عالمی تغیرات‘ فلسطین اسرائیل تنازع‘ مشرقِ وسطیٰ کی ہنگامی صورتحال اور جنوبی ایشیا کے خطے میں بدلتے ہوئے حالات کے نئے تقاضوں کے تناظر میں ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی کا دروۂ پاکستان بلاشبہ غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔ آئیے اس دورے کے مضمرات اور ممکنہ اثرات و نتائج کا تجزیہ کرتے ہیں۔ چونکہ معاملات پیچیدہ ہیں اور ایک دوسرے سے وابستہ اور منسلک ہونے کی وجہ سے اُلجھے ہوئے بھی ہیں اس لیے پہلے حالات و واقعات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں تاکہ وہ تصویر واضح ہو سکے جس پر بات کرنا مقصود ہے۔
اسرائیل فلسطین جنگ کو ساتواں مہینہ چل رہا ہے اور غزہ میں شہید ہونے والے فلسطینی مسلمانوں کی تعداد 34ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ زخمی اس سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ اس جنگ میں امریکہ اور مغربی ممالک تو اسرائیل کی ہر طرح سے مکمل تائید و حمایت کر رہے ہیں لیکن فلسطینیوں کو عالمی سطح پر وہ حمایت دستیاب نہیں ہوئی جس کی وہ توقع کر رہے تھے؛ چنانچہ اس وقت ان کی حالت نہایت خستہ ہے۔ اسی دوران یکم اپریل کو اسرائیل نے شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر فضائی حملہ کیا جس کے نتیجے میں سات ایرانی فوجی جاں بحق ہو گئے۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیل نے ایرانی سفارت خانے پر حملہ کیوں کیا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اس حملے کا حماس اور اسرائیل کے مابین جاری جنگ سے کوئی تعلق ہے؟ اس کا جواب ہمیں اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان سے ملا جس کا کہنا تھا کہ اسرائیلی انٹیلی جنس کے مطابق دمشق میں جس عمارت پر حملہ کیا گیا وہ کوئی قونصل خانہ یا سفارت خانہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک شہری عمارت کے بھیس میں القدس بریگیڈ کی ایک فوجی عمارت تھی۔ مانا جاتا ہے کہ القدس بریگیڈ حملوں میں حماس کی مدد کر رہی ہے۔ یہ بہرحال اسرائیل کا مؤقف ہے ایران کا نہیں۔ اسرائیلی حملے کے جواب میں ایران نے اسرائیل پر میزائل داغے جن میں سے زیادہ تر ٹیکل (Tackle) کر لیے گئے۔ چند روز بعد اسرائیل نے ایران کے ایک شہر پر ڈرون فائر کیے جو ایران نے روک لیے۔ اس کشیدہ صورتحال کے ہنگام وائٹ ہاؤس کی جانب سے کہا گیا کہ امریکہ ایران کے میزائل اور ڈرون پروگرامز پر نئی پابندیاں لگائے گا۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے یہ امید بھی ظاہر کی گئی کہ امریکہ کے اتحادی اور شراکت دار بھی اسی قسم کے اقدامات کریں گے۔
ان حالات میں ایرانی صدر کے دورۂ پاکستان پر پوری دنیا کی نظریں لگی ہوئی تھیں۔ ان نظروں نے کیا پرکھا‘اس کا پتا تو ایک دو روز میں سامنے آنے والے بیانات سے چل جائے گا لیکن ایک بڑا سوال یہ ہے کہ اس دورے کے نتیجے میں پاکستان اور ایران کے مابین جو معاملات طے پائے ہیں اور جن معاہدوں اور سمجھوتوں کی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے ہیں‘ ان پر عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے گا یا نہیں۔ یہ سوال اس لیے ذہن میں ابھرتا ہے کہ امریکہ کی جانب سے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی مخالفت کی جاتی رہی ہے اور اب بھی کی جا رہی ہے۔ اب ایرانی صدر کے دورۂ پاکستان پر بھی امریکی ردِ عمل سامنے آ گیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکہ پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی منڈی اور اس کے بڑے سرمایہ کاروں میں سے ایک ہے‘ ایران سے تجارتی معاہدوں پر پابندیوں کا خطرہ ہو سکتا ہے‘ تجارتی معاہدوں پر غور کرنے والوں کو خطرے سے آگاہ رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
عالمی سطح پر تیزی سے تغیر پذیر حالات کے تناظر میں سعودی عرب کے وزیر خارجہ کا دورۂ پاکستان اور اس کے فوری بعد ایران کے صدر کا سرکردہ ایرانی رہنماؤں کے ساتھ پاکستان آنا ظاہر کرتا ہے کہ اس خطے میں علاقائی سطح پر بھی کچھ تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جن کو مثبت اور مستقبل کے حوالے سے بارآور قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان تبدیلیوں میں سے ایک یہ ہے کہ خطے کے ممالک ایک دوسرے کے قریب آتے محسوس ہو رہے ہیں۔ سب سے پہلے چین کی سہولت کاری کے ساتھ ایران اور سعودی عرب کے اختلافات میں کمی آئی اور دونوں ملکوں میں سلسلۂ جنبانی شروع ہوا۔ دونوں ملکوں کے تعلقات میں اسی بہتری کا نتیجہ ہے کہ اگلے روز نو سال کے بعد ایرانی عمرہ زائرین کا پہلا گروپ حجازِ مقدس کی جانب روانہ ہوا۔ یاد رہے کہ ایرانی زائرین کو سعودی عرب لے جانے کے لیے 11پروازیں شیڈولڈ ہیں۔ اس کے بعد ایران اور عراق کے مابین پائے جانے والے اختلافات میں کمی کی خبریں سامنے آئیں۔ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات تو پہلے سے اچھے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کا ماہِ رواں کے پہلے ہفتے میں سعودی عرب کا دورہ اور اس کے بعد سعودی عرب کے وزیر خارجہ کا وفد کے ہمراہ پاکستان کا دورہ اور اب ایرانی صدر کا دورۂ پاکستان ظاہر کرتا ہے کہ اس خطے کے ممالک میں ہم آہنگی بڑھ رہی ہے‘ اور ان کے درمیان تعلقات میں مضبوطی اور استحکام پیدا ہو رہا ہے۔
گزشتہ ماہ کے آخر میں یہ خبر سامنے آئی تھی کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین کابل میں ہونے والے تجارتی مذاکرات میں ٹرانزٹ ٹریڈ کے نظر ثانی شدہ معاہدے پر بات چیت شروع کرنے اور تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے پر تبادلہ خیالات ہوا۔ اس حوالے سے کئی معاہدے بھی طے پائے۔ تیسری جانب پاکستان کا کاروباری طبقہ بھارت کے ساتھ تجارت کی بحالی کے امکانات کو خوش آئند قرار دے رہا ہے۔ ان کے بقول دو طرفہ تجارت دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔ اس طرح خطے کے متعدد ممالک کے ایک دوسرے کے قریب آنے کے آثار پیدا ہو رہے ہیں جن کا انفرادی اور اجتماعی سطح پر فائدہ بہرحال انہی ممالک اور ان کے عوام کو پہنچے گا۔ لیکن سوال پھر وہی ہے کہ یہ جو فروغ کا سلسلہ شروع ہوا ہے‘ یہ کسی اچھے اور مثبت انجام کو پہنچ سکے گا یا نہیں؟ اور ذہن میں سوال ابھرنے کی وجہ یہ ہے کہ جو طاقتیں پاکستان اور ایران کے مابین تعلقات میں استحکام کو پسند نہیں کر رہیں کیا وہ یہ برداشت کریں گی کہ مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے ان خطوں میں استحکام آجائے؟
میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ امریکی تنبیہ کو نظر انداز کرتے ہوئے بس آگے بڑھنا چاہیے لیکن اس امر کی ضرورت اور گنجائش ضرور ہے کہ کوئی درمیانی راستہ نکالا جائے۔ جن قوتوں کی جانب سے پابندیاں لگانے کے حوالے سے خبردار کیا جا رہا ہے‘ ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ اگر ایران نہیں تو اس کا متبادل کیا ہے؟ اگر اس خطے کے ممالک کی ہم آہنگی قابلِ قبول نہیں تو پھر اقتصادی پسماندگی کے مسئلے کا حل کیا ہے؟ اس خطے کی قوموں کے مقدر میں صرف پس ماندگی اور غربت تو نہیں ہونی چاہیے۔ کیا ان خوابوں کو کبھی کوئی تعبیر مل سکے گی جن کا مقصد اس خطے کے ممالک اور ان کے عوام کو مالی اور اقتصادی لحاظ سے مستحکم اور مضبوط کرنا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے جس کے بارے میں اس خطے کے سبھی ممالک کو مل بیٹھ کر سوچنا پڑے گا۔ طے کردہ معاہدوں پر عمل درآمد ہوتا ہے یا نہیں‘ میرے خیال میں ایران کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے رکھنے میں کسی کو کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔