ملک میں عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کیلئے بات چیت اور صلاح مشورے ابھی جاری ہیں۔ صورتحال پل پل تبدیل ہو رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ میں کالم میں جو کچھ تحریر کروں‘ اخبار کے اشاعت تک ان معاملات میں خاصی تبدیلی واقع ہو چکی ہو‘ اس لیے آج ملک سے باہر چلتے ہیں‘ پڑوس میں جھانکتے ہیں جہاں کسان اپنے مطالبات منوانے کیلئے ایک بار پھر سڑکوں پر ہیں۔ ان کے مطالبات کی فہرست یہ ہے:
1: Minimum Support Price (MSP) پر فصلوں کی خریداری کی ضمانت دی جائے اور حکومت اس سلسلے میں نوٹیفکیشن جاری کرے۔ 2: سوامی ناتھن کمیشن نے جو رپورٹ پیش کی تھی‘ اسے نافذ کیا جائے۔ 3: کسانوں کے قرضے معاف کیے جائیں۔ 4: 2020ء کی کسانوں کی تحریک کے دوران ان کے خلاف جو مقدمات درج ہوئے تھے‘ وہ واپس لیے جائیں۔ 5: حکومت کی جانب سے کام دینے کی سکیم 'منریگا‘ کے تحت سال میں 200دن کا کام فراہم کیا جائے اور یومیہ اُجرت 700روپے مقرر کی جائے۔
آگے بڑھنے سے پہلے تین باتوں کی وضاحت کرنا چاہوں گا۔ Minimum Support Price حکومت کی جانب سے کسانوں کیلئے یہ یقین دہانی ہوتی ہے کہ ان کی فصل اس کم از کم نرخ پر خریدی جائے گی اور قیمت اس سے کم نہیں ہونے دی جائے گی۔ بھارت کی سیاسی جماعت کانگریس کی قیادت میں بننے والے اتحاد یونائیٹڈ پروگریسو الائنس کی حکومت 2004ء سے 2014ء تک بھارت میں برسرِ اقتدار رہی۔ تب منموہن سنگھ وزیراعظم تھے۔ اس دور میں نومبر 2004ء میں ایم ایس سوامی ناتھن کی صدارت میں ایک کمیٹی بنائی گئی تھی جسے 'نیشنل کمیشن آن فارمرز‘ کا نام دیا گیا تھا لیکن یہ سوامی ناتھن کمیشن کے نام سے مشہور ہوئی تھی۔ اس کمیشن نے دسمبر 2004ء سے اکتوبر 2006ء کے درمیانی عرصے میں چھ رپورٹس تیار کی تھیں‘ جن میں کسانوں کی معاشی حالت بہتر بنانے اور زراعت کے شعبے میں پیداوار بڑھانے کیلئے کئی سفارشات پیش کی گئی تھیں۔ ان سفارشات میں MSPکے سلسلے میں بھی سفارشات شامل تھیں۔ سوامی ناتھن کمیشن کی کچھ سفارشات اس طرح تھیں: کاشت کاروں کو فصل کی پیداوار کی قیمت لاگت سے 50فیصد زیادہ ملنی چاہیے۔ کاشت کاروں کو کم قیمت پر اچھے بیج فراہم کیے جائیں۔ خواتین کسانوں کو کسان کریڈٹ کارڈ ملنے چاہئیں۔ قدرتی آفات کی صورت میں کسانوں کو مدد ملنی چاہیے۔ زائد اور غیر استعمال شدہ زمین کسانوں میں تقسیم کی جائے۔ پورے ملک میں ہر فصل کیلئے بیمہ کی سہولت فراہم کی جائے۔ حکومت کی مدد سے کسانوں کو دیے گئے قرضوں پر سود کی شرح چار فیصد تک نیچے لائی جائے۔ اوپر درج 'منریگا سکیم‘ سے مراد مہاتما گاندھی نیشنل دیہی روزگار گارنٹی سکیم ہے‘ جس کے تحت بھارت میں روزگار فراہم کرنے کی گارنٹی دی گئی تھی۔ بھارتی کسان اس پر عمل درآمد کا تقاضا کر رہے ہیں۔
احتجاج کرنے والے کسانوں نے گزشتہ ہفتے دہلی کی طرف مارچ شروع کیا تھا تو حکومت نے انہیں دارالحکومت سے کم و بیش 200کلومیٹر دور روک دیا تھا‘ جس کے بعد کسان رہنما اپنے مطالبات پر حکومت سے مذاکرات کر رہے تھے۔ مذاکرات کے دوران بھارتی حکومت نے کسان رہنماؤں کو یقین دہانی کرائی تھی کہ حکومت پانچ سالہ معاہدے کے تحت کسانوں سے اناج خریدے گی؛ تاہم پیر کی رات احتجاج کرنے والے کسانوں کی طرف سے کہا گیا کہ حکومتی پیشکش ان کے مفاد میں نہیں ہے‘ جس کے بعد احتجاج کرنے والے کسانوں نے ایک بار پھر دارالحکومت دہلی کی طرف مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مطالبات پر اب بھی قائم ہیں اور چاہتے ہیں کہ حکومت انہیں تمام 23 اجناس (دھان‘ گندم‘ مکئی‘ باجرہ‘ جوار‘ جو‘ رگی‘ چنا‘ ارہر‘ مونگ‘ مسور‘ ماش‘ مونگ پھلی‘ سویابین‘ سرسوں ‘ تل‘ سورج مکھی‘ زعفران‘ گنا‘ کپاس‘ پٹ سن‘ ناریل) MSP کے تحت خریدنے کی قانونی گارنٹی دے۔
یاد رہے کہ یہ حالیہ تحریک 2020ء میں ہونے والے احتجاج کا تسلسل ہے۔ 2020ء میں ہزاروں کسان متنازع زرعی اصلاحات کے خلاف دہلی کی سرحد پر دھرنا دیے بیٹھے رہے تھے جس کے بعد حکومت کو نئے قوانین پر کام معطل کرنا پڑا تھا۔ اب بھارتی کسان اس بات پر احتجاج کررہے ہیں کہ حکومت نے 2020ء میں ان کے ساتھ جو وعدے کیے تھے‘ وہ پورے نہیں کیے گئے۔ اب کسانوں نے پنشن اور قرضے معاف کرانے کے حوالے سے نئے مطالبات بھی پرانے مطالبات میں شامل کر لیے ہیں‘ جنہیں تسلیم کرنے سے مودی حکومت تاحال گریزاں ہے۔ آگے کا کسی کو معلوم نہیں۔ مودی حکومت جو قوانین بنانا چاہتی ہے اور جو حکومت اور کسانوں کے مابین وجہ تنازع ہیں‘ ان کی مختصر سی تفصیل درج ذیل ہے:
دی فارمرز پروڈیوس ٹریڈ اینڈ کامرس (پروموشن اینڈ فیسیلی ٹیشن) 2020ء کا قانون‘ جس کے مطاق کسان ایگری کلچر پروڈیوس مارکیٹ کمیٹی کے ذریعے مخصوص منڈیوں کے باہر اپنی پیداوار دوسری ریاستوں کو بغیر ٹیکس فروخت کر سکتے ہیں۔ دوسرے قانون فارمرز ایگریمنٹ آن پرائز انشورنس اینڈ فارم سروس ایکٹ 2020ء (ایمپاورمنٹ اینڈ پروڈکشن) کے مطابق کسان کانٹریکٹ فارمنگ یعنی معاہدہ شدہ کاشت کاری کر سکتے ہیں اور براہِ راست اس کی مارکیٹنگ بھی کر سکتے ہیں۔ تیسرا قانون سپیشل کموڈٹیز (امینڈمنٹ) ایکٹ 2020ء ہے جس کے مطابق اناج کی پیداوار‘ ذخیرہ اور فروخت حکومتی کنٹرول سے باہر کر دیا جائے گا۔ بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ مذکورہ بالا قوانین کسانوں کے حق میں بہتر ہیں‘ لیکن کسان اس موقف کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان قوانین پر عمل درآمد سے کسانوں کے مسائل کم ہونے کے بجائے ان میں اضافہ ہو جائے گا۔
اب جبکہ بھارت میں کسانوں کی احتجاجی تحریک ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے اور اس کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے تو سوال یہ ہے کہ نریندر مودی کی حکومت اس کو برداشت کر پائے گی یا 2020ء کی طرح اب بھی اسے کسانوں کے سامنے جھکنا اور ان کے مطالبات کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ بھارت میں رواں سال عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب بھارت کی کسان برادری کتنی متحد و متفق ہے‘ یہ سب کے مشاہدے میں آ چکا ہے۔ ایسے میں نریندر مودی کسانوں کو ناراض کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے‘ کیونکہ اگر انہوں نے ایسا کیا تو ایک بڑا ووٹ بینک ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ مودی اپنی حکومت کی دو ٹرمز پوری کر چکے ہیں اور تیسری بار حکومت بنانے کیلئے بے حد پُر امید ہیں۔ کسان تحریک نے زور پکڑا تو ان کی امیدوں پر پانی پھر سکتا ہے‘ لہٰذا میرا نہیں خیال کہ مودی حکومت کسانوں کی تحریک کے سامنے زیادہ دیر ٹک پائے گی۔ اسے بہرحال کسانوں کے جائز مطالبات کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔ یہ کام وہ جتنا جلدی کر لے گی‘ اس کے حق میں اتنا ہی بہتر ہو گا۔