انتخابات ہو گئے‘ اب اگلا مرحلہ حکومت سازی کا ہے۔ وفاق اور صوبوں میں کون کس کے ساتھ مل کر حکومت بنائے گا‘ یہ سوال اب سب سے اہم ہے۔ تا حال آنے والے نتائج سے واضح ہو گیا ہے کہ کوئی بھی پارٹی سادہ اکثریت حاصل نہیں کر سکی ۔ یعنی کوئی پارٹی اس قابل نہیں کہ اکیلے حکومت بنا سکے۔ حکومت بنانے کی خواہش مند پارٹی کو ایک یا ایک سے زائد پارٹیوں کی حمایت حاصل کرنا پڑے گی۔ اب تک اکثریت آزاد امیدواروں کو ملی ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دراصل پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں لیکن چونکہ پی ٹی آئی کو الیکشن میں حصہ لینے کا موقع نہیں ملااس لیے انہوں نے آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لیا۔ ان آزاد یا پی ٹی آئی کے امیدواروں کی جیت کے بارے میں مختلف نوعیت کے تبصرے ہو رہے ہیں‘ مثلاً یہ کہا جا رہا ہے کہ انہیں پی ٹی آئی کی کارکردگی پر نہیں بلکہ ہمدردی کے ووٹ ملے ہیں۔ اس ہمدردی کے ووٹ جو انتخابی مہم کے آخری دنوں میں بانی پی ٹی آئی کے خلاف پے در پے فیصلوں کی وجہ سے ان کے لیے پیدا ہو گئی۔ آزاد امیدواروں کو ہمدردی کے ووٹ ملے ہیں یا یہ اس بیانیے کا نتیجہ ہے جو عمران خان نے باقی پارٹیوں کی کرپشن کے بارے میں قائم کیاہے‘ اس بارے میں فی الوقت وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ یہ حقیقت ضرور سامنے آئی ہے کہ اگلی حکومت یا اپوزیشن کی تشکیل میں ان آزاد جیتنے والوں کو اہمیت حاصل رہے گی۔
امید ہے کہ یہ کالم شائع ہونے تک تمام حلقوں کے مکمل نتائج سامنے آ چکے ہوں گے۔ یہ سوچ بچار ابھی سے شروع ہو چکی ہے کہ حکومت کیسے تشکیل دی جائے۔ پی ٹی آئی نے تو کہہ دیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی میں سے کسی کے ساتھ حکومتی اتحاد نہیں بنایا جا سکتا۔ پچھلے دنوں کوئی صاحب کہہ رہے تھے پی ٹی آئی ایک مخصوص حکمت عملی پر کام کر رہی ہے اور اس کے امیدوار زیادہ تعداد میں جیتے تو وہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے علاوہ کسی پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں گے۔ اب صورتحال تو واضح ہو گئی ہے لیکن مسئلہ یہ درپیش ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے سوا کوئی اور پارٹی اس پوزیشن میں نہیں کہ اس کے ساتھ الحاق کر کے حکومت تشکیل دی جا سکے۔ اس وقت تین ہی آپشن ہیں :آزاد منتخب نمائندے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں۔آزاد نمائندے پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دیں یا مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی مل کر حکومت بنائیں اورآزاد نمائندوں کو اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنا پڑے۔ میری پیشگوئی یہ ہے کہ تیسرے آپشن کو زیادہ اہمیت دی جائے گی۔ اس وقت ایک اہم سوال یہ ہے کہ اگر مخلوط حکومت بنی‘ جیسا کہ حالات سے واضح ہے‘ تو کیا پھر بھی نواز شریف وزیر اعظم بننا پسند کریں گے یا کسی اور کوآگے لائیں گے؟ یہ 'کسی اور‘ کون ہو سکتا ہے‘ اس بارے میں ابھی یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ نواز شریف کی ہدایت پر شہباز شریف نے آصف علی زرداری سے ملاقات کی ہے جس میں دونوں پارٹیوں نے ساتھ مل کر چلنے کا ارادہ کیا ہے۔ نواز شریف کی آصف زرداری اور بلاول بھٹو کے ساتھ ملاقات بھی متوقع ہے۔ اگرچہ شہباز شریف اورآصف زرداری کے مابین ملاقات میں دونوں پارٹیوں نے ایک دوسرے کا ساتھ دینے کی بات کی ہے تاہم یہ بھی سننے میںآیا ہے کہ وزارتِ عظمیٰ بلاول بھٹو کو دینے کی شرط پر صدارت اور پنجاب کی حکومت مسلم لیگ(ن) کو دینے کی بات کی گئی ہے۔ ادھر یہ سلسلہ چل رہا ہے‘ تو اُدھرآزاد امیدوار بیرسٹر گوہر نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں قومی اسمبلی میں 170نشستوں میں برتری حاصل ہے اور وہ وفاق‘ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومت بنائیں گے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ جان بوجھ کر نتا ئج کو روک کر اکثریت کو اقلیت میں بدلا جا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ اپنے دعوؤں میں درست ہوں لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آزاد امیدوار مل کرکیسے حکومت بنا سکتے ہیں ۔ پی ٹی آئی کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ملی تھی‘ پارٹی کے بانی مختلف کیسز میں سزا یافتہ بھی ہیں‘ ایسے میں پی ٹی آئی کی حکومت کیسے بن سکتی ہے؟ مسلم لیگ(ن)کے قائد نواز شریف نے جمعہ کی شام اپنے خطاب میں کہا کہ ہم بار بار ملک میں انتخابات کرانے کے متحمل نہیں ہو سکتے‘ اس ملک کو بھنورسے نکالنے کے لیے ادارے ‘ سیاستدان‘ پارلیمنٹ‘ افواجِ پاکستان‘ عدلیہ اور میڈیا سب اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اتنی اکثریت نہیں کہ اپنے بل پر حکومت بنا سکیں ‘ اس لیے ہم الیکشن میں کامیاب ہونے والی اپنی اتحادی جماعتوں کو دعوت دیں گے کہ وہ ہمارے ساتھ شراکت کریں ‘ ہم مل کر حکومت بنائیں اور مل کر پاکستان کو مشکلات سے نکالیں۔ دراصل یہی جذبہ ہے جو اس وقت درکار ہے۔ ہم نے اس ملک میں حکومتیں بنانے اور حکومتیں گرانے کے حوالے سے بہت تجربات کر لیے۔ اب وقت ہے کہ سب مل کر بیٹھیں اور سوچیں کہ ملک کو مسائل اور مشکلات سے کیسے نکالنا ہے۔ اس کے لیے پہلا قدم یہ اٹھایا جا سکتا ہے کہ جیتنے والوں کے ساتھ ساتھ کامیاب نہ ہونے والی پارٹیاں اور امیدوار بھی کھلے دل کے ساتھ نتائج کو تسلیم کریں کہ یہی ملک و قوم کے لیے بہتر ہے۔ اگر دھاندلی کا شور مچایا جائے گا تو انتخابات کے نتیجے میں جس غیر یقینی صورتحال کے ختم ہونے کے امکانات روشن ہوئے ہیں ‘ وہ لوٹ آئے گی اور غیر یقینی صورتحال کے معاشرت اور معیشت پر کیا کیا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ‘ اس کا اندازہ لگانا ہو تو گزشتہ دو تین برسوں کی صورتحال کا ایک جائزہ لے لیں ‘ سب کچھ واضح ہو جائے گا۔ عوام نے جو بھی فیصلہ کیا‘ اسے تسلیم کیا جانا چاہیے اور ملک کوآگے بڑھنے کا موقع ملنا چاہیے۔ جمود طاری رہا تو حالات گمبھیر ہو سکتے ہیں۔
الیکشن والے دن انٹرنیٹ اور موبائل سروس بند رکھی گئی جس پر سیاسی جماعتوں اور انتخابی امیدواروں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ مواصلاتی سروس بند ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ 8300پر اپنے حلقے اور پولنگ سٹیشن کے بارے میں معلومات حاصل کرنے سے محروم رہے۔ اس پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے چیف الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن سکیم جاری ہونے کے بعد ووٹرز کو اپنا ووٹ چیک کر لینا چاہیے تھا۔ انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے لوگوں کا دھیان رزلٹس ٹرانسمشن سسٹم(آر ٹی ایس) کی طرف جاتا رہا۔ یاد رہے کہ 2018ء کے انتخابات میں پولنگ سٹیشنوں سے انتخابی نتائج الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ارسال کرنے کے لیے آر ٹی ایس سسٹم وضع کیا گیا تھا‘ لیکن عین وقت پر سسٹم بیٹھ جانے کی وجہ سے الیکشن کے نتائج مرتب کرنے میں تاخیر ہو ئی۔ تب یہ کہا جانے لگاکہ آر ٹی ایس کی خرابی کے دورانیے میں الیکشن کے نتائج میں ردو بدل کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس بارآر ٹی ایس جیسا مسئلہ پیش نہیںآیا ‘بہرحال نتائج آنے میں خاصی تاخیر ہو ئی۔ ممکن ہے الیکشن سے ایک روز قبل بلوچستان میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے انٹرنیٹ اور موبائل فون سروسز بن کی گئیں ہوں تاکہ ایسے مزید واقعات سے بچا جا سکے۔ یہ توجیہ اور یہ جواز ہو سکتا ہے اپنی جگہ ٹھیک ہو لیکن عوام اور سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنمائوں کو مطمئن کرنا بھی تو ضروری ہے۔ کامن ویلتھ مبصر گروپ نے پاکستان میں انتخابات پر الیکشن کمیشن کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن عملے نے بہت پروفیشنل طریقے سے کام کیا‘ چند ایک واقعات ہوئے جن میں بے قاعدگیاں نوٹ کی گئیں۔ صائب مشورہ یہی ہے کہ اب جبکہ الیکشن ہو چکے ہیں تو ان کے نتا ئج کو تسلیم کر کے آگے بڑھا جائے۔