'بات کا بتنگڑ بنانا‘ یہ محاورہ تو آپ نے سن ہی رکھا ہو گا۔ اب تک اگر آپ کو اس محاورے کی پوری طرح سمجھ نہیں آئی تو حال ہی میں حکومتِ پنجاب کی جانب سے صوبے میں بجلی کے صارفین کے لیے دو ماہ کے ریلیف پیکیج کے اعلان کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر ایک نظر ڈال لیں۔ آپ کو اس محاورے کی اوّل تا آخر پوری طرح سمجھ آ جائے گی۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ چند روز قبل مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف نے اپنی صاحبزادی وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے ہمراہ پنجاب میں بجلی کے انتہائی زیادہ بلوں کے حوالے سے دو ماہ کے لیے فی یونٹ 14روپے ریلیف کا اعلان کیا تھا۔ پنجاب حکومت کا مقصد یہ تھا کہ گرمیوں کے باقی دو مہینے اگر حکومت صارفین کی مدد کر دے گی‘ انہیں کچھ ریلیف دے دے گی تو آگے جب موسم معتدل ہو جائے گا اور سردیاں شروع ہو جائیں گی تو بجلی کے استعمال میں خود بخود کمی آ جائے گی۔ ظاہر ہے کہ موسم بدلتے ہی بجلی کی کھپت اور بل کم ہو جائیں گے۔ اس طرح عوام کو بجلی کے بلوں کے حوالے سے اچھا خاصا ریلیف محسوس ہو گا۔ لیکن ہوا یہ کہ پنجاب حکومت کا یہ اقدام پورے ملک میں ایک سیاسی ہلچل کا باعث بن گیا۔ دوسرے صوبے وزیراعظم سے مطالبہ کرنے لگے کہ بجلی کے بل تو باقی صوبوں میں بھی زیادہ آ رہے ہیں تو ریلیف کا اعلان صرف پنجاب کے لیے کیوں؟ باقی صوبوں کو بھی ریلیف دیا جائے۔
اس کے جواب میں وزیراعظم شہباز شریف نے واضح کیا کہ پنجاب نے اپنے وسائل سے اپنے صارفین کو ریلیف دیا ہے‘ وفاقی حکومت کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ صوبائی حکومتیں اس ایشو پر سیاست سے گریز کریں‘ این ایف سی ایوارڈ کے تحت ملنے والے کھربوں روپوں میں سے ایک حصہ عوام کے لیے نکالیں۔ اب پتا نہیں دوسرے صوبے اس مشورے پر عمل کرتے ہیں یا نہیں لیکن فی الحال یہ معاملہ سیاسی گرما گرمی کا باعث بنا ہوا ہے اور یہ خدشہ سر اٹھانے لگا ہے کہ معاملہ کہیں کنٹرول سے ہی باہر نہ ہو جائے۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اپنے رہنماؤں کو بجلی کے بلوں کے حوالے سے بیان بازی سے روک دیا ہے‘ لیکن لگتا نہیں کہ اس ابلتے ہوئے پانی کا جوش جلدی کم ہو گا‘ کیونکہ سیاسی رہنما اگر بیان بازی سے رُک بھی گئے تو باقی صوبوں کے عوام کو بہرحال یہی محسوس ہو رہا ہے کہ پنجاب حکومت نے ریلیف دیا‘ لیکن ان کی حکومتیں ان کو بجلی کے بلوں کے حوالے سے ریلیف دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
'بات کا بتنگڑ بننا‘ کے محاورے پر یقین نہ آیا ہو تو برطانیہ میں تین نوجوان لڑکیوں کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر جھوٹی خبر پوسٹ کیے جانے کے بعد برپا ہونے والے بدترین فسادات کے ڈراپ سین پر ایک نظر ڈال لیں۔ اس حوالے سے شائع ہونے والی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر محض ایک شخص کی ایک جھوٹی خبر سے برطانیہ میں بدترین فسادات پھیلے اور اس بندے کا تعلق پاکستان سے ہے۔ برطانیہ میں کی گئی تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ جعلی خبروں کی وجہ سے برطانیہ میں ہنگامہ آرائی پھیلانے میں ملوث پاکستانی شہری فرحان آصف نے تنِ تنہا یہ کارروائی سرانجام دی تھی۔ تفصیلات کے مطابق 31 سالہ فرحان کمپیوٹر سائنس گریجویٹ اور ایک ویب ڈویلپر ہے۔ وہ ایک ویب چینل اور ایک ویب سائٹ چلاتا ہے۔ ملزم مغربی ممالک سے سنسنی خیز خبروں کو جمع کر کے خبریں بناتا تھا اور یہ اس کے لیے کمائی کا ایک اچھا ذریعہ تھا کیونکہ امیر ممالک کی کلکس ہٹ سے زیادہ آمدنی ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ برطانوی میڈیا کے مطابق ساؤتھ پورٹ کے ایک ڈانس سکول میں گزشتہ ماہ ایک شخص نے حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں تین بچیاں ہلاک ہو گئی تھیں جبکہ آٹھ بچیوں سمیت 10 افراد زخمی ہوئے تھے۔ حملہ آور اگرچہ موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا تاہم بعد میں پولیس نے اسے آلۂ قتل سمیت گرفتار کر لیا تھا۔ اس واقعے کے بعد برطانیہ میں یہ افواہ پھیلی کہ حملہ آور مسلمان تھا اور کئی ویب سائٹس نے ملزم کی شناخت ظاہر کرنے کا بھی دعویٰ کیا تھا‘ جس کے بعد برطانیہ بھر میں مسلم پناہ گزینوں کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے اور جھڑپوں میں پولیس اہلکاروں سمیت درجنوں لوگ زخمی ہوئے۔ تحقیقات کے دوران اس نیوز ویب سائٹ کے لیے کام کرنے والے لوگوں کو تلاش کیا گیا جن کا تعلق دنیا کے مختلف ممالک سے ہے۔ یہ ایک سنجیدہ سوچ بچار کا معاملہ ہے کہ کس طرح سوشل میڈیا کا غلط استعمال پورے Scenario ہی کو تبدیل کر دیتا ہے۔ ٹیکنالوجی کے ایسے غلط استعمال سے بات کا بتنگڑ تو بنتا ہی ہے‘ ایسے ایشوز معاشرے میں برطانیہ سے بھی بڑے انسانی المیوں کو جنم دے سکتے ہیں۔
بات کا بتنگڑ بننے کا معاملہ تو آپ نے دیکھا‘ اب ایک ایشو بتنگڑ سے بات بننے کا بھی پڑھ لیں۔ پاکستان میں گزشتہ چند دنوں یا چند ہفتوں سے صارفین انٹرنیٹ کے سست ہونے اور وَٹس ایپ کے استعمال میں دشواری کی شکایت کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ٹیلی کمیونی کیشن کمپنیوں کی جانب سے کہا گیا کہ ان کے نیٹ ورک میں کوئی مسئلہ نہیں ہے‘ اور یہ کہ یہ مسئلہ حکومت کی جانب سے آ رہا ہے۔ اس پر جب حکومت کی جانب سے کوئی تسلی بخش ردِ عمل ظاہر نہ کیا گیا تو صارفین کی جانب سے احتجاج کیا جانے لگا اور عدالت سے بھی اس سلسلے میں رجوع کر لیا گیا۔ عدالت کی جانب سے کوئی واضح فیصلہ آنے سے پہلے گزشتہ اتوار کے روز وزیرِ مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونی کیشن شزہ فاطمہ خواجہ نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ انٹرنیٹ کی سست روی کی وجہ پاکستان میں وی پی این (Virtual private network) کا بہت زیادہ استعمال ہے۔ اس سے قبل شزہ فاطمہ نے کہا تھا کہ پوری دنیا میں حکومتیں سائبر سکیورٹی کے لیے فائر وال انسٹال کرتی ہیں۔ فائر وال سے پہلے ویب مینجمنٹ سسٹم تھا جسے حکومت اب اَپ ڈیٹ کر رہی ہے۔ وزیر مملکت نے یہ نہیں بتایا کہ وی پی این کا استعمال اچانک کیوں بڑھ گیا۔ ان کی اس وضاحت پر یہ سوال اٹھے کہ کیا حکومت فائر وال نصب کر رہی ہے؟ وزیر مملکت نے پوری بات وی پی این پر ڈال دی لیکن یہ کوئی نہیں بتا رہا کہ وی پی این کے زیادہ استعمال کی ضرورت کیوں پڑی؟ عام لوگ وی پی این استعمال نہیں کرتے‘ وہ اگر زیادہ استعمال کر رہے ہیں تو کس وجہ سے کر رہے ہیں؟ لگتا تھا کہ ملک میں انٹرنیٹ کے ساتھ کچھ نہ کچھ ضرور ہو رہا ہے۔
اور اس پورے بتنگڑ میں سے اب بات یہ نکلی ہے کہ پی ٹی اے نے بتایا ہے کہ میرین کیبل میں تکنیکی خرابی کی وجہ سے انٹرنیٹ کی رفتار سست ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے روبرو چیئرمین پی ٹی اے کا کہنا تھا کہ تکنیکی وجوہات کے باعث یہ مسئلہ پیدا ہوا‘ انٹرنیٹ کا مسئلہ چھ سے سات دن رہا۔ پاکستان میں کُل سات سب میرین کیبلز آتی ہیں‘ ایک سب میرین کیبل میں تکنیکی خرابی ہے جو 22 اگست تک ٹھیک ہو جائے گی۔ انٹرنیٹ میں مسئلے کی وجہ سے وی پی این کا استعمال بڑھا۔ سست انٹرنیٹ کی وجہ سے وی پی این کا استعمال بڑھا ہے یا وی پی این کا استعمال بڑھنے کی وجہ سے انٹرنیٹ سست ہوا ہے‘ جو بھی ہو‘ اگر چیئرمین پی ٹی اے کی وضاحت پہلے آ جاتی تو شاید بات کا اس طرح بتنگڑ نہ بنتا۔ اور اب اس بتنگڑ میں سے بات کیا نکل کر سامنے آئی ہے‘ میرین کیبل کی خرابی۔