوسری جانب میاں نواز شریف کے ناقدین ان پر ہمیشہ کی طرح طاقتور حلقوں کی مدد سے اقتدار میں آنے کا الزام عائد کرتے نظر آتے ہیں۔ میاں نواز شریف کی پاکستانی سیاست میں اس طرح سے واپسی میں جہاں ان کے طرزِ سیاست اور حکمت عملی کا اہم کردار ہے وہیں ان کے چھوٹے بھائی‘ مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعظم میاں شہباز شریف کی کوششیں بھی شامل ہیں۔ بہت سے تجزیہ کاروں کے مطابق میاں نواز شریف کے طاقتور حلقوں کے ساتھ اختلافات اور تلخیوں کے بعد میاں شہباز شریف نے ہمیشہ صلح کے لیے نہ صرف اپنا کردار ادا کیا بلکہ کامیابی کے ساتھ اپنے بڑے بھائی کو واپس بھی لائے۔
اس ساری صورتحال میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنی گیم بڑی خوبصورتی سے کھیلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ انہیں خود بھی اس بات کا احساس ہے کہ وہ پنجاب میں زیادہ سیٹیں نہیں جیت سکتے لیکن وہ اپنی تقریروں سے اپنے جیالوں کا خون گرمانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ بلاول بھٹو اپنی تقریروں میں میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کو ہدفِ تنقید بنائے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف کے لیے حالات ساز گار نہ ہونے کا پورا فائدہ حاصل کرنے میں کوشاں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ باقی سیاست دان عوام کے بجائے اِدھر اُدھر دیکھ رہے ہیں‘ کوئی سلیکٹڈ بن کر آنا چاہتا ہے اور کوئی لاڈلہ بن کر وزیراعظم بننے کے خواب دیکھ رہا ہے لیکن عوام آٹھ فروری کو ان سب پر تیروں کی بارش کریں گے۔ باقی جماعتیں نفرت اور تقسیم کی سیاست کر رہی ہیں لیکن پیپلز پارٹی انتقام کی سیاست پر یقین نہیں رکھتی‘ ہم صرف عوام کی طاقت پر ہی یقین رکھتے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق مہنگائی کی چکی میں پستے عوام اس بار اپنی نظریں اس بات پر جمائے ہوئے ہیں کہ ان کے مسیحا کیا واقعی ملک کی معاشی حالت کو ٹھیک کر پائیں گے؟ کیا بجلی اور گیس کے بلوں میں کمی صرف سیاسی نعروں اور تقریروں تک ہی محدود رہے گی یا واقعی اس پر عمل بھی ہو گا؟ کیا سکول میں نہ جانے والے دو کروڑ 62لاکھ بچے بھی علم کی روشنی سے منور ہو سکیں گے؟ کیا سرکاری ہسپتالوں میں ہر پاکستانی کا مفت اور باعزت طریقے سے علاج ممکن ہو پائے گا؟ ان تمام اقدامات کو یقینی بنانے کے لیے کروڑوں پاکستانی ووٹروں کو نہ صرف ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ سٹیشنز کا رُخ کرنا ہو گا بلکہ ذات برادری‘ نوکری اور عہدوں کے لالچ کو پس پشت ڈال کر حقیقی معنوں میں جمہوریت کی بقا اور ملک کی ترقی کے لیے ایماندار اور پڑھے لکھے نمائندوں کو چننا ہو گا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہاتھ میں قیمے کا نان یا بریانی کی پلیٹ پکڑ کر ووٹ کا فیصلہ کرنے کے بجائے اپنے شعور کی آنکھ سے اس بات کا فیصلہ کیا جائے کہ ہمارا نمائندہ کون اور کیسا ہو گا۔ جب تک ہم خود اپنے اوپر کرپٹ‘ غیر سنجیدہ‘ لالچی اور سازشی نمائندے مسلط کرتے رہیں گے تب تک نہ تو کوئی سیاسی جماعت ہماری مشکلات دور کرنے میں سنجیدہ اور کامیاب ہو گی اور نہ ہی ہم ان سے کوئی توقع کر سکتے ہیں۔ اپنے کل کو بہتر اور محفوظ بنانے کے لیے ہمیں فیصلہ آج ہی کرنا ہو گا۔ ہمارا ایک درست فیصلہ نہ صرف ہمیں مشکل سے نکالنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے بلکہ عالمی سطح پر ہم ملکِ عزیز کی ساکھ بحال کرنے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں