میرے قارئین جب یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے اس کے ٹھیک ایک دن بعد ارتھ ڈے یا کرۂ ارض کا عالمی دن منایا جائے گا۔ مقصد زمین کو ان خطرات سے بچانے کے لیے اقدامات کی اہمیت اور ضرورت کو اجاگر کرنا ہے جو بڑھتی ہوئی آلودگی‘ جنگلات کی کٹائی میں تشویشناک حد تک اضافے اور عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اسے لاحق ہو رہے ہیں۔ اس دن دنیا بھر میں اربوں افراد کوڑا کرکٹ صاف کرکے‘ آلودگی کا باعث بننے والے عوامل پر قابو پانے کی دیگر کاوشیں کرکے اور پودے لگا کر زمین کے ساتھ اپنی محبت اور الفت کا اظہار کرتے ہیں تاکہ روئے ارض ہمارے اور آنے والی نسلوں کے لیے تادیر رہنے کی خوش گوار جگہ بنی رہے۔
ہماری اس مادرِ ارض کا چہرہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مسخ ہوتا جا رہا ہے۔ وجہ ہے انسانوں کا پھیلایا ہوا گند اور آلودگی۔ آٹھ ارب سے زیادہ انسان دنیا بھر میں ہر سال کتنا گند پھیلاتے ہیں‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اکیلے امریکہ میں ہر سال اتنا کوڑا کرکٹ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسے پھیلایا جائے تو زمین سے چاند تک آدھے فاصلے میں پھیل جائے گا۔ حضرتِ انسان اپنی زندگیوں میں ایسی چیزوں کا استعمال کرنے لگا ہے جو جلدی ڈی کمپوز نہیں ہوتیں‘ یوں وہ دنیا کے ایکو سسٹم کا حصہ نہیں بنتیں‘ لیکن آلودگی کا باعث ضرور بن جاتی ہیں‘ جیسے ٹوائلٹ پیپر کو گلنے سڑنے میں دو مہینے لگتے ہیں‘ لیکن ایک پلاسٹک بوتل کو ڈی کمپوز ہونے یعنی گلنے سڑنے کے لیے 450سال چاہئیں۔ جب ہم ان چیزوں کو استعمال کرکے فوری طور پر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں تو دراصل زمین کا چہرہ گندا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے بجائے اگر ہم ان چیزوں کو ری سائکلنگ کے پروسیس میں ڈال دیں تو پرانی چیزوں سے استعمال کی نئی چیزیں بن جائیں گی اور ماحول کو ان اشیا کو تحلیل کرنے پر زور نہیں لگانا پڑے گا۔ دوسرے‘ اگر ہم اشیا کی خریداری سوچ سمجھ کر کریں اور صرف وہی اشیا خریدیں جو ہمارے لیے ضروری ہیں تو ہم زمین کو گندا اور آلودہ ہونے سے بچانے میں کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ اضافی خریدی گئی اشیا بھی بالآخر آلودگی بڑھانے کا باعث بنتی ہیں۔
محققین نے تجربوں اور تجزیوں سے اندازہ لگایا ہے کہ ہر سال 15بلین درخت کاٹ دیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے دنیا کا ایکو سسٹم برُی طرح متاثر ہو رہا ہے۔ ہم نئے درخت لگا کر ایکو سسٹم کو تباہ ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ ہم یہ انتظار کریں کہ جنہوں نے درخت کاٹے ہیں‘ وہی اس کا ازالہ بھی کریں۔ درخت کسی اور نے کاٹے ہیں تو بھی زمین سے محبت کا تقاضا ہے کہ ہم نئے درخت اور پودے لگائیں۔ اگر ہم زمین کا چہرہ مسخ ہونے سے بچانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنا لائف سٹائل تبدیل کرے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک کتاب پڑھنے کا موقع ملا تھا جس میں انسانی تہذیبوں اور دستیاب وسائل کے درمیان تعلق کو واضح کیا گیا تھا۔ کتاب کا عنوان تھا ''تباہ شدہ تہذیبیں اور جدید دنیا‘‘ یہ امریکی سائنس دان‘ تاریخ دان اور مصنف Jared Diamond کی تصنیف Collapse: How Societies Choose to Fail or Succeed کے اردو ترجمے پر مبنی کتاب تھی۔ ترجمہ سجاد کریم انجم نے کیا ہے۔ اس کتاب کا لب لباب یہ ہے کہ جب انسانی تہذیبیں دستیاب قدرتی وسائل کو بغیر سوچے سمجھے وافر استعمال کرتی ہیں تو اس سے ماحول کو شدید نقصان پہنچتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ وسائل ختم ہو جاتے ہیں اور اس کے ساتھ انسانی تہذیبیں بھی معدوم ہو جاتی ہیں چاہے وہ اپنے زمانے کی کتنی ہی ترقی یافتہ تہذیبیں کیوں نہ ہوں۔ جیرڈ ڈائمنڈ نے کتاب میں نورز(Norse)‘ انوئٹ (Inuit)‘ گرین لینڈ کی تہذیب‘ مایا تہذیب‘ انا سازی تہذیب (Anasazi)‘ ایسٹر جزیرے کی تہذیب راپا نوئی (Rapa Nui) کے علاوہ ہیٹی‘ ڈومینیکن ری پبلک اور جدید موٹانا تہذیبوں کی مثالیں دی ہیں۔ ان میں سے بعض ایک وقت میں دنیا کی عظیم ترین اور ترقی یافتہ ترین تہذیبیں تھیں لیکن پھر وسائل کے بے تحاشا استعمال کی وجہ سے زوال پذیر اور بالآخر معدوم ہو گئیں۔
ماحولیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے بڑے شہروں میں فضائی آلودگی کی سطح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان کے ایک اقتصادی سروے کے مطابق یہاں کے بڑے شہروں میں دھول اور دھویں کے ذرات کی اوسط دنیا کے بیشتر شہروں کی اوسط سے دو گنا ہے جبکہ ترقی یافتہ ملکوں کی نسبت پانچ گنا زیادہ ہے۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے‘ ترقی یافتہ نہیں‘ اس کے باوجود یہاں توانائی کی ضروریات اور گاڑیوں کی تعداد میں واضح اضافہ ہوا ہے جو ملک میں آلودگی کا بحران بڑھانے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ گزشتہ 20سال کے عرصے میں پاکستان کی سڑکوں پر ٹریفک کی تعداد پانچ گنا بڑھ گئی ہے۔ زیادہ اضافہ ڈیزل سے چلنے والی مال بردار گاڑیوں کی تعداد میں ہوا ہے۔ یہی وہ گاڑیاں ہیں جو سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے کا باعث بنتی ہیں۔
ان دنوں عالمی سطح پر موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا بہت چرچا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 2010ء اور پھر 2022ء میں پاکستان میں آنے والے سیلاب انہی موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ تھے۔ حال ہی میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں جو شدید بارشیں ہوئی ہیں‘ ان کا باعث بھی موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں۔ بادلوں کے یہ سلسلے مغرب کی جانب سے آئے تھے اور پاکستان میں بارشیں برسانے سے پہلے انہوں نے متحدہ عرب امارات کی مختلف ریاستوں میں شدید بارشیں برسائیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بارشیں اتنی شدید تھیں کہ متحدہ عرب امارات میں بارشوں کا 75سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا‘ یعنی نیا ریکارڈ قائم ہو گیا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے اور کیسے ہو رہا ہے؟ واضح رہے کہ یہ قدرتی ماحول کو ڈسٹرب کرنے کا نتیجہ ہے اور یہ سلسلہ اگر جاری رہا تو پورے وثوق کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ آنے والے برسوں میں اس سے بھی شدید قدرتی آفات نازل ہو سکتی ہیں۔
ان تشویشناک حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ارتھ ڈے کو محض ایک دن تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ زمین کے چہرے کو مسخ ہونے سے بچانے کے لیے سال کے 365دن کام ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنے اس سیارے‘ اس زمین‘ اس روئے ارض کو آلودگی سے بچانے اور ماحولیات کو انسانی صحت کے لیے مفید بنانے کے لیے دن رات کام کرنا ہو گا۔ اس کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ ان عوامل کو کنٹرول کیا جائے جو ماحولیاتی آلودگی بڑھانے اور پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں۔ پروردگار نے اس کرۂ ارض پر انسانی آبادی اور دوسرے جانداروں کے لیے رزق کے وسیع ذخائر اور وسائل مہیا کیے ہیں۔ یہ وسائل اتنے زیادہ ہیں کہ صدیوں ان سے مستفید ہوا جا سکتا ہے لیکن ایسا اسی صورت میں ممکن ہے کہ ان وسائل کا استعمال سہولت کے ساتھ کیا جائے‘ یعنی صرف اتنا کیا جائے جتنی ضرورت ہو۔ اگر ہم وسائل کا بے دریغ استعمال کریں گے تو جیرڈ ڈائمنڈ کے تھیسس کے مطابق آنے والے زمانوں میں نسلِ انسانی کو شدید قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا‘ اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہو جائے۔ حضرتِ انسان اس سے پہلے ہی ہوش میں آ جائے تو بہتر ہے۔