مخصوص نشستوں کا معاملہ اُلجھتا جا رہا ہے اور اس اُلجھن کو صرف سپریم کورٹ ہی ختم کر سکتی ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ مخالف پارٹی کو مخصوص نشستوں سے محروم رکھا جائے تاکہ اس کے اقتدار کے لیے کوئی خطرہ درپیش نہ رہے‘ لیکن زمینی حقائق کچھ اور معاملات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ اس معاملے میں تازہ پیش رفت یہ ہے کہ پاکستان بار کونسل کے چھ ممبران کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے جس میں الیکشن کمیشن‘ وزارتِ قانون اور وفاقِ پاکستان سمیت دیگر کو فریق بناتے ہوئے عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ الیکشن ایکٹ میں حالیہ ترمیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن کو حالیہ ترمیم پر عملدرآمد روکنے کا حکم دے کیونکہ حالیہ ترمیم آئینِ پاکستان کی مختلف شقوں سے متصادم ہے اور الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کے 12جولائی کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ حکومت نے ایوانِ زیریں یعنی قومی اسمبلی اور ایوانِ بالا یعنی سینیٹ سے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل چھ اگست کو منظور کرایا تھا۔ قبل ازیں یہ بل جب قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تو ایوانِ زیریں کی قائمہ کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا تھا جس نے ضروری غور و خوض کے بعد بل کی منظوری دی تھی۔ یہ بل الیکشن ایکٹ 2017ء میں دو ترامیم پر مبنی ہے۔ پہلی ترمیم سیکشن 66اور دوسری ترمیم سیکشن 104میں تجویز کی گئی ہے۔ پہلی ترمیم کے مطابق کسی سیاسی جماعت کی جانب سے وابستگی کا اقرار نامہ تبدیل نہیں کیا جا سکے گا جبکہ دوسری ترمیم میں کہا گیا ہے کہ جس پارٹی نے مخصوص نشستوں کی فہرست نہ دی ہو‘ اسے مخصوص نشستیں نہیں دی جا سکتیں۔
اس بل کا بظاہر مقصد پاکستان تحریک انصاف کو ان مخصوص نشستوں سے محروم کرنا ہے جو سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے کے ذریعے پی ٹی آئی کو دی ہیں۔ سپریم کورٹ نے 12 جولائی کو مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی اپیل کا فیصلہ سناتے ہوئے ان نشستوں کا حق دار پی ٹی آئی کو قرار دیا تھا اور اس ضمن میں الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کے بجائے دیگر جماعتوں میں تقسیم کر دی تھیں۔ بعد ازاں پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔ الیکشن کمیشن نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں سے متعلق فہرستیں فراہم نہیں کی تھیں۔ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر نظرِ ثانی کی اپیل عدالت میں دائر کر رکھی ہے۔ اپنی نظرثانی اپیل کے باوجود حکومت نے الیکشن ایکٹ میں ترامیم کو ضروری سمجھا اور یہ ترامیم کرا لیں۔ ایک اپیل پی ٹی آئی نے بھی مذکورہ ترمیمی بل کے خلاف دائر کر رکھی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کا اعلان تو کیا ہے اور عملدرآمد ہو بھی رہا ہے‘ لیکن اس ادارے نے ساتھ ہی رجسٹرار سپریم کورٹ کو درخواست جمع کرائی ہے جس میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے عدالتِ عظمیٰ کے فل کورٹ کے اکثریتی فیصلہ کے بارے میں وضاحت کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔ اس کے بعد 10اگست کو سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ کر لیا تو اس پر عملدرآمد ہونا چاہیے‘ یہ نہیں ہو سکتا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد نہ ہو‘ اگر اس طرف چل پڑے تو آئینی توازن بگڑ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد روایت نہیں بلکہ لازمی تقاضا ہے اور سپریم کورٹ کو یہ اتھارٹی کہیں اور سے نہیں بلکہ آئین سے حاصل ہوتی ہے۔ آئین کہتا ہے کہ یہ فیصلہ ہے اور اس پر عملدرآمد ہونا ہے اور یہی طریقہ ہے۔
عدالت سے حکومت کی نظر ثانی اپیل کا فیصلہ کیا آتا ہے اور الیکشن ایکٹ ترمیمی بل منظور کرانے کے بعد حکومت پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں سے محروم کرنے میں کامیاب ہو پاتی ہے یا نہیں‘یہ میرے آج کے کالم کا موضوع نہیں ہے۔ میرے کالم کا موضوع یہ ہے کہ بعض حکومتیں اور حکمران ایسے فیصلے‘ ایسے اقدامات کر جاتے ہیں اور ایسی قانون سازی کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو اُن کی وقتی سیاسی ضروریات کو تو پورا کرتی ہے لیکن طویل مدت کے تناظر میں اس کے اثرات و نتائج منفی ہوتے ہیں ۔ کئی بار ایسا ہوا کہ قانون بنانے والے خود ہی اس کی زد میں آگئے۔ حکومت نے اگر الیکشن ایکٹ ترمیمی بل منظور کرایا ہے تو مجھے ذاتی طور پر اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ قانون سازی حکومت کا حق ہے اور اس نے یہ حق استعمال کیا ہے۔ کل کو معزز عدالت اس بارے میں جو فیصلہ سنائے گی میرے خیال میں وہی سب سے اعلیٰ اور مناسب ہو گا۔ میں بات کر رہا ہوں اپنے ہی بنائے گئے قوانین کی زد میں آنے کے امکانات یا خدشات کی۔ اپنی بات یا اپنا تھیسز واضح کرنے کے لیے میں نیب کے ادارے اور نیب قوانین کی مثال پیش کروں گا جو کسی زمانے میں مسلم لیگ (ن) والوں نے اپنے مخالفین کو دباؤ میں رکھنے کے لیے وضع کیے تھے‘ لیکن پھر خود بھی اس کی زد میں آتے رہے اور جب خود اس کی زد میں آئے تو اس ادارے کو ہی ختم کرنے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ وہ جو کہتے ہیں کہ آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا‘ بس ویسا ہی معاملہ۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ اتنی کوششیں کرنے‘ اتنا سرمایہ لگانے اور مقدمات قائم کرنے کے باوجود کرپشن کا لیول کم نہیں کیا جا سکا۔ وطنِ عزیز آج پہلے سے زیادہ کرپشن کا شکار ہے۔
اس حوالے سے 1990ء سے 1999ء تک کے عرصے کو اگر احتساب کا دور قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ کبھی سیف الرحمن نے بینظیر بھٹو اور ان کے شوہر کا احتساب کیا تو کبھی رحمن ملک نے شریف خاندان کے احتساب کا فریضہ سرانجام دیا۔ جنرل مشرف نے تو باقاعدہ احتساب بیورو قائم کر دیا تھا۔ اگرچہ اس سارے عرصے میں برسرِ اقتدار آنے والی حکومتوں اور حکمرانوں کی جانب سے دعویٰ یہ کیا جاتا رہا کہ احتساب کے عمل میں انصاف کے تقاضے پورے ہو رہے ہیں‘ لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا‘ در حقیقت اس ادارے کو مخالفین کو دبانے اور دبائے رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔
میں اپنے تھیسز کو آگے بڑھاتا ہوں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت نے اپنی ضرورت کے مطابق الیکشن ایکٹ میں ترامیم کا بل منظور تو کر لیا ہے لیکن ممکن ہے مستقبل میں کبھی ایسا بھی ہو جائے کہ حکومت سازی کے لیے یا کسی برسرِ اقتدار حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے کے لیے انہیں دوسری پارٹیوں کے اراکین کی حمایت کی ضرورت پڑے‘ اور وہ اپنے ہی بنائے ہوئے قانون کی وجہ سے ایسا کرنے سے قاصر رہیں۔ ممکن ہے حقیقت میں ایسا کبھی نہ ہو‘ لیکن اس گمان‘ امکان یا اندیشے کو کس طرح نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ ایسا ہو بھی سکتا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ قانون سازی کرتے وقت وقتی ضروریات کو ہی پیشِ نظر کیوں رکھا جاتا ہے‘ In the long run بنائے گئے قوانین کے کیا نتائج نکلیں گے‘ اس بات کو سامنے کیوں نہیں رکھا جاتا؟ اس سے بڑھ کر میرا سوال بلکہ مطالبہ یہ ہے کہ قوانین نہ تو کسی وقتی سیاسی ضرورت کو سامنے رکھ کر بنائے جانے چاہئیں‘ اور نہ ہی ان کا مقصد مخالفین کو تابع رکھنا ہونا چاہئیں۔ قوانین ہمیشہ ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد میں بنائے جاتے ہیں‘ اور یہاں بھی اسی عالمی سطح پر جاری پریکٹس پر عمل ہونا چاہیے۔ کیا خیال ہے آپ کا؟