اگلا سوال یہ ہے کہ ٹرمپ کے نئے دور میں پاک امریکہ تعلقات کی نوعیت کیا رہے گی اور پاکستان کو اس کے لیے کیا پیشگی تیاریاں کرنی چاہئیں؟
یہ بات اب عام کی جاتی ہے کہ پاک امریکہ تعلقات وقتی ہوتے ہیں۔ جب امریکہ کو ضرورت ہوتی ہے وہ پاکستان کو مراعات اور فنڈز فراہم کرتا ہے اور اپنے کام کرا لیتا ہے‘ لیکن جب اس کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے تو امریکی انتظامیہ پاکستان کو نظر انداز کر دیتی ہے۔ اس کے لیے دو افغان جنگوں کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ 1979ء میں جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تھا تو اس جنگ میں پاکستان نے امریکہ کے مقاصد کے تحت افغان مجاہدین کی مدد کی تھی۔ یہ جنگ سوویت یونین کے افغانستان سے انخلا پر منتج ہوئی تھی‘ لیکن اس جنگ میں خدمات کے بدلے میں مراعات دینے کے بجائے امریکی انتظامیہ نے جنگ کے خاتمے کے بعد پاکستان کو مختلف نوعیت کی پابندیوں کا نشانہ بنایا جن میں سب سے اہم پریسلر ترمیم تھی‘ جس کے تحت 1991ء میں پاکستان کی فوجی امداد بند کر دی گئی تھی۔ اس کے بعد 2001ء تک صرف دو برس (1992ء میں 72 لاکھ ڈالر اور 1999ء میں 22 لاکھ ڈالر) پاکستان کو امداد دی گئی‘ باقی برسوں میں نظر انداز کیا جاتا رہا۔ عسکری امداد بند ہوئی تو جدید امریکی ساز و سامان کی ترسیل بھی متاثر ہوئی جس میں پاکستان اور امریکہ کے مابین ایف 16 طیاروں کی فراہمی پر بھی تنازع پیدا ہو گیا۔
دوسری بار 2001ء میں نائن الیون کے بعد جب امریکہ کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اسی افغانستان میں افغان طالبان کا تعاقب کرنے کی ضرورت پیش آئی تو امریکہ کو پاکستان ایک بار پھر یاد آ گیا‘ اور پاکستانی قیادت نے بھی ماضی کے تجربے سے کچھ نہ سیکھتے ہوئے ایک بار پھر پاکستان کو اس حملے میں فرنٹ لائن سٹیٹ قرار دلوا دیا۔
اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے 2004ء میں پاکستان کو ایک اہم غیرنیٹو اتحادی کا درجہ دیا تھا۔ یہ درجہ ملنے کے نتیجے میں پاکستان کو فوجی تربیت‘ دفاعی تعاون اور مالی امداد جیسے فوائد تک رسائی حاصل ہوئی تھی۔ اس درجے کا مقصد سٹرٹیجک شراکت داری کو مضبوط اور دفاعی صلاحیتوں کو بہتر بنانا تھا۔ یاد رہے کہ نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) کی تشکیل 1949ء میں اس وقت کی گئی جب دوسری عالمی جنگ تو ختم ہو چکی تھی لیکن اس جنگ کا حصہ بننے والی قوتوں کے درمیان ایک سرد جنگ شروع ہو گئی تھی۔ اس سرد جنگ کے ابتدائی مراحل میں نیٹو تنظیم قائم کی گئی تھی۔ یہ تنظیم رکن ممالک کے مشترکہ دفاع کیلئے بطور سیاسی اور فوجی اتحاد کے طور پر قائم کی گئی تھی۔ پاکستان چونکہ نیٹو کا رکن نہیں تھا‘ چنانچہ اسے 2004ء میں ضرورت کے تحت ''اہم نان نیٹو اتحادی‘‘ (Major non-NATO ally) کا درجہ دیا گیا تھا۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے مطابق Major non-NATO ally امریکی قانون کے تحت ایک ایسا عہدہ ہے جو غیر ملکی شراکت داروں کو دفاع‘ تجارت اور سلامتی کے شعبوں میں کئی فوائد دیتا ہے۔ اہم غیر نیٹو اتحادی کا عہدہ امریکہ کے ان ممالک سے گہرے تعلقات کی طاقتور علامت ہوتا ہے اور ان ممالک‘ جن کو یہ درجہ دیا جاتا ہے‘ سے دوستی کے لیے گہرے امریکی احترام کو ظاہر کرتا ہے۔ واضح رہے کہ اہم نان نیٹو اتحادی کا درجہ عسکری و معاشی مراعات تو فراہم کرتا ہے لیکن نوازے گئے ممالک سے سلامتی کے ضمن میں کوئی وعدہ نہیں کرتا۔
پہلی بات یہ ہے کہ جب امریکہ افغانستان کی اس دوسری جنگ سے کچھ لا تعلق ہوا تو اس کی پاکستان میں دلچسپی کم ہو گئی۔ افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کے مکمل انخلا کے بعد اس دلچسپی میں مزید کمی واقع ہوئی۔ اور اب حالت یہ ہے کہ پاکستان کے نان نیٹو سٹیٹس کے خاتمے کے لیے بھی بل لائے جا رہے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق ریپبلکن پارٹی کے بااثر قانون ساز اینڈی بگس (Andy Biggs) نے کانگریس میں ایک بل پیش کیا ہے جس میں پاکستان کی نان نیٹو اتحادی کی حیثیت ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ امریکی صدر کو پاکستان کو نان نیٹو اتحادی کا درجہ دینے کا سرٹیفکیٹ جاری نہیں کرنا چاہیے جب تک کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف فوجی کارروائی جاری نہیں رکھتا۔ بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی سرزمین سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت نہ دے۔ بل کے مطابق پاکستان سے یہ بھی مطالبہ کیا جانا چاہیے کہ وہ حقانی نیٹ ورک کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے افغان حکومت کے ساتھ مل کر کام کرے۔ اینڈی بگس نے یہ بل‘ یا ایسا ہی ایک بل 2019ء میں بھی پیش کیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک اینڈی اسی طرح کے دوسرے بل منظور کرانے کی بھی کئی کوششیں کر چکے ہیں‘ لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ کا اقتدار سنبھالنے کے بعد اینڈی یہ بل منظور کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ یہ سوال اس لیے اٹھتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے پچھلے دورِ حکومت میں کئی بار پاکستان پر تنقید کر چکے کہ وہ امریکی امداد تو قبول کر لیتا ہے لیکن تسلی بخش اقدامات نہیں کرتا۔
بی بی سی کے ایک آرٹیکل میں ملیحہ لودھی کے حوالے سے یہ لکھا گیا کہ افغانستان سے فوج کے انخلا کے بعد امریکہ کی نگاہ میں پاکستان کی اہمیت کم ہوئی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان ابھی واشنگٹن کے ریڈار پر نہیں ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان سٹرٹیجک تعلقات اور بھارت اور امریکہ کے درمیان شراکت داری کے بیچ میں ہی پاکستان کو کوئی گنجائش نکالنا ہو گی اور امریکہ سے تعلقات کو بہتر بنانا ہو گا‘ تاہم ٹرمپ کی ٹیم میں چین مخالف شخصیات اگر پاکستان کو چین یا بھارت کے لینز سے دیکھتی ہیں تو امریکہ اور پاکستان کے درمیان معنی خیز دو طرفہ تعلقات کی گنجائش مزید سُکڑ جائے گی۔ میرا بھی یہی خیال ہے کہ فی الحال پاکستان امریکہ کی نظر میں نہیں ہے‘ اس لیے ٹرمپ کے دوسرے دورِ حکومت میں بھی امریکہ کی جانب سے پاکستان کو نظر انداز کیے جانے کے اندیشے باقی رہیں گے۔ ایسے میں پاکستان بہتر حکمت عملی اور سرگرم سفارت کاری کے ذریعے خود کو امریکہ کے لیے ناگزیر بنا سکتا ہے‘ تاہم اس کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ سفارت کاری کن نکات پر اور کن ایشوز کو لے کر کی جاتی ہے۔ اگرچہ کہا گیا ہے کہ اہم نان نیٹو اتحادی کا سٹیٹس چھن جانے کے پاکستان پر زیادہ منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے‘ پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو اس حوالے سے پیش کردہ بل کو منظور ہونے سے بچانے کے لیے فوری طور پر سرگرمی کا مظاہرہ کرنا چاہیے‘ کیونکہ فی الحال نام نہاد ہی سہی لیکن یہ سٹیٹس پاکستان کے موجودہ معاشی‘ سیاسی اور سماجی استحکام کے لیے ضروری ہے۔ پاکستان سب سے زیادہ برآمدات امریکہ کو کرتا ہے۔ اہم نان نیٹو اتحادی کا سٹیٹس ختم ہونے سے ہماری برآمدات پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ان منفی اثرات سے بچنے کے لیے پاکستان کا امریکہ کا اہم نان نیٹو اتحادی رہنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اگلے چار برس میں یعنی ٹرمپ کے دوسرے دورِ حکومت میں پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ پاکستان اپنی گیم کیسے کھیلتا ہے۔ اس سارے تناظر میں ٹرمپ کی جانب سے ممکنہ طور پر بانی پی ٹی کے حوالے سے بھی کوئی سوال کیا جا سکتا ہے۔ اس سوال کا جواب کیا دینا ہے‘ حکومت کو یہ پہلے سے سوچ کے رکھنا ہو گا۔