"IYC" (space) message & send to 7575

ایک اور چھوٹا سا ڈبہ

اب تو خیر دنیا بہت آگے بڑھ چکی ہے‘ بہت تبدیل ہو چکی ہے۔ انٹرنیٹ ہے‘ موبائل فون ہے‘ کمپیوٹر اور یو ٹیوب ہیں اور سب سے بڑھ کر سوشل میڈیا۔ یہ سب ایک منٹ سے بھی کم وقت میں کسی فرد کو اس کی من چاہی دنیا تک پہنچا سکتے ہیں۔ آپ کوئی گانا سننا چاہیں‘ کوئی فلم دیکھنا چاہیں‘ کوئی ٹی وی پروگرام دیکھنا چاہیں‘ رِیلز دیکھنا چاہیں‘ ٹک ٹاک سے محظوظ ہونا چاہیں تو پلک جھپکنے میں یہ کام سرانجام دے سکتے ہیں‘ اور تفریح کی دنیا میں داخل ہو سکتے ہیں۔ اور کچھ نہیں تو ٹی وی چینلز دیکھ سکتے ہیں اور ٹی وی چینلز میں بھی نیوز اور تفریحی (انٹرٹینمنٹ) چینلز کی تخصیص ہو چکی ہے۔ خبریں سننا چاہتے ہیں تو نیوز چینل لگا لیجیے اور ڈرامہ یا دوسرا کوئی دلچسپ پروگرام سننا اور دیکھنا چاہتے ہیں تو کوئی سا بھی تفریحی چینل لگا لیجیے۔ یہ سب ٹیکنالوجی میں ترقی کا نتیجہ ہے‘ لیکن ایک دور ایسا بھی تھا جب پورے معاشرے میں تفریح اور معلومات یعنی خبروں وغیرہ کا ایک ہی ذریعہ ہوتا تھا اور وہ ذریعہ تھا ریڈیو۔ میں اس زمانے کی بات کر رہا ہوں جب ابھی پی ٹی وی کی نشریات بھی شروع نہیں ہوئی تھیں۔ تب ریڈیو بھی خال خال ہی ہوتے تھے‘ اور جس گھر میں ریڈیو ہوتا تھا وہاں بھی دیہات کے لوگوں کا اسی طرح جمگھٹا لگتا تھا جیسا ٹیلی ویژن کے آنے پر اس کے گرد لگتا ہم سب نے دیکھا ہے۔
تب ریڈیو بھی لوگوں کے لیے ایک عجوبہ ہوتا تھا۔ دیہات کے سادہ لوح باسی یہ دیکھ کر حیران ہوتے تھے کہ ایک چھوٹا سا ڈبہ ہے جس میں کوئی بندہ تو بیٹھا نظر نہیں آتا‘ لیکن کوئی نہ کوئی بولتا ضرور رہتا تھا۔ کبھی گانے سننے کو ملتے ہیں‘ کبھی حالاتِ حاضرہ کے پروگرام‘ کبھی خبریں اور کبھی ڈرامے۔ اس میں نور جہاں‘ ناہید اختر‘ مہدی حسن‘ رجب علی‘ غلام علی‘ مسعود رانا‘ اخلاق احمد‘ مہناز‘ ریشماں‘ شوکت علی اور دوسرے گلوکار بیٹھے تو نظر نہیں آتے لیکن ان کے گانے ضرور سننے کو ملتے تھے۔ فرمائشی پروگرام تقریباً روزانہ چلتا تھا جس میں ان لوگوں کے نام بھی بولے جاتے تھے جو خط لکھ کر گانے سننے کی فرمائش کرتے تھے۔ کبھی ایک گلوکار کے گانے سنائے جاتے تھے‘ کبھی دو گانوں کا پروگرام ہوتا تھا جس میں ایک ہی گانا دو آوازوں میں سنایا جاتا تھا۔ بچوں کے پروگرام ہوتے تھے۔ رات کو کبھی کبھی ایک ریڈیو ڈرامہ بھی نشر کیا جاتا تھا۔ ظاہر ہے اس ڈرامے کی تصویریں تو نظر نہیں آتی تھیں لیکن صوتی اثرات ایسے دیے جاتے تھے کہ یوں محسوس ہوتا کہ سب کچھ نظروں کے سامنے ہو رہا ہے۔ مذہبی پروگرام ہوتے تھے۔ کسانوں کے لیے پروگرام ہوتا تھا۔ فوجی بھائیوں کے لیے پروگرام نشر کیا جاتا تھا‘ حتیٰ کہ مزدوروں کے لیے بھی پروگرام ہوتا تھا۔
دوپہر کے وقت ملے جلے پروگرام ہوتے تھے۔ شام کے وقت سوہنی دھرتی کے عنوان سے پنجابی کا پروگرام نشر کیا جاتا تھا‘ جس میں کسان بھائیوں کو مشورے دیے جاتے تھے‘ ہلکی پھلکی باتیں ہوتی تھیں اور پنجابی گانے سنائے جاتے تھے۔ نظام دین کی باتیں کون بھولا ہو گا؟ آزاد کشمیر ریڈیو کے پروگرام صدائے وطن‘ آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس سے پرانے گیتوں کا پروگرام 'تعمیلِ ارشاد‘ اور ریڈیو سیلون سے سدا بہار نغمے پیش کیے جاتے تھے۔ بعد میں جب لاہور کے علاوہ دوسرے علاقوں میں بھی ریڈیو سٹیشن قائم کیے گئے تو علاقائی زبانوں کے پروگراموں میں اضافہ ہو گیا۔ جمعہ کے روز نعتیں اور قوالیاں نشر کی جاتی تھیں۔ دوپہر کے وقت فلموں کے تعارف پر مبنی دس دس منٹ کے پروگرام میرے فیورٹ ہوتے تھے۔ کئی فلموں کے تعارفی پروگرام اب بھی ذہن کے نہاں خانوں میں محفوظ ہیں۔ کبھی کبھی یاد آتے ہیں تو میں کھو سا جاتا ہوں۔ اس زمانے کی چند فلموں کے نام ملاحظہ فرمائیں: دیکھا جائے گا‘ دوریاں‘ کنارہ‘ میرے حضور‘ آئینہ‘ مولا جٹ‘ پیار کا وعدہ‘ جاسوس‘ سلاخیں‘ عشق عشق‘ اُف یہ بیویاں‘ گورا کالا‘ پرستش‘ روٹی، کپڑا اور مکان‘ محبت اور مہنگائی‘ زندگی‘ آواز‘ پرکھ‘ سیتا مریم مارگریٹ‘ مٹھی بھر چاول‘ حیدر علی‘ امبر‘ ایک چہرہ دو روپ‘ آبشار‘ انتخاب‘ کبھی کبھی‘ ابھی تو میں جوان ہوں‘ نذرانہ‘ مہمان‘ ماضی حال اور مستقبل‘ امر اکبر انتھونی‘ موسم ہے عاشقانہ‘ آنکھوں آنکھوں میں‘ دل کے داغ‘ دامن اور چنگاری‘ آدمی‘ آگ اور زندگی‘ کورا کاغذ‘ وعدے کی زنجیر‘ شرمیلی‘ بارات‘ آگ اور زندگی‘ عورت راج‘ نیا انداز‘ بندش‘ نشانی‘ پلے بوائے‘ چوری چوری‘ دنگل‘ تہذیب‘ وارنٹ‘ دل لگی‘ پرمٹ‘ سنگدل‘ چلتے چلتے‘ نظرِ کرم‘ وڈیرا‘ بدنام‘ ہم دونوں۔ تب کچھ انگریزی فلموں کے ریڈیو پروگرام بھی چلتے تھے جیسے The Mighty Himalayan Man ‘ Yeti اور Star Wars۔
ریڈیو کا ایک کمال یہ تھا کہ اس کا تعلق صرف سننے سے تھا‘ دیکھنے سے نہیں تھا‘ چنانچہ گھر کے کسی کونے میں پڑا یہ ڈبہ بولتا رہتا تھا اور سننے والے اپنا کام کرتے جاتے تھے اور ریڈیو کے پروگرام یا گانے بھی سنتے رہتے تھے۔ آل انڈیا ریڈیو کا اردو رسالہ 'آواز‘ کے عنوان سے شائع ہوتا تھا۔ ریڈیو پاکستان نے اسی طرز پر ریڈیو کے رسالے 'آہنگ‘ کا اجرا کیا۔ جو کچھ ریڈیو پر نہ سن پاتے تھے‘ وہ آہنگ میں پڑھنے کو مل جاتا تھا۔ ریڈیو پاکستان لاہور کے متوازی آل انڈیا ریڈیو کے پروگرام چلتے تھے اور وہ بھی بڑے ذوق و شوق سے سنے جاتے تھے۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ صبح ساڑھے سات (بھارت کے) فرمائشی گانوں کا پروگرام چلتا تھا جو ایک یا ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہتا تھا۔ اس پروگرام میں پہلے ان لوگوں کے نام پڑھے جاتے تھے جنہوں نے گانا سننے کی فرمائش کی ہوتی تھی اور پھر گانا سنایا جاتا تھا اور گانوں کی فرمائش کرنے والوں میں پاکستان کے عوام بھی شامل ہوتے تھے۔ گانوں کے دوران آٹھ بجے پانچ منٹ کا حالاتِ حاضرہ کا ایک پروگرام بھی پیش کیا جاتا جس میں اکثر پاکستان کے خلاف ہی بات کی جاتی تھی۔ مجھے محسوس ہوتا تھا کہ اس پروگرام کے ذریعے پاکستان کے عوام کی برین واشنگ کی جا رہی ہے۔
یہ ساری باتیں مجھے اس لیے یاد آئیں کہ آج 13 فروری کو پوری دنیا میں ریڈیو کا دن منایا جا رہا ہے۔ اگرچہ ریڈیو کی ہیئت بدل چکی ہے۔ فریکوئنسی اور پروگراموں میں وقت کے ساتھ تبدیلی آ چکی ہے۔ شارٹ ویوز‘ میڈیم ویوز اور لانگ ویوز کے معاملات میں وقت کے ساتھ ترامیم آ چکی ہیں لیکن ریڈیو کی حقیقت آج بھی مسلمہ ہے۔ ریڈیو نے اپنے سامعین کی ذہنی نشوونما اور اخلاقی تربیت ہی نہیں کی بلکہ معاشرتی ہم آہنگی پیدا کرنے اور قومیت کے جذبے کو اجاگر کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ مولانا عبدالمجید سالک‘ پروفیسر احمد شاہ (پطرس) بخاری‘ سید امتیاز علی تاج‘ ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر‘ حفیظ جالندھری‘ مجید ملک‘ صوفی تبسم‘ مولانا چراغ حسن حسرت اور عبدالرحمن چغتائی جیسے لوگ ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔ کیسا شاندار زمانہ ہو گا وہ۔ ٹیلی وژن آیا‘ ٹی وی چینلز کی یلغار ہوئی‘ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا آئے لیکن ریڈیو آج بھی اپنی جگہ قائم ہے۔ اس کی افادیت ممکن ہے تبدیل ہو چکی ہو‘ لیکن ریڈیو کی اہمیت آج بھی قائم ہے۔ اس چھوٹے سے ڈبے کی ہزار داستانیں ہیں۔ لکھنے کو بیٹھیں تو ہفتوں گزر جائیں یہ داستان مکمل نہ ہو۔ آج کے دن ریڈیو پاکستان کو اس کی سماجی‘ قومی اور عوامی خدمات پر بھرپور سیلوٹ۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں