پاک بھارت جنگ بندی ہو چکی ہے اور جنگ بندی معاہدہ کے لیے معاملات آگے بڑھ رہے ہیں‘ لیکن ابہام کے بادل ابھی چھٹے نہیں ہیں۔ افواہوں اور الزامات کی توپوں کے دہانے بھی تاحال بند نہیں ہوئے اور وجہ ہے دو روز پہلے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا اپنی قوم سے خطاب جس میں انہوں نے پہلگام واقعہ کو ظلم قرار دیا اور پاکستان پر بے بنیاد الزامات کو دہرایا۔ بھارتی وزیراعظم نے کہا: نیو نارمل یہ ہے کہ بھارت خود پر حملے کا فوری جواب دے گا‘ پانی اور خون ساتھ نہیں بہہ سکتے‘ تجارت‘ مذاکرات اور دہشت گردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر پاکستان سے مذاکرات ہوئے تو دہشت گردی کے خاتمے پر ہوں گے اور کشمیر پر بات ہو گی تو وہ آزاد جموں و کشمیر پر ہو گی‘ ایٹمی حملے کی دھمکی کی بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے۔ نریندر مودی نے یہ بیانیہ دہرایا کہ جنگ بندی پاکستان کی درخواست پر عمل میں آئی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ کارروائی وقتی طور پر روکی گئی ہے‘ ختم نہیں کی گئی۔
آئیے مودی کی تقریر کا تجزیہ کرتے ہیں۔ اس حقیقت کو پاکستان بھی تسلیم کرتا ہے کہ پہلگام فالس فلیگ آپریشن ایک ظلم تھا۔ نریندر مودی کو محض اپنی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو سہارا دینے کے لیے 26 بے گناہ اور نہتے سیاحوں کے خون سے اپنے ہاتھ نہیں رنگنے چاہئیں تھے اور پھر اس واقعہ کو بنیاد بنا کر پاکستان کو مطعون کر کے اس پر چڑھائی نہیں کرنا چاہیے تھی۔ سندھ طاس معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی دھمکی بھی نہیں دینی چاہیے تھی۔ جہاں تک نریندر مودی کی اس بات کا تعلق ہے کہ تجارت‘ مذاکرات اور دہشت گردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے تو پاکستان بھی اسی بات کا قائل ہے‘ اس لیے بھارت کو فوری طور پر افغان طالبان‘ کالعدم ٹی ٹی پی اور بلوچ لبریشن آرمی کی فنڈنگ ترک کر دینی چاہیے اور ایک اچھے ہمسائے کی طرح تمام پڑوسی ممالک سے دو طرفہ اچھے تعلقات قائم کرنے چاہئیں۔ اس بات کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ بھارت مذکورہ بالا تمام تنظیموں کو فنڈز فراہم کرتا رہا ہے اور کئی ممالک میں ماورائے قانون ٹارگٹ کلنگ کا بھی مرتکب رہا ہے جن میں پاکستان کے علاوہ کینیڈا اور امریکہ بھی شامل ہیں۔ جہاں تک نریندر مودی کے بیان کردہ نیو نارمل کا تعلق ہے تو اصلی اور حقیقی نیو نارمل اس سے مختلف ہے اور وہ یہ ہے کہ پاکستان بھارت کی جانب سے کسی بھی مِس ایڈونچر‘ کسی بھی فالس فلیگ آپریشن اور دہشت گردی کی کسی بھی کارروائی کا اسی طرح منہ توڑ جواب دے گا جیسا 10 مئی کو دیا۔ مودی کی یہ بات درست ہے کہ پانی اور خون ساتھ نہیں بہہ سکتے‘ لیکن اگر پاکستان کے دریاؤں میں پانی نہیں بہنے دیا جائے گا تو لا محالہ ان میں خون ہی بہے گا جو پاکستان کا نہیں بلکہ بھارت کا ہو گا۔ مودی کی یہ بات بھی درست ہے کہ تجارت‘ مذاکرات اور دہشت گردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے اس لیے مودی اگر پاکستان کے ساتھ اور دیگر پڑوسی ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں تو انہیں سب سے پہلے دہشت گردی ترک کرنا پڑے گی‘ دہشت گردوں کو ہر طرح کی فنڈنگ ختم کرنا پڑے گی۔
کیسی عجیب بات ہے کہ مودی کی جانب سے تمام مذکورہ ہٹ دھرمیوں کے باوجود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھارت اور پاکستان کو اپنے تنازعات کے حل کے لیے اکٹھے ڈنر کی ٹیبل پر بیٹھنے کا مشورہ دیا گیا ہے اور اس مشورے کے چند گھنٹے بعد واشنگٹن میں امریکی محکمہ خارجہ کے پرنسپل ڈپٹی ترجمان ٹومی پِگوٹ (Tommy Pigott) نے کہا ہے کہ واشنگٹن اب دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان براہِ راست رابطے کی حوصلہ افزائی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ امریکہ اس سلسلے میں کوئی تجربہ کرنا چاہتا ہے تو ضرور کر لے لیکن حقیقت یہی ہے کہ جب سے دونوں ملکوں کے مابین شملہ معاہدہ ہوا ہے دونوں ملکوں کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکا ہے۔ 1971ء کے سانحے کے بعد دو جولائی 1972ء کو طے پانے والے شملہ معاہدے میں جہاں جموں و کشمیر میں جنگ بندی کی لائن کو ''کنٹرول لائن‘‘ کے طور پر دوبارہ بیان کیا گیا جسے یکطرفہ طور پر تبدیل نہ کرنے کا دونوں فریقوں نے عہد کیا‘ اور بھارت نے پاکستانی جنگی قیدیوں کو رہا کرنے پر اتفاق کیا۔ وہاں دونوں ممالک نے تنازعات کو دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر بھی اتفاق کیا تھا‘ اور طے پایا تھا کہ اس عمل میں کسی تیسری پارٹی کو شامل نہیں کیا جائے گا۔ جہاں اختلافات اتنے شدید ہوں کہ نوبت ایک دوسرے پر حملوں تک پہنچ جاتی ہو اور جہاں دِلوں کے میل اس قدر زیادہ اور کدورتیں اس قدر گہری ہوں کہ جنگ بندی کے باوجود نریندر مودی علی الاعلان یہ کہیں کہ آپریشن سندور کے تحت کارروائی وقتی طور پر روکی گئی ہے اور ختم نہیں کی گئی‘ وہاں ایسے امکانات کی کرن کیسے روشن ہو سکتی ہے جن میں ایک خطے کے سبھی ممالک امن کے ساتھ رہ سکیں؟ حالات یہ ہیں کہ بھارت کی ہندو انتہا پسند جماعت بی جے پی کے سینئر رہنما اور ریاست مدھیہ پردیش کے وزیر وجے شاہ نے بھارتی فوج کی جانب سے پاکستان کے خلاف شروع کیے گئے آپریشن سندور کی تفصیلات سے میڈیا کو آگاہ کرنے والی مسلم فوجی کرنل صوفیہ قریشی کو ہی دہشت گردوں کی صف میں لاکھڑا کیا ہے‘ اور امریکی انتظامیہ مشورہ دے رہی ہے دونوں ایٹمی طاقتوں کے مابین براہِ راست رابطے کا۔ جناب ایسا ممکن نہیں ہے۔ مسئلہ کشمیر حل کرنا یا کرانا ہے تو دنیا کی بڑی طاقتوں کو ثالث بننا پڑے گا‘ بصورت دیگر اقوام متحدہ کی کشمیر سے متعلق قراردادوں کو ری ایکٹویٹ (Reactivate) کرنا پڑے گا۔
برِ صغیر کے آسمان سے جنگ کے بادل ابھی چھٹے نہیں ہیں اور بھارتی قیادت کی انتہا پسندانہ سوچ کے ہوتے ہوئے چھٹیں گے بھی نہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اگر واقعی پاکستان اور بھارت کو امن اور سکون کے ساتھ رہتے دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں جنگ بندی کا جلد از جلد معاہدہ کرنا ہو گا اور اس معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد یقینی بھی بنانا ہو گا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بھارت ایک بڑا اور وسیع ملک ہے اور اس کی مارکیٹ بھی خاصی پھیلی ہوئی ہے‘ لیکن اگر روئے ارض پر انسان کا مستقبل ہی داؤ پر لگ جائے تو ایسی بڑی مارکیٹ اور اس سے ہونے والی کمائی کا کیا فائدہ؟ معیشت کا خیال ضرور رکھیں لیکن اہمیت انسانیت کو ملنی چاہیے۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق 2026ء تک پاکستان میں شرح غربت 40فیصدرہنے کا اندیشہ ہے جبکہ 2024ء کے دوران پاکستان میں غربت کی شرح میں سات فیصد اضافہ ہوا۔ اور ورلڈ بینک کی ہی ایک اور رپورٹ کے مطابق بھارت میں 12 کروڑ 90 لاکھ (129 ملین) افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ یعنی وہ روزانہ 2.15ڈالر یا 181بھارتی روپے سے بھی کم کما پا رہے ہیں اور یہ اتنے پیسے نہیں کہ ان سے زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کی جا سکیں۔ اس لیے بھارتی قیادت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور جنگ مکمل بند ہونے دینی چاہیے۔ جنگیں بند ہوں گی اور مخاصمتیں کم ہوں گی تو عوام کی ترقی اور بہبود کے بارے میں سوچا جا سکے گا۔