امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر جب یہ بیان جاری ہوا کہ بھارت اور پاکستان سیز فائر پر تیار ہو گئے ہیں تو سب کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ کہاں مودی کا گھمنڈ اور کہاں مودی کی سیز فائر کی التجا۔ الکتاب کا سبق یہی ہے (مفہوم) ''اے اللہ‘ تو جسے چاہتا ہے سلطنت عطا فرماتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے اور تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے‘ تمام بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے‘ بے شک تو ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے‘‘۔
دونوں ممالک کو مبارک باد دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت نے ہوش مندی اور دانش مندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ قبل ازیں پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت نے امریکہ پر پوری طرح واضح کر دیا تھا کہ بھارت نہ رُکا تو اگلا جواب اس سے بھی سخت ہو گا۔ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بھی جنگ بندی کی تصدیق کر دی ہے۔ یہ ایک اچھی پیش رفت ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے کیونکہ جھڑپوں اور میزائل و ڈرون حملوں کا سلسلہ اگر دراز ہو جاتا تو اس کا نتیجہ یقینی طور پر ایک بڑی جنگ کی صورت میں نکلتا‘ جس کو سنبھالنا پھر مشکل ہو جاتا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف پہلے ہی واضح کر چکے تھے کہ بڑی جنگ شروع ہوئی تو پھر اسے برصغیر یا جنوبی ایشیا تک محدود رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے قوم سے اپنے خطاب میں بجا طور پر مبارک باد پیش کی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا قوم سے خطاب یقینا ایک فاتح ملک کے وزیر اعظم کی تقریر تھی۔
یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ بھارت کو جنگ بندی کی طرف لانے میں پاکستان کے گزشتہ روز کیے گئے آپریشن ''بنیان مرصوص‘‘ کا بڑا ہاتھ ہے۔ پاکستان نے بھارتی مسلسل جارحیت کے جواب میں آپریشن ''بنیان مرصوص‘‘ (سیسہ پلائی ہوئی دیوار) شروع کیا تو پہلی ہی یلغار میں بھارت میں اُدھم پور‘ پٹھان کوٹ‘ آدم پور ایئر بیسز‘ کئی ایئر فیلڈز‘ براہموس سٹوریج سائٹ اور ایس 400 میزائل دفاعی نظام سمیت متعدد اہداف کو تباہ کر دیا۔ چند روز پہلے پاکستان کے عوام اور مساجد کو جن ایئر بیسز سے ٹارگٹ کیا گیا تھا‘ پہلے حملے میں فتح وَن میزائل فائر کر کے انہی اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ کارروائی بھارتی جنگی جنون کے خلاف ایک واضح پیغام ہے کہ پاکستان اپنی خود مختاری اور قومی سلامتی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ بھارت کی جانب سے پہلگام فالز فلیگ آپریشن کے بعد جھوٹے اور بے بنیاد پروپیگنڈا کی بنیاد پر پاکستان کے خلاف شروع کی گئی جارحیت کا بھارت کو کرارا جواب ملا ہے۔ بھارت کو چند روز قبل کیے گئے اپنے پہلے حملے‘ جس میں پاکستان ایئر فورس نے بھارت کے پانچ جنگی جہاز مار گرائے تھے جن میں فرانسیسی ساختہ رافیل ایئر کرافٹ بھی شامل تھے‘ کے انجام سے ہی کچھ سیکھتے ہوئے جارحیت سے باز آ جانا چاہیے تھا لیکن اس حملے کے بعد بھارت نے درجنوں کے حساب سے ڈرونز کے ساتھ پاکستان پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ گزشتہ تین روز سے بھارت ڈرون پر ڈرون پاکستان بھیج رہا ہے جنہیں پاک فوج بڑے تحمل کے ساتھ Tackleکرتی رہی۔ یہ سطور لکھے جانے تک 100کے لگ بھگ ڈرون مار گرائے جا چکے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ کشیدگی میں بھارتی ڈرون حملے اہم موضوع بنے ہیں۔ بھارت نے سات مئی 2025ء کو ''آپریشن سندور‘‘ کے تحت پاکستان اور آزاد کشمیر میں چھ مقامات پر 24فضائی حملے کیے تھے۔ تب پاکستانی فوج نے پانچ بھارتی جنگی طیارے گرا دیے‘ جن میں تین رافیل‘ ایک ایس یو 30ایم کے آئی اور ایک مگ 29 شامل ہیں۔ اگلے روز سے بھارت نے پاکستان پر ڈرونز کے حملے شروع کر دیے۔ ان حملوں کو دنیا کی پہلی ''ڈرون وار‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔
حامد میر نے اپنے ایک تجزیے میں بتایا کہ بھارت کی جانب سے ڈرون پاکستان بھیجنے کی وجہ یہ ہے کہ دو روز پہلے بھارت کا بہت زیادہ نقصان ہوا تھا‘ نا صرف پاک فضائیہ نے بھارت کے 5 طیارے مار گرائے تھے بلکہ ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارتی فوج کو شدید نقصان بھی پہنچایا تھا۔ ان شدید نقصانات کے بعد بھارت کی جانب سے اپنے طیارے پاکستان بھیجنے سے پرہیز کی جا رہی ہے۔ ڈرون کا دوسرا مقصد بے یقینی پھیلا کر قومی یکجہتی کو نشانہ بنانا تھا اور ساتھ ہی وہ پاکستان کے ایئر ڈیفنس سسٹم کو بھی چیک کرنا چاہتے تھے اور لوکیشن جاننا چاہتے تھے۔
حامد میر کی بات بھی درست ہے لیکن ایک اور حقیقت یہ ہے کہ بھارت پاکستانی افواج اور عوام کے اعصاب کا امتحان لینا چاہتا تھا جس میں وہ بری طرح ناکام ہو گیا ہے کیونکہ یہاں پاکستان میں بھارت کی جانب سے بھیجے گئے ڈرونز کو ہنسی مذاق کے طور پر لیا جا رہا تھا اور لوگ ان ڈرونز سے ڈرنے کے بجائے ان کے پیچھے بھاگتے اور ان کے گرنے کا انتظار کرتے نظر آئے۔ یہ بالکل 1965ء کی جنگ جیسا طرزِ عمل تھا۔ میں تو 1965ء تک دنیا میں وارد نہیں ہوا تھا لیکن بڑے بوڑھوں سے سنا ہے کہ تب بھی ایک دوسرے پر حملہ آور اور ایک دوسرے پر گولیاں برساتے جہازوں کو دیکھ کر چھپنے کے بجائے لوگ ان کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتے تھے یا چھتوں پر چڑھ کر ان کی لڑائی کا نظارہ کرنا شروع کر دیتے تھے۔ سابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد نے بالکل درست کہا ہے کہ بھارتی ڈرون پاکستانیوں کے لیے کھلونوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔
بہرحال اب مودی کے پاؤں اُکھڑ چکے ہیں تو پاکستان کو محض سیز فائر تک محدود نہیں ہو جانا چاہیے۔ ضروری ہے کہ پہلگام کے فالز فلیگ آپریشن کی آزادانہ تحقیقات پاکستان کی شرائط میں شامل ہوں تاکہ دنیا پر یہ واضح بلکہ ثابت کیا جا سکے کہ دہشت گرد کون ہے اور دہشت گردی کو فروغ کون دے رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی اس کی روح کے مطابق پاس داری یقینی بنانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ میں پاکستانی قیادت سے یہ التجا بھی کروں گا کہ ملک میں ایک بڑے آبی ذخیرے کی تعمیر پر بھی اسی طرح اتفاق کیا جائے جس طرح حالیہ پاک بھارت بحران کے دوران کیا گیا تھا تاکہ بھارت عالمی برادری کو اس بات پر قائل نہ کر سکے کہ پاکستان ہر سال اربوں روپے کا پانی ضائع کر دیتا ہے۔ یہی وقت ہے اس امر کو یقینی بنانے کا کہ بھارت کے ساتھ کچھ دوسرے حساب بھی برابر کر لیے جائیں تاکہ اس کی خطے میں بالا دستی کے گھناؤنے خواب کو چکنا چور کیا جا سکے۔
بھارتی قیادت کو مخاطب کیا جائے تو یہ کہوں گا کہ پاکستان اب ناقابلِ تسخیر بن چکا ہے‘ اس لیے اس کو فتح کرنے کا خواب دیکھنا بند کر دیں اور اگر مسئلہ کشمیر فی الوقت حل نہیں ہو سکتا تو بھی دونوں ملک باہمی تعاون کو بڑھائیں تاکہ اس خطے کے عوام بھی یورپ کی طرز کی ترقی کے ثمرات سے مستفیض ہو سکے۔ بھارت نے 2019ء میں پاکستان کو نیچا دکھانے کی کوشش کی اور اب 2025ء میں بھی‘ اور دونوں بار منہ کی کھائی۔ اب ایک بار پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا کر بھی دیکھ لے۔ لیکن واضح رہے کہ یہ دوستی برابری کی بنیاد پر ہو گی‘ بڑے چھوٹے کی بنیاد پر ہرگز نہیں‘ اور دلوں میں کرودھ رکھ بھی نہیں۔ دعا ہے کہ جس طرح آپریشن ''بنیان مرصوص‘‘ سے سیز فائر کا خیر برآمد ہوا‘ اسی طرح سیز فائر سے بر صغیر اور وسیع تر تناظر میں جنوبی ایشیا میں پائیدار امن‘ ہم آہنگی‘ ترقی‘ بہبود‘ بہتری اور فروغ کا خیر برآمد ہو۔ آمین!