"IYC" (space) message & send to 7575

بیرونِ ملک جانے والوں کیلئے ایک مشورہ

ایک خبر نظر سے گزری کہ حال ہی میں لیبیا کے سمندر میں رونما ہونے والے کشتی حادثے میں پشاور کا ایک رہائشی انیس خان بھی جاں بحق ہوا۔ انیس خان بہتر مستقبل کے خواب لیے غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش میں سمندر کی بے رحم موجوں کی نذر ہو گیا۔ انیس خان کے ساتھ کشتی میں اس کے تین کزن بھی سوار تھے جن میں سے ہمراز اور اسماعیل کو زندہ بچا لیا گیا جبکہ ابرار تاحال لاپتا ہے۔ 11فروری کو پاکستان کے دفتر خارجہ نے بتایا تھا کہ لیبیا کے شہر زاویہ کی بندرگاہ کے قریب 65مسافروں کو لے جانے والی ایک کشتی حادثے کا شکار ہو گئی ہے۔ بعد ازاں اس حادثے میں 16پاکستانی شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی۔
گم شدہ منزل کے مسافر کو کیا خبر
کہاں دن ڈھلے گا کہاں رات ہو گی
یہ محض ایک انیس خان کی کہانی ہے جو روشن مستقبل کے خواب دیکھتا دیکھتا خود تاریکیوں میں ڈوب کیا‘ ورنہ تو ایسا ہر سانحہ ایسی کئی کہانیوں کو اُجاگر کرتا ہے۔ ویسے تو ہمارے نوجوانوں کو از خود ایسے واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے غیرقانونی طور پر بیرونِ ملک جانے کا ارادہ ترک کر دینا چاہیے‘ لیکن اگر وہ اس کے لیے تیار نہیں تو میں واضح کر دیتا ہوں کہ قانونی طور پر بھی بیرونِ ملک جانا اب آسان نہیں رہا‘ غیرقانونی طریقے سے دیارِ غیر جانا اور پھر وہاں کامیاب بھی ہو جانا تو بڑی دور کی بات ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ وہ معاشرے مسلسل تارکینِ وطن کی آمد کے باعث اب Saturated ہو چکے ہیں یعنی اب ان میں مزید تارکینِ وطن کو اپنے اندر سمونے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ کینیڈا کی مثال لیتے ہیں جس کی آبادی 10سال پہلے تک تین کروڑ 50لاکھ تھی لیکن اب چار کروڑ تک جا پہنچی ہے۔ امیگریشن اس اضافے کی اہم ترین وجہ قرار دی گئی ہے۔ کینیڈا کے ادارہ برائے شماریات کے مطابق 2024ء میں آبادی میں اضافے کا 90فیصد حصہ امیگرنٹس تھا یعنی کینیڈا کی مقامی آبادی میں اس تیزی سے اضافہ نہیں ہو رہا ہے جس تیزی سے تارکینِ وطن اس ملک کی آبادی کو بڑھا رہے ہیں۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ اب وہاں کے لوگ غیرملکیوں کے لیے اتنی بانہیں پھیلائے نظر نہیں آتے جتنے چند سال یا چند دہائیاں پہلے نظر آتے تھے۔ اندازہ اس رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے جس میں ایک ریسرچ فرم کے ایک سروے پر مبنی اعداد و شمار کو سامنے رکھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ 2022ء میں 27فیصد کینیڈین سمجھتے تھے کہ ملک میں بہت زیادہ غیر ملکی تارکین وطن آ رہے ہیں۔ 2024ء میں لیکن یہ شرح بڑھ کر 58فیصد تک جا پہنچی ہے یعنی 2022ء کے 27فیصد کی نسبت اب 58فیصد کینیڈین آبادی یہ سمجھتی ہے کہ ان کے ملک پر غیر ملکی افراد کی یلغار بڑھ رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے لوگ نہیں چاہتے کہ اب مزید تارکین وطن ان کے ملک میں وارد ہوں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اوٹاوا‘ وینکوور اور کیلگری سمیت کینیڈا کے کئی شہروں میں امیگریشن کی مخالفت کی گئی اور احتجاجی مظاہرے تک کیے گئے۔ اگر کوئی کینیڈا جانے کا ارادہ رکھتا ہے تو جان لے کہ وہاں بے حد مہنگائی ہے اور پاکستانی روپے لے کر وہاں جانے والا جب ان روپوں کو کینیڈین ڈالرز میں تبدیل کر کے خرچ کرتا ہے تو بس مہینہ بھر ہی خرچ کر پاتا ہے‘ اور اگر کہیں جاب نہ ملے تو نوبت فاقوں تک آ جاتی ہے اور یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بے تحاشا نقل مکانی کی وجہ سے کینیڈا میں جاب کا حصول ناممکن ہو چکا ہے۔ کینیڈا میں رہائش پذیر ایک پاکستانی کا کہنا ہے کہ وہاں ایک جاب کے لیے دو‘ دو سو امیدوار آ جاتے ہیں۔ اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ جب آپ وہاں جا کر نوکری تلاش کرنے کی کوشش کریں گے تو ان دو سو امیدواروں میں سے آپ کی پوزیشن کیا ہو گی۔
یہ کڑی صورت حال محض کینیڈا تک محدود نہیں ہے‘ امریکہ‘ برطانیہ اور یورپ‘ سب جگہ ایک جیسے حالات ہیں۔ امریکہ میں نئی ٹرمپ انتظامیہ کیا کر رہی ہے‘ یہ خبریں تو آپ کی نظروں سے بھی گزرتی ہوں گی۔ جنوری کے آخری دنوں کی ایک خبر اس طرح ہے: امریکہ بھر میں غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف وسیع پیمانے پر آپریشن جاری ہے۔ اس دوران صرف دو روز میں 2300سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ امریکی حکام کے مطابق زیر حراست افراد کا تعلق میکسیکو‘ سینیگال‘ وینزویلا‘ افغانستان‘ بولیویا‘ برازیل‘ ایکواڈور‘ ایل سلواڈور‘ گوئٹے مالا اور کولمبیا سے ہے۔ امریکی ادارے ہوم لینڈ سکیورٹی کے مطابق گزشتہ ہفتے 7300غیرقانونی تارکین وطن کو امریکہ سے ملک بدر کیا جا چکا ہے جبکہ مزید افراد کی ملک بدری کا عمل جاری ہے۔ ظاہر ہے اب دو ہفتوں کے بعد یہ آپریشن مزید تیز ہو چکا ہو گا اور یہ واضح ہے کہ اگر دوسرے ممالک کے غیرقانونی تارکینِ وطن کو ڈی پورٹ کیا جا رہا ہے تو پاکستان سے غیر قانونی طور پر بیرونِ ملک جانے والے کیسے بچ سکتے ہیں۔
اگر کوئی غیر قانونی طور پر یورپ جانے کا ارادہ کر رہا ہے تو وہ جان لے کہ یورپی یونین کئی سال پہلے یہ فیصلہ کر چکا ہے کہ بحیرۂ روم کے راستے یورپی ممالک میں داخل ہونے والے تارکینِ وطن اور انسانی سمگلروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ خبر کے مطابق یورپی ممالک میں مختلف اقوام کے پناہ گزینوں کے کوٹے پر ہونے والی طویل بحث کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ افریقی ممالک خصوصاً لیبیا سے آنے والے انسانی سمگلروں کے خلاف بحری افواج کے ذریعے سخت کارروائی کی جائے گی۔ اگر آپ عرب ممالک میں جا کر کام کرنے اور پیسے کمانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں تو یہ خبر پڑھ لیں کہ عرب ممالک نے پاکستان سے صرف اور صرف تربیت یافتہ افراد ہی وہاں بھیجنے کا کہا ہے۔ اس لیے میری نوجوانوں کو نصیحت ہے کہ وہ اول تو بیرونِ ملک جانے کا خواب دیکھنا بند کر دیں کہ یہ جان جوکھوں کا کام بن چکا ہے۔ آپ دیکھتے ہی ہیں کہ کس طرح کشتیاں ڈوب جاتی ہیں یا ڈبو دی جاتی ہیں اور لاکھوں اینٹھنے کے باوجود انسانی زندگی کی کوئی قدر نہیں کی جاتی۔ اگر یہ سب کچھ دیکھنے اور سننے کے باوجود دل نہیں مانتا اور ہر صورت میں بیرونِ ملک جانے کی خواہش ہے تو پھر میری یہ تجویز یا مشورہ مان لیں کہ چند ماہ لگا کر کوئی ہنر سیکھ لیں‘ کوئی سا بھی ہنر جس کی بنیاد پر بیرونِ ملک کچھ روزگار دستیاب ہو جائے۔ یہ تصویر مکمل طور پر تاریک نہیں ہے۔ روشن پہلو یہ ہے کہ ایک بار بیرونِ ملک پہنچ جائیں اور وہاں کوئی چھوٹا موٹا روزگار میسر آ جائے تو پھر جلد یا بدیر بندہ وہاں سیٹل ہو ہی جاتا ہے۔
یہ بات بڑے اطمینان کا باعث ہے کہ عالمی سطح پر تیزی سے بدلتی ہوئی ٹیکنالوجی کے اثرات کو محسوس کرتے ہوئے حکومت آئی ٹی اور مختلف سکلز کے حوالے سے مفت کورسز کا اہتمام کر رہی ہے۔ ان پروگراموں میں حصہ لیں‘ خود کو تربیت یافتہ یا ماہر بنائیں اور پھر باہر جانے کے بارے میں سوچیں‘ ورنہ حاصل کردہ تربیت کی بنیاد پر یہیں کوئی کاروبار کر لیں۔ کاروبار سے یاد آیا کہ حکومت رہائشی منصوبوں میں پھنسے غریب عوام کے اربوں بلکہ کھربوں روپے نکلوانے کے سلسلے میں بھی کوئی پالیسی مرتب کرے کہ یہ ڈمپ شدہ پیسہ نکلے گا تو معاشرے میں کاروباری سرگرمیاں فروغ پائیں گی‘ لوگ کسی قدر اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کے قابل ہو سکیں گے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں