دو روز قبل میرے ایک دیرینہ دوست بلکہ چھوٹے بھائی شیخ آصف مجھ سے ملنے آئے۔ وہ چاول کی ایکسپورٹ کا کاروبار کرتے ہیں۔ بتا رہے تھے کہ کاروبار بڑا مندا جا رہا ہے۔ فلسطین اور اسرائیل کی جنگ کی وجہ سے برآمدی چاول کی شپمنٹ کے لیے لمبا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ ابھی ہم یہ گفتگو کر ہی رہے تھے کہ ایک اور دوست ملنے آ گئے۔ وہ برطانیہ میں رہتے ہیں اور دو روز بعد واپس جا رہے تھے۔ باتوں باتوں میں پوچھا کہ سیدھا برطانیہ جاؤ گے یا دبئی کے راستے سے ہو کر جاؤ گے تو اُس نے بتایا کہ دبئی سے ہو کر جانا ہے‘ وہاں دو تین دن قیام کروں گا۔اس پر میرے دونوں چھوٹے بھائیوں جیسے دوستوں اور میرے درمیان بات چیت بلکہ بحث کا طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔ میرے رائس ایکسپورٹر اور برطانیہ والے‘ دونوں دوستوں نے بتایا کہ یو اے ای نے پاکستانیوں کو ویزے جاری کرنے پر پابندی لگا دی ہے اور اس پابندی کی وجہ ہے منشیات کی ترسیل اور یو اے ای میں پاکستانیوں کی جانب سے بھیک مانگنے کا سلسلہ‘ جو دراز ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ چند ہفتے پہلے ایسی خبریں سننے میں تو آ رہی تھیں کہ دبئی نے 42سال سے کم عمر کے تنہا سفر کرنے والے پاکستانی مردوں کو ویزے جاری کرنا بند کر دیے ہیں۔ ایسی خبروں یا دعووں کے بعد یو اے ای کا سفر کرنے والے پاکستانیوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی‘ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ ایسی خبریں محض افواہیں تھیں‘ لیکن اب میرے بیرونِ ملک وافر سفر کرنے والے دوست پھر بتا رہے ہیں کہ پابندی لگ چکی ہے یا لگ رہی ہے یہ بات کنفرم تو نہیں لیکن اگر ایسی خبروں میں تھوڑی سی صداقت بھی ہے تو یہ حیرت سے زیادہ افسوس کی بات ہے کہ مسلم اور وہ بھی عرب ریاستیں پاکستانیوں کا اپنے ہاں آنا پسند نہیں کر رہی ہیں۔
مجھے فوراً کچھ عرصہ پہلے پڑھی گئی ایک خبر یاد آ گئی جس میں بتایاگیا تھا کہ مکہ مکرمہ میں رمضان المبارک میں بھیک مانگتے 4345 بھکاریوں کو گرفتار کیا گیا‘ جن میں سے 90فیصد کا تعلق پاکستان سے تھا۔ بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق 2023ء کے پہلے چھ ماہ کے دوران تقریباً چار لاکھ پاکستانی ملازمت کی خاطر باہر چلے گئے۔ ان میں 40فیصد ہنرمند اور 42فیصد غیر ہنر مند مزدور شامل تھے‘ اور ان چار لاکھ میں سے تقریباً 47 فیصد سعودی عرب اور کم و بیش 25فیصد عرب امارات گئے‘ جس کے بعد دیگر خلیجی ریاستوں کا نمبر آتا ہے۔ اب جو ہنر مند ہیں انہیں تو کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی کم تنخواہ والی یا زیادہ تنخواہ والی نوکری مل گئی ہو گی لیکں جو غیر ہنر مند بیرونِ ملک گئے ہیں آپ کا کیا خیال ہے کہ وہ وہاں کیا کرتے ہوں گے؟ ظاہر ہے اپنے جھوٹے سچے دکھڑے سنا کر بھیک مانگتے ہوں گے۔ اوورسیز منسٹری کے ایک افسر کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق اسلام آباد میں مقیم سفیر ہمیں کہتے ہیں کہ آپ عادی مجرم ہمارے پاس بھیجتے ہیں جس سے ہماری جیلیں بھر گئی ہیں۔ یہ انسانی سمگلنگ کا مسئلہ ہے جو دوسرے ممالک میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ بھکاری زیادہ تر عمرے یا وزٹ ویزے پر جاتے ہیں اور زیارات کے مقامات پر بھیک مانگتے ہیں۔ ہمارے کئی تارکینِ وطن صرف اس لیے ڈی پورٹ ہو رہے ہیں کہ وہ وہاں جا کر بھکاری بن جاتے ہیں۔ اب بتائیے ایسے حالات میں کون پاکستانیوں کو اپنے ہاں آنے کی اجازت دے سکتا ہے؟
یاد رہے کہ جہاں پاکستان میں ہر گلی محلے میں اور ہر گزرگاہ‘ ہر چوراہے پر آپ کو گداگر نظر آتے ہیں وہاں سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک میں اس طرح مانگنے کی ممانعت ہے۔ گداگری کی ممانعت تو خیر یہاں پاکستان میں بھی ہے لیکن یہاں ایسی ممانعتوں کا کون خیال رکھتا ہے۔ یہ تو ریاست کا قانون ہے جسے ہم نظر انداز کرتے ہیں‘ ہم تو بہت سے ایسے کام بھی کر جاتے ہیںجو ہمارے مذہب نے ہمیں کرنے سے منع کیا ہے۔ اس حوالے سے تازہ ترین خبر یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات میں ہونے والے 50فیصد جرائم میں مبینہ طور پر پاکستانیوں کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اوورسیز پاکستانیز کے اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ حالیہ دنوں میں ورکرز کے حوالے سے معاہدہ ہوا ہے‘ سعودی عرب نے مطالبہ کیا ہے کہ بھکاری‘ بیمار لوگ اور سکلز کے بغیر لوگ نہ بھیجیں۔ اس دوران قائمہ کمیٹی نے چار ہزار ایمپلائمنٹ کمپنیوں کی تفصیلات طلب کر لیں جبکہ حکام وزارتِ اوورسیز نے بتایا کہ پاکستانی بیرونِ ملک مجرمانہ سرگرمیوں میں سب سے زیادہ ملوث ہیں۔ بریفنگ کے دوران سعودی عرب کی جانب سے 92نرسیں ڈگریاں نہ ہونے کے باعث واپس بھجوائے جانے کا انکشاف ہوا۔ سیکرٹری وزارتِ اوورسیز نے بتایا کہ اس معاملے کی تحقیقات میں پتا چلا نرسوں کی واپسی کا ذمے دار مڈل مین ہے۔
بیرونِ ملک انسانی سمگلنگ‘ منشیات کی سمگلنگ اور دوسرے ممالک میں گداگری گمبھیر معاملات ہیں جن پر فوری توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ان کا تعلق پاکستان کی ساکھ کے ساتھ ساتھ معیشت کے ساتھ بھی ہے کہ اس سے ہمارے ملک کی درآمدات اور برآمدات متاثر ہو سکتی ہیں۔ میرے مذکورہ بالا دوستوں جیسے بہت سے تاجر اور کاروباری حضرات روزانہ دوسرے ممالک کا سفر کرتے ہیں۔ اب کسی کے منہ پر تو نہیں لکھا ہوتا کہ وہ کس کام کے لیے بیرونِ ملک جا رہا ہے‘ تو جب دوسرے ممالک پاکستانیوں کے اپنے ہاں آنے پر پابندی لگائیں گے تو ظاہر ہے کہ سبھی اس پابندی کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔ ویسے ہی ہمارا ملک بعض تاجر حضرات کی ماضی کی غلطیوں کا خمیازہ اب تک بھگت رہا ہے‘ کہ ان کی تجارتی بدمعاملگیوں کی وجہ سے بہت سی عالمی منڈیاں پاکستان کے ہاتھ سے نکل چکی ہیں۔ اب منشیات کی سمگلنگ اور بیرونِ ملک گداگری کے مسئلے پر قابو پانے کی سنجیدہ کوشش نہ کی گئی تو نتیجہ ملک کی عالمی تجارت میں انحطاط کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ حال ہی میں وزیراعظم شہباز شریف نے ملکی برآمدات کو 60ارب ڈالر سالانہ پر پہنچانے کا ہدف دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزارتِ تجارت و متعلقہ ادارے آئندہ تین برس میں اس ہدف کو پورا کرنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔ یہ ہدف قابلِ رسائی ہے‘ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ان شکایات پر توجہ دی جائے جو دوسرے ممالک کی جانب سے پاکستانی تارکینِ وطن کے بارے میں کی جا رہی ہیں۔ میرے خیال میں تو بیرونِ ملک جانے والوں کے لیے باقاعدہ تربیتی پروگرام ہونے چاہئیں تاکہ وہ جس ملک میں بھی جائیں‘ اس کے قوانین اور معاشرتی اقدار کی پاسداری کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ بیرونِ ملک جانے والوں کی سکروٹنی کا عمل تیز کیا جائے تاکہ وہ لوگ بیرونِ ملک خصوصی طور پر عرب ممالک نہ جا سکیں جو وہاں گداگری اور منشیات کی سمگلنگ جیسے قبیح افعال کے ذریعے ملک کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں اور مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث ہو کر وطنِ عزیز کی ساکھ متاثر کرتے ہیں۔