توقع اور خواہش یہ تھی کہ مسلم ممالک کی جانب سے اس کا آغاز ہوتا‘ لیکن یہ اعزاز اور یہ رتبہ کسی اور نے حاصل کر لیا۔ ناروے‘ آئرلینڈ اور سپین نے اعلان کیا ہے کہ وہ 28 مئی سے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کر لیں گے‘ یعنی دو روز بعد۔ آسٹریلیا نے بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ بھی اس مسئلے کے دو ریاستی حل کے عمل کو تیز کرنے کے لیے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر سکتا ہے۔ مذکورہ ممالک کے اس اچانک فیصلے نے اسرائیلی حکومت کو بوکھلا کر رکھ دیا ہے۔ اس کے ردِ عمل میں اسرائیل نے ان ممالک سے اپنے سفیر واپس بلا لیے ہیں۔ سپین نے اس سلسلے میں بڑی نیوٹرل بات کی ہے۔ کہا ہے کہ یہ فیصلہ نہ اسرائیل کے خلاف اور نہ ہی حماس کے حق میں ہے‘ بلکہ یہ فیصلہ امن کے حق میں ہے۔مگر اسرائیلی وزیر خارجہ کا ردِ عمل ملاحظہ ہو جو کہہ رہا ہے کہ تینوں ممالک کا یہ فیصلہ مسخ شدہ اقدام ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشتگردی آپ کے لیے سود مند ہے۔
پرائمری کی کسی کلاس میں ایک کہانی پڑھی تھی 'بارش کا پہلا قطرہ‘۔ کہانی کچھ یوں تھی کہ شدید گرمی کا موسم تھا اور لوگ پسینے میں شرابور موسم کی سختی سے تنگ آ کر بارش کی دعا کر رہے تھے۔ آسمان پر بادل تو کافی دیر سے چھائے ہوئے تھے لیکن بارش نہیں ہو رہی تھی اور بارش نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ بادلوں میں بارش کے قطرے اپنے حقیر اور چھوٹا ہونے پر بے بسی کا اظہار کر رہے تھے۔ ان میں سے ہر ایک کا کہنا تھا کہ میں تو اتنا سا‘ چھوٹا سا قطرہ ہوں‘ میں نیچے زمین پر جا کر مٹی کی پیاس کیسے بجا سکوں گا‘ لوگوں کے چہرے پر رونق کیسے لا سکوں گا۔ اب وہاں بارش کے قطروں میں اس معاملے پر بحث ہو رہی تھی۔ ان میں سے کچھ کا خیال تھا کہ جو بھی ہو ہمیں زمین کی طرف لپکنا چاہیے اور اپنے حصے کا کردار ادا کرنا چاہیے‘ جبکہ باقی قطروں کا خیال تھا کہ ہم نیچے جا کر خود کو ضائع کر دیں گے کیونکہ چھوٹے چھوٹے قطروں سے آخر کیا تبدیلی آ سکتی ہے؟ ایسے میں ایک بہادر اور نڈر قطرے نے انجام سے بے پروا ہو کر نیچے کودنے کا فیصلہ کر لیا اور دوسروں کے روکنے کے باوجود اس نے زمین کی طرف چھلانگ لگا دی۔ اس کے کچھ دوست یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے بھی سوچا کہ ہمارا دوست تو چلا گیا‘ ہم یہاں رہ کر کیا کریں گے چنانچہ دوسرے قطرے نے بھی چھلانگ لگا دی‘ پھر تیسرے نے اور پھر ہوتے ہوتے موسلادھار بارش ہونے لگی۔ اس طرح زمین کی پیاس بجھ گئی اور اہلِ زمین کے چہرے خوشی سے کھل اُٹھے۔مجھے ناروے‘ آئرلینڈ اور سپین کے اعلان بارش کے وہ قطرہ محسوس ہو رہے ہیں ۔
بارش کا دوسرا قطرہ کولمبیا کے صدر گسٹاو پیٹرو ثابت ہوئے ہیں‘ جنہوں نے فلسطین کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے مغربی کنارے کے شہر رملّہ میں سفارت خانہ کھولنے کا حکم دے دیا ہے۔ ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق غزہ پر وحشیانہ بمباری میں ہزاروں انسانی جانوں کے ضیاع پر چلی اور بولیویا کی طرح کولمبیا نے بھی رواں ماہ کے آغاز پر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر لیے تھے۔ مجھے تو چلی اور بولیویا کا اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنا بھی بارش کے پہلے قطروں میں سے ایک قطرہ لگا کہ بادِ مخالف کے باوجود باطل کو جھٹلا کر حق کا ساتھ دینا بہادری کا اور بہادروں کا کام ہے۔
عالمی عدالتِ انصاف کا فیصلہ بارش کا تیسرا قطرہ ثابت ہوا‘ جس نے اسرائیل کو رفح میں فوجی آپریشن روکنے کا حکم دے دیا ہے۔ جمعہ کے روز عالمی عدالتِ انصاف میں رفح میں اسرائیلی آپریشن رکوانے کے لیے جنوبی افریقہ کی درخواست پر فیصلہ سنایا گیا۔ عالمی عدالت نے فیصلہ دو کے مقابلے میں 13 کی اکثریت سے سنایا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ اسرائیلی فوج کو غزہ کے علاقے رفح میں فوجی کارروائیاں فوری طور پر روکنا ہوں گی‘ غزہ کی پٹی کے شہری انتہائی تشویشناک حالات سے دوچار ہیں۔ عدالت نے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ اسرائیل فوری طور پر رفح کی بارڈر کراسنگ کو کھولے۔ عالمی عدالتِ انصاف نے کہا کہ رفح میں فوجی آپریشن سے انتہائی افسوسناک انسانی سانحہ جنم لے سکتا ہے۔ عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلے میں کہا گیا کہ اسرائیل ایک ماہ کے دوران غزہ کی پٹی میں صورتحال بہتر بنانے کے اقدامات کی رپورٹ عدالت میں پیش کرے۔
فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے رفح میں اسرائیلی آپریشن کے حوالے سے دیے گئے عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس سلسلے میں عملی اقدامات پر زور دیا ہے۔ حماس کے ترجمان باسم نعیم نے کہا ہے کہ ہم عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے رفح میں اسرائیلی آپریشن فوری روکنے کے حکم کا خیر مقدم کرتے ہیں‘ تاہم ان کا کہنا تھا کہ عالمی عدالتِ انصاف کا یہ فیصلہ ناکافی ہے کیونکہ غزہ کی پٹی اور خاص طور پر شمالی غزہ میں بھی اسرائیلی حملے اتنے ہی شدید اور خطرناک ہیں جتنے رفح میں ہیں۔ اسرائیل نے عالمی عدالتِ انصاف کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ تل ابیب سے اسرائیلی وزیر خزانہ نے کہا کہ جنگ بندی کے حکم پر کسی صورت عملدرآمد نہیں کیا جا سکتا۔ اسرائیلی وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ غزہ کی پٹی میں جنگ روکنے کا مطلب اسرائیل کو صفحۂ ہستی سے مٹانا ہے۔
بارش کے پہلے قطروں کا شکریہ‘ لیکن ضرورت ہے کہ یہ سلسلہ تھمنے نہ پائے۔ میرے خیال میں دوسرے ممالک کو بھی آگے بڑھنا چاہیے اور فلسطین کو عملی طور پر تسلیم کرکے اسرائیل کی توسیع پسندی کی راہیں مسدود کرنی چاہئیں۔ اس سلسلے میں مسلم ممالک کو سب سے اہم اور سب سے بڑھ کر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ان پہلے قطروں کے بعد خاموشی چھا گئی تو ہو سکتا ہے ان کی یہ قربانی ضائع جائے۔ دوسرا‘ عالمی عدالتِ انصاف کو اتنا طاقت ور بنانے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی ملک اس کے فیصلے ماننے سے انکار نہ کر سکے۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ دنیا کی سب سے بڑی عدالت ایک فیصلہ جاری کر رہی ہے اور اس فیصلے کا مخاطب اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دے۔ اس سے پہلے اقوامِ متحدہ کے فورم پر اسرائیل کی توسیع پسندی کے خلاف منظور کی گئی متعدد قراردادیں بھی طاق پر پڑی ہیں۔ ان پر بھی ان کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا جا سکا ہے‘ حالانکہ یہ بھی مشاہدے میں آیا کہ ادھر قرار داد منظور ہوئی اور ادھر اس پر عمل درآمد شروع ہو گیا۔ دنیا کو اگر امن کا گہوارہ بنانا ہے تو یہاں سے کشمیر اور فلسطین جیسے مسائل کا خاتمہ کرنا ہو گا‘ جس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ کوئی نہ کوئی بارش کا پہلا قطرہ بن جائے اور ان مسائل کے قابلِ عمل حل دنیا کے سامنے لائے۔