سنا تھا اور پڑھا بھی تھا کہ اقتدار کی کرسی پھولوں کی نہیں کانٹوں کی سیج ہوتی ہے۔ گزشتہ روز کسی صاحب کی جانب سے واٹس ایپ پر ایک تصویر موصول ہوئی تو اندازہ ہوا کہ اقتدار کا سنگھاسن کیسا ہوتا ہے۔ یہ تصویر ایک ایسی کرسی کی تھی جس میں بڑے بڑے کیل پیوست تھے۔ اس کرسی پر بیٹھنے کا مطلب خود کو گھائل کرنے کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ جب سے میں نے یہ تصویر دیکھی ہے‘ ایک ہی سوچ میں ہوں کہ جب کرسی ٔ اقتدار پھولوں کا نہیں‘ کانٹوں کی سیج ہے تو پھر کیوں ہر کوئی اس پر بیٹھنا اور اقتدار کے مزے لینا چاہتا ہے۔ ملکِ عزیز کی بات کی جائے تو مسائل معمول سے بڑھ کر گمبھیر محسوس ہوتے ہیں۔ پھر بھی یہاں بہت سے لوگ اقتدار کے متمنی نظر آتے ہیں۔ Talismanist Giebra نے کہا تھا:No throne in the world can substitute a beach chair۔ یعنی دنیا کا کوئی تخت و تاج ساحلِ سمندر پر بچھی کرسی کا نعم البدل نہیں ہو سکتا‘ لیکن ہمارے سیاستدان‘ قائدین اور رہنما غالباً اس کے الٹ سوچتے ہیں۔ وہ روح کو سکون دینے والی ہر چیز پر اقتدار کو فوقیت دیتے ہیں۔ پتا نہیں کیوں۔
اقتدار کی کرسی آرام دہ ہوتی ہے یا تکلیف دہ‘ اس کا چونکہ ہمارے ساتھ براہِ راست کوئی تعلق نہیں‘ اس لیے اس کو چھوڑتے ہیں اور اُن معاملات پر بات کرتے ہیں جن کا کسی نہ کسی طور ہمارے ساتھ تعلق ہے۔ بات کرتے ہیں انتخابات اور حکومت سازی کی۔ وطنِ عزیز میں پتا نہیں کیا اسرار ہے کہ یہاں کوئی کام وقت پر نہیں ہوتا‘ ہمیشہ تاخیر ہو جاتی ہے۔ منیرنیازی نے 'ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں‘ کے عنوان سے جو ایک نظم لکھی تھی‘ مجھے لگتا ہے کہ وہ ہمارے سیاسی اور حکومتی نظام کے حسبِ حال ہے۔ پہلے انتخابات نہیں ہو رہے تھے اور لوگ ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعائیں کر رہے تھے کہ انتخابات ہو جائیں۔ انتخابات ہو گئے تو جھولیاں اٹھا اٹھا کر یہ دعائیں کرنے لگے کہ حکومت بن جائے۔ ان کی یہ دعا بھی قبول ہوگئی ہے اور انتخابات کے دو ہفتے بعد حکومت سازی کا سلسلہ شروع ہوگیاہے۔ آغاز پنجاب سے ہوا ہے جہاں جمعہ کے روز منتخب صوبائی نمائندوں نے حلف اٹھایا اور گزشتہ روز سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب عمل میں آیا جبکہ سندھ اسمبلی میں نو منتخب اراکین نے حلف اٹھایا۔ یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ بلوچستان اسمبلی کا اجلاس 28فروری کو بلایا گیا ہے‘ یعنی فروری ختم ہونے سے پہلے بلوچستان میں بھی حکومت قائم ہو جائے گی۔
اقتدار کی کرسی پنجاب کی ہو‘ سندھ کی‘ بلوچستان کی‘ خیبرپختونخوا کی یا مرکز کی‘ درپیش مسائل پر نظر ڈالیں تو واقعی پھولوں کی سیج تو نہیں لگتی۔ وجہ ہے چار سُو پھیلے دیرینہ‘ گنجلک اور گمبھیر مسائل‘ کورونا کی وبا کے دوران اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال نے جن کی شدت میں بے تحاشا اضافہ کیا ہے‘ ان میں پہلے نمبر پر مہنگائی ہے جس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ آج سے تین‘ چار سال پہلے تک آٹا 40 سے 50روپے فی کلو مل جاتا تھا‘ تب روٹی آٹھ سے دس روپے تک کی ہوتی تھی۔ اب ان اشیا کی قیمتیں کئی گنا بڑھ چکی ہیں۔ اب ایک بندہ جو روزانہ ہزار‘ ڈیڑھ ہزار روپے کماتا ہے‘ وہ 170روپے فی کلو کے حساب سے کتنا آٹا روزانہ خریدے کہ اس کے چھ سات افراد پر مشتمل کنبے کو تین وقت نہ سہی‘ دو وقت کی روٹی ہی نصیب ہو سکے؟ دالیں اور گوشت پروٹین کا اہم ذریعہ ہیں‘ لیکن صورتحال یہ ہے کہ دالیں اور گوشت ہی نہیں سبزیاں تک عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔ کوئی ایسی سبزی نہیں جو سو روپے فی کلو سے کم میں ملتی ہو۔ چنانچہ مہنگائی پر قابو پانا نئی حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔
دوسرا مسئلہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری ہے‘ جس نے لوگوں کی پہلے سے محدود قوتِ خرید کو مزید محدود کر دیا ہے اور وہ مالی طور پر اس حد تک مجبور ہو چکے ہیں کہ انہیں اپنی ایک ضرورت پوری کرنے کیلئے کسی دوسری ضرورت کا گلا گھونٹنا پڑتا ہے۔ اس طرح روزگار کے وسائل پیدا کرنا نئی حکومت کا ایک بڑا چیلنج ہو گا۔ تیسرا سب سے اہم مسئلہ توانائی کے ذرائع کی بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ اور لوڈ مینجمنٹ ہے۔ گیس سردیوں میں نہیں ملتی اور گرمیوں میں بھی اس کا کوٹا سسٹم چلتا ہے۔ بجلی گرمیوں میں نہیں ملتی اور سردیوں میں بھی اس کی لوڈ شیڈنگ جاری رہتی ہے جس کی وجہ سے گھریلو زندگی ہی متاثر نہیں ہوتی بلکہ صنعت و زراعت پر بھی اس کے منفی اثرات واضح طور پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ کئی صنعتیں بند ہو چکی ہیں اور زرعی شعبے کی پیداوار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہمیں اپنی ضرورت کی بہت سی کھانے پینے کی چیزیں بیرونِ ملک سے درآمد کرنا پڑتی ہیں۔ توانائی کی ضروریات کیسے پوری کرنی ہیں‘ یہ نئی حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج ہو گا۔
بیشتر سرکاری محکموں میں رشوت اور کرپشن کی روش بھی لوگوں کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ حالات اس حد تک خراب ہو چکے ہیں کہ عوام کو اپنے جائز کاموں کیلئے متعلقہ حکام کی مٹھی گرم کرنا پڑتی ہے۔ اس رشوت خوری پر کیسے قابو پانا ہے‘ یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ پولیس کو ٹھیک کرنے کی کوششیں کئی حکمرانوں نے کیں۔ اس کیلئے کئی ایک اقدامات بھی کیے گئے‘ عمدہ اور وافر مراعات والے پیکیجز بھی دیے گئے‘ لیکن پتا نہیں کیا وجہ ہے کہ اس محکمے کو اب تک عوام دوست نہیں بنایا جا سکا ہے۔ کیا نامزد وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز صاحبہ اپنے صوبے میں پولیس کا قبلہ درست کرنے میں کامیاب ہو سکیں گی۔ بیوروکریسی کے معاملات بھی سب کے سامنے ہیں اور صوبے میں سٹریٹ کرائم میں تیزی سے اضافہ بھی پنجاب کی نئی وزیراعلیٰ کیلئے ایک بڑا چیلنج ثابت ہو گا۔ دعا ہے کہ وہ ان مسائل پر قابو پانے‘ مسائل حل کرنے اور چیلنجز سے نمٹنے میں کامیاب ہوں‘ لیکن میرے خیال میں اس کیلئے انہیں ایک خاص حکمت عملی اپنانا پڑے گی۔ ایک قابل کابینہ مرتب کرنا پڑے گی اور بیوروکریسی میں سے اچھی شہرت والے افسروں کو آگے لانا پڑے گا کیونکہ اچھی بیوروکریسی کا مطلب اچھی گورننس ہوتا ہے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ مریم نواز کے سامنے گزشتہ صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کی شکل میں بھی ایک چیلنج موجود ہے۔ ایک چیلنج تو ان کے چچا شہباز شریف کی کارکردگی ہے جن کی کارکردگی کو 'شہباز سپیڈ‘ کا نام دیا گیا۔ ایک چیلنج پرویز الٰہی کی طرزِ حکمرانی کا بھی ہے‘ جنہیں اگرچہ کسی قسم کا کوئی خطاب تو نہیں ملا لیکن اُن کی گورننس کی بھی مثالیں دی جاتی ہیں۔ انہوں نے اپنے دور میں عوامی بہبود کے بہت سے منصوبے تیزرفتاری سے مکمل کیے۔ حالیہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی گزشتہ ایک سال میں ریکارڈ ترقیاتی کام کیے۔ یہاں تک کہ میاں شہباز شریف نے بھی ان کی کارکردگی کی تعریف کی۔ سوال یہ ہے کہ کیا مریم نواز ان حکمرانوں سے بڑھ کر کارکردگی دکھا سکیں گی۔ شنید ہے کہ پنجاب کی بیوروکریسی نے نامزد وزیراعلیٰ پنجاب کے ساتھ جو ابتدائی ملاقاتیں کیں‘ ان میں بیوروکریسی کی جانب سے انہیں بتایا گیا کہ ان کیلئے ملٹی بلین روپے کی متعدد ترقیاتی سکیمیں پہلے سے ان کے پاس تیار اور موجود ہیں‘ چنانچہ توقع ہے کہ وزیراعلیٰ بننے کے فوراً بعد وہ کچھ میگا ڈویلپمنٹ پراجیکٹس کا اعلان کریں گی۔ یہ سب باتیں اور سارے معاملات اپنی جگہ‘ نئی وزیراعلیٰ کی کارکردگی کا سب سے بڑا پیمانہ عوام کی توقعات پر پورا اترنا ہی ہو گا۔ ایسے ہی تو اقتدار کی کرسی کو کانٹوں کی سیج نہیں کہا جاتا۔ یہاں ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھاناپڑتا ہے۔