ایک بے اطوار‘ بے مہار‘ بے حیا‘ بے نظریہ اور بے شرم دشمن سے اوچھے وار کی ہی توقع کی جا سکتی ہے اور ہمارے غنیمِ دیرینہ نے یہ توقع پوری کر دی ہے۔ پاک فوج کا سامنا کرنے کے بجائے انسانی بستیوں کو نشانہ بنایا اور بستیوں میں بھی عبادت گاہوں پر تاک تاک کر وار کیے۔ شاید اس لیے کہ پاکستانی عوام کے غم و غصے کو بڑھایا جا سکے اور پھر ایک نیا وار کیا جا سکے۔ دشمن کی عیاری اور مکاری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1965ء میں اس نے رات کے اندھیرے میں پاکستان پر حملہ کیا تھا‘ اور اب مئی 2025ء میں بھی اس نے حملے کا وہ وقت چنا جب لوگ آرام کی نیند سو رہے تھے اور حملہ بھی کیا تو مساجد پر اور گھروں پر یعنی نہتے عوام پر۔ اطلاعات یہ ہیں کہ بھارت نے پاکستان پر بلا اشتعال جارحیت کی اور چھ مقامات پر 24 حملے کیے جن کے نتیجے میں دو بچوں سمیت 26 پاکستانی شہید اور 46 شدید زخمی ہو گئے۔ رپورٹوں سے پتا چلا ہے کہ مظفر آباد میں مسجد بلال کو‘ کوٹلی میں مسجد عباس کو‘ مریدکے میں مسجد ام القریٰ کو نشانہ بنایا گیا جبکہ باقی مقامات پر عام آبادی پر گولہ باری کی گئی۔ پاک فوج نے بھارتی حملوں کا بھرپور جواب دیتے ہوئے پانچ طیاروں اور ایک کومبیٹ ڈرون کو مار گرایا۔ بھارتی طیاروں کو جنرل ایریا بھٹنڈا‘ اکھنور‘ اَونتی پور میں گرایا گیا۔ ایک مجروح بھارتی طیارہ مقبوضہ سرینگر میں گرا۔ ان طیاروں کو اس وقت گرایا گیا جب وہ پاکستان پر حملہ کرنے آ رہے تھے۔ تباہ ہونے والے بھارتی طیاروں میں تین رافیل‘ ایک مگ 29‘ ایک سخوئی شامل ہیں۔ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے بتایا کہ پاکستان نے بھارتی جارحیت کے جواب میں صرف دفاعی اقدام کیے اور جنگ میں پہل نہ کرنے کا وعدہ نبھایا۔ بھارت کے 75سے 80 طیاروں نے در اندازی کی کوشش کی تھی‘ جن طیاروں نے حملہ کیا صرف ان کو مار گرایا گیا‘ ورنہ گرنے والے طیاروں کی تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی تھی۔
بھارت کے بزدلانہ حملے کے بعد وزیراعظم ہاؤس میں قومی سلامتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں پاکستان کی مسلح افواج کو بھارت کے خلاف جوابی کارروائی کی اجازت اور مکمل اختیارات دیے گئے۔ اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ پاکستان کو اپنے دفاع کا مکمل حق حاصل ہے‘ پاکستان عالمی برادری سے بھارتی حملوں کا نوٹس لینے کا مطالبہ کرتا ہے‘ قوم اپنی افواج کی جرأت اور بروقت ردِعمل پر فخر کرتی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستا پر بھارتی حملے کو شرمناک قرار دیا ہے۔ امریکی سیکرٹری خارجہ مارکو روبیو نے بھارتی جارحیت کے بعد پاکستان اور بھارت کے قومی سلامتی کے مشیروں سے رابطہ کر کے کشیدگی کے خاتمے کے لیے بات چیت کے دروازے کھلے رکھنے پر زور دیا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ پاک بھارت جنگ جلد ختم ہو جائے گی۔ امریکہ نے پاکستان اور بھارت کے مابین صورتحال کو انتہائی سنجیدہ اور کشیدہ بھی قرار دیا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے پاکستان پر بھارتی حملوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ چینی وزارتِ خارجہ نے بھارتی حملے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے جوہری فریقین کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے پر زور دیا ہے۔ ترکیہ کا پیغام یہ ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ برطانیہ نے کہا ہے کہ وہ پاک بھارت کشیدگی کم کرانے کے لیے تیار ہے۔ جنوبی ایشیا کے اس خطے میں پیدا ہونے والے تناؤ پر دوسرے ممالک کا ردِعمل سراہے جانے کے قابل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پاک بھارت کشیدگی کم یا ختم کرنے کے لیے جتنی کوششوں کی ضرورت ہے‘ واقعی اتنی کوششیں ہو رہی ہیں؟ اگلا سوا ل یہ ہے کہ کیا بھارتی جارحیت یہیں تک محدود رہے گی اور اب آگے کچھ نہیں ہو گا؟ دونوں سوالوں کے جواب 'نہیں‘ میں آئیں گے۔ نوبت حملے اور اس کے ردِعمل تک نہیں آنے دینا چاہیے تھی۔ عالمی برادری اگر کوشش کرتی تو معاملات کو سلجھایا جا سکتا تھا۔ وجہ یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں۔ ایسی طاقتوں کے مابین روایتی لڑائی کو ایٹمی جنگ میں تبدیل ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ ایک معمولی سی غلط فہمی یا لغزش ایٹمی جنگ کے شعلوں کو ہوا دے سکتی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ عالمی برادری اپنے سفارتی تعلقات استعمال کرتے ہوئے پاک بھارت جھڑپوں کو ایک فُل سکیل جنگ میں تبدیل ہونے سے روکے۔ ایک لمحے کے لیے سوچیے کہ پاکستان اگر واقعی اڑان بھرنے والے تمام انڈین طیاروں کو تباہ کر دیتا تو کیا ہوتا؟
پاک بھارت کشیدگی کم کرنے کی اشد ضرورت ہے‘ اس میں دو آرا نہیں ہو سکتیں لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ بھارت کی جانب سے آبی جارحیت کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے اسے روکا جائے۔ ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ دریائے چناب کا پانی بند ہونے سے سیالکوٹ میں ہیڈ مرالہ بیراج میں پانی کا بہاؤ 3100کیوسک رہ گیا۔ معمول کے دنوں میں ہیڈ مرالہ بیراج میں پانی کا بہاؤ 25 ہزار کیوسک سے 30ہزار کیوسک تک رہتا ہے۔
پہلگام واقعہ رونما ہونے کے فوراً بعد جب مودی سرکار اور اس کے گودی میڈیا کی جانب سے یہ نعرہ بلند کیا گیا تھا کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کو معطل کر دے گا تو اسی وقت معلوم ہو گیا تھا کہ 'کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ‘ والا معاملہ ہے‘ یعنی پہلگام واقعہ سندھ طاس معاہدے کو سبوتاژ کرنے کے لیے مودی سرکار نے خود سٹیج کیا یا کرایا تھا۔ اب اگر وہ اپنے اس منصوبے پر اڑا رہتا ہے تو پھر جنگ کو کوئی نہیں روک سکے گا کیونکہ پاکستان نے ببانگ دہل واضح کر دیا ہے کہ اس کے حصے میں آنے والے دریاؤں کا پانی روکا گیا تو پھر وہ اپنے حق کے حصول کے لیے جو کچھ ممکن ہوا کرے گا۔
غنیم کے لیے پیغام یہ ہے کہ پہلے ہماری افواج کے ہاتھ اصول و ضوابط کے بندھن میں بندھے ہوئے تھے۔ اب حکومت نے فوج کو اجازت دے دی ہے کہ وہ جو اقدامات بھی کرنا چاہے کر سکتی ہے۔ لہٰذا اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکتی کہ اگلی بار بھی بھارت کے صرف پانچ طیارے گرائے جائیں گے‘ یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ غنیم کے لیے یہ پیغام بھی ہے کہ اگر اس نے آبی جارحیت نہ چھوڑی یعنی سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ نہ چھوڑا گیا تو پھر پاکستان جوابی کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ دشمن پر یہ تو واضح ہو ہی چکا ہو گا کہ پاکستان اگر اپنے اوپر ہونے والے حملے میں چند منٹوں میں پانچ طیارے گرا سکتا ہے تو اس کا اپنا حملہ کتنا ظالمانہ ہو سکتا ہے۔ وہ جو بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ دریائے سندھ میں ہمارا پانی بہے گا یا ان کا خون‘ تو کہیں یہ بات درست ہی ثابت نہ کرنا پڑ جائے؟
انتہائی Volatile صورتحال غماز ہے کہ معاملات کو سنبھالا نہ دیا گیا تو حالات ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ جنون نہیں Let Sanity Prevail۔