امریکی سیکرٹری خارجہ مارکو انتونیو روبیو (Marco Antonio Rubio) نے بتایا ہے کہ صدر ٹرمپ نے محکمہ خارجہ اور امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) کے تحت یا ان کے ذریعے فراہم کی جانے والی تمام امریکی غیرملکی امداد کو نظر ثانی کے لیے روک دیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے بیان کے مطابق امریکی صدر تمام غیر ملکی امداد کے پروگراموں کا از سر نو جائزہ لے رہے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ پروگرام ان کے 'امریکہ فرسٹ‘ ایجنڈے کے تحت امریکی خارجہ پالیسی کے مطابق ہوں۔ بیان کے مطابق صدر ٹرمپ نے واضح طور پر کہا کہ امریکہ اب آنکھیں بند کر کے پیسے نہیں دے گا‘ جب تک اس کے بدلے امریکی عوام کو کوئی فائدہ نہ پہنچے۔ مارکو روبیو نے کہا کہ ہم جو بھی ڈالر خرچ کرتے ہیں‘ ہر پروگرام جس کی ہم فنڈنگ کرتے ہیں اور ہر پالیسی جس پر عمل کرتے ہیں اسے تین سادہ سوالات کے جواب کے ساتھ جائز قرار دیا جانا چاہیے: کیا یہ امریکہ کو محفوظ بناتا ہے؟ کیا یہ امریکہ کو مضبوط بناتا ہے؟ کیا یہ امریکہ کو مزید خوشحال بناتا ہے؟
ٹرمپ حکومت کے اس اعلان کے بعد وہ تمام ممالک سوچ میں پڑ گئے ہیں جو آج تک امریکی امداد حاصل کرتے رہے ہیں‘ اور جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ یاد رہے کہ دنیا کے 180ممالک امریکہ سے امداد حاصل کرتے ہیں‘ اور سب سے زیادہ امداد حاصل کرنے والے ممالک میں یوکرین‘ اسرائیل‘ اُردن اور مصر ہیں۔ امریکہ زیادہ تر امداد معاشی حوالوں سے دیتا رہا جبکہ کچھ امداد فوجی بھی ہوتی ہے۔ یہ امداد کتنے بڑے حجم کی ہوتی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2023ء میں امریکہ نے دوسرے ممالک کو 68ارب ڈالر امداد فراہم کی۔ اس میں سے 88فیصد معاشی امداد فراہم کی گئی جبکہ فوجی امداد کا تناسب 12فیصد تھا۔ اسی سال امریکہ نے اسرائیل کو 3.3ارب ڈالر امداد فراہم کی جو ساری کی ساری فوجی نوعیت کی تھی۔ 2023ء میں یوکرین نے 17ارب ڈالر امریکی امداد حاصل کی جو اس سال دوسرے ممالک کو دی گئی کل امریکی امداد کے ایک چوتھائی سے زیادہ بنتی ہے۔ 2021ء میں‘ یعنی یوکرین پر روسی حملے سے پہلے یوکرین امریکہ سے سب سے زیادہ امداد حاصل کرنے والے ممالک کی فہرست میں پہلے 20ممالک میں شامل نہیں تھا۔ اس کا نمبر 21واں تھا۔ امریکہ کی جانب سے یوکرین کی امداد میں روسی حملے کے بعد اتنا اضافہ کیا گیا ہے۔ جو بائیڈن کے دور میں یوکرین کو مسلسل امداد ملتی رہی۔ ٹرمپ انتظامیہ اس بارے میں کیا پالیسی اپناتی ہے‘ اس کا پتا چلانے کے لیے کچھ انتظار کرنا پڑے گا۔
2023ء کی بات ہو رہی ہے تو آئیے جانتے ہیں کہ امریکہ سے امداد حاصل کرنے والے 10سب سے بڑے اور 10سب سے چھوٹے ممالک کون سے ہیں۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا‘ یوکرین نے 2023ء میں 17ارب 20کروڑ ڈالر امداد حاصل کی‘ اسرائیل تین ارب 30کروڑ ڈالر‘ اُردن ایک ارب 70کروڑ ڈالر‘ مصر ایک ارب 50کروڑ ڈالر‘ ایتھوپیا ایک ارب 50کروڑ ڈالر‘ صومالیہ ایک ارب 20کروڑ ڈالر‘ نائیجیریا ایک ارب ڈالر‘ کانگو 99کروڑڈالر‘ افغانستان 88کروڑ 65لاکھ ڈالر‘ کینیا 84کروڑ 60لاکھ ڈالر۔ سب سے کم امداد حاصل کرنے والے ممالک کی فہرست اس طرح ہے: کیوراکاؤ‘ پرتگال‘ کویت‘ ڈومینیکا‘ اٹلی‘ ناروے‘ روس‘ سپین‘ نیدرلینڈز‘ سنگاپور۔
پاکستان کی بات کی جائے تو 2023ء میں یو ایس ایڈ کی جانب سے یو ایس ایڈ پاکستان کو 44کروڑ 56لاکھ ڈالر کی گرانٹ فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ یہ گرانٹ پانچ سالہ دو طرفہ ترقیاتی امدادی معاہدے کے تحت مہیا کی جانی تھی۔ بتایا گیا ہے کہ امریکہ نے 2023ء میں سیلاب متاثرین کے لیے پاکستان کو 21کروڑ 50لاکھ ڈالر فراہم کیے۔ یو ایس ایڈ کے تعاون سے صحت کے شعبے میں تین کروڑ ڈالرز فراہم کیے گئے جبکہ سیلاب سے متاثرہ طلبہ کو 600 سے زائد سکالرشپس فراہم کیے گئے۔ اسی طرح سندھ میں 100 سکولوں کی تعمیر کا سنگ میل عبور کیا گیا جبکہ سندھ بیسک ایجوکیشن پروگرام کے تحت 2024ء تک 80 ہزار طلبہ مستفید ہوئے۔ امریکی امداد کی بندش سے پاکستان میں زراعت‘ توانائی‘ صحت اور دیگر شعبوں کے کچھ منصوبے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
امریکی حکام نے پاکستان کے مختلف شعبوں کے لیے امداد بند کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بندش عارضی ہے جس کی بحالی کے لیے جائزہ لیا جائے گا۔ پاکستان گزشتہ سات دہائیوں سے امریکی اتحادی چلا آ رہا ہے لیکن اب امریکہ پاکستان سے ہاتھ کھینچ رہا ہے۔ ایک طرف امریکہ میں پاکستان کے نان نیٹو اتحادی کے سٹیٹس کو ختم کرنے کے لیے سرگرمی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب جو امداد اب تک مل رہی تھی‘ اس کا بھی خاتمہ ہونے والا ہے۔ ہمارے ملک کے ارباب بست و کشاد کو سوچنا چاہیے کہ چین اور امریکہ کی سرد جنگ پاک چین تعلقات کے لیے امتحان تو نہیں بننے والی ہے؟ اگرچہ امداد کی حالیہ بندش سے متاثر ہونے والا پاکستان اکیلا ملک نہیں ہے بلکہ پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے امریکہ سے امداد لینے والے ممالک متاثر ہونے جا رہے ہیں‘ لیکن سوال یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی اس نئی چال کے کیا نتائج نکلیں گے اور کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
بین الاقوامی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ عالمی سطح پر دی جانے والی امداد کو بارگیننگ چپ (Bargaining chip) کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کے مطابق امریکی صدر ایک نئی عالمی صف بندی کے سوچے سمجھے منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ اس میں دو آرا نہیں کہ عالمی تعلقات میں قرض اور امداد خوف اور ترغیب کے ہتھیار کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ کیا امریکہ کی نئی انتظامیہ اپنی امداد کے بل پر دنیا میں ایک نیا ورلڈ آرڈر نافذ کرنا چاہ رہی ہے اور کیا پاکستان سمیت امریکہ سے امداد حاصل کرنے والے ممالک اس نئے نظم (Order) کے لیے تیار ہیں؟
امداد چھوٹی ہو یا بڑی‘ کم ہو یا زیادہ یہ کسی بھی ملک یا معاشرے کے لیے ایک اضافی مالی سہارا ہوتی ہے اور اس سے ملکی یا معاشرتی سطح پر کچھ نہ کچھ تبدیلیاں ضرور رونما ہو رہی ہوتی ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ اگر امداد بند ہو جائے تو کسی بھی سطح پر جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہوتی ہیں ان کی رونمائی بند ہو جاتی ہے‘ چنانچہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ امریکہ کی جانب سے مختلف ممالک کو دی جانے والی امداد کی بندش کے ان ممالک کے داخلی معاملات پر کچھ نہ کچھ اثرات ضرور مرتب ہوں گے۔ ایک توجہ طلب بات یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے امداد کی بندش وقتی طور پر کی گئی ہے اور لگتا یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اس بندش کو لے کر اپنی 'امریکہ فرسٹ‘ پالیسی پر عمل درآمد کے سلسلے میں معاملات کو آگے بڑھانے کی کوشش کرے گی یعنی ان ممالک کی امداد ہو سکتا ہے آنے والے دنوں ہفتوں یا مہینوں میں بحال ہو جائے لیکن اس بحالی کے لیے امریکہ کی جانب سے کچھ نہ کچھ شرائط رکھی جائیں گی اور یہ شرائط ظاہر ہے کہ امریکہ کے اپنے حق میں ہوں گی۔ اب اس بندش کے بعد امداد حاصل کرنے والے ممالک کے حکمران کیا پالیسی اختیار کرتے ہیں یہ ان پر منحصر ہے‘ لیکن ٹرمپ کی پالیسیوں اور اقدامات پر ایک نظر ڈالنے کے بعد کم از کم یہ بات خاصے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ان کا یہ نیا دور پچھلے دور سے زیادہ ہنگامہ خیز ثابت ہو گا۔