پاکستان سے شکست فاش کھانے کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی قوم کو دلاسا دینے کے لیے خطاب کیا تو اس میں کہا کہ بھارت جوہری حملے کی دھمکی سے بلیک میل نہیں ہو گا۔ نریندر مودی نے اپنے خطاب میں نیو نارمل (New Normal) کا لفظ بھی استعمال کیا۔ انہوں نے بھارتی قوم کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے کہا: نیو نارمل یہ ہے کہ بھارت خود پر حملے کا فوری جواب دے گا‘ پانی اور خون ساتھ نہیں بہہ سکتے‘ تجارت‘ مذاکرات اور دہشت گردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔
سب سے پہلے یہ بتا دوں کہ نیو نارمل کیا ہوتا ہے پھر آگے بات کریں گے کہ اصل نیو نارمل کیا ہے۔ نیو نارمل کسی معاشرے کی اس صورتحال کو کہتے ہیں جس میں وہ کسی بحران یا کرائسز کے بعد ہوتا ہے اور یہ نئی صورتحال پرانی صورتحال یعنی بحران سے پہلے والی صورتحال سے مختلف ہو۔ غالباً نریندر مودی یہ کہنا چاہتے تھے کہ جو کبھی دھمکی ہوا کرتی تھی وہ اب ڈاکٹرائن یعنی نظریہ بن چکا ہے لیکن وہ یہ بات واضح نہیں کر پائے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے پر جو حملے کیے ہیں ان کے نتیجے میں نیا توازن پیدا ہوا ہے اور یہی اس وقت کا نیو نارمل ہے۔ بھارتی وزیراعظم کا دعویٰ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف نئی لکیر کھینچ دی گئی ہے‘ ایک نیا معیار قائم کیا گیا جو نیو نارمل ہے۔ یہ بات مانی جا سکتی ہے کہ برصغیر کی معیشت اور معاشرت اس وقت ایک نیو نارمل حالت میں ہو لیکن ضروری نہیں کہ پاکستان اور بھارت کا نیو نارمل ایک ہو۔ ہمارا نیو نارمل یہ ہے کہ ہم نے اپنے دیرینہ اور سب سے بڑے دشمن کو اس کے مِس ایڈونچر پر ناکوں چنے چبوائے ہیں اور آئندہ بھی جب کبھی اس کی جانب سے پاک سرزمین پر ناپاک عزائم کے ساتھ یلغار کی جائے گی‘ اس کی اس سے بھی بری حالت کی جائے گی۔ ہمارا نیو نارمل یہ ہے کہ پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی یا پیدا کی گئی صورتحال نے اس خطے میں ایک نیا بیلنس آف پاور قائم کیا ہے جو پاکستان کے حق میں ہے‘ اور اس تناظر میں بھارت کے تمام پڑوسی ممالک کے حق میں۔ بھارتی قیادت کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ طاقت کے اس نئے توازن کو تسلیم کرے اور خود کو پاکستان اور خطے کے دوسرے ممالک سے بلند اور برتر سمجھنا ترک کر دے۔ پاکستان کی یہ نئی پوزیشن‘ بھارتی فالس فلیگ آپریشن کے نتیجے میں پیدا ہونے والا نیا توازن اس خطے کے دوسرے بھارت سے چھوٹے اور کمزور ممالک کے لیے بھی ایک نیو نارمل ہے۔
پاکستان کا نیو نارمل یہ ہے کہ اس نے نہ تو پہلے کبھی بھارت کی بالا دستی قبول کی اور اب تو بالکل ہی نہیں کرے گا۔ بھارت اسلحے کے جو ڈھیر جمع کر رہا ہے وہ اس کے کسی کام نہیں آئیں گے اور ایک دن خود اسی کی تباہی کا باعث بنیں گے۔ اس کے برعکس اگر مودی سرکار اور اس کے بعد آنے والی بھارت کی حکومتیں پاکستان سمیت اپنے تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کریں تو اس خطے کو ترقی کی اسی معراج تک پہنچایا جا سکتا ہے جہاں آج یورپی یونین‘ برطانیہ اور امریکہ ہیں۔
آج کا نیو نارمل یہ ہے کہ اروناچل پردیش کے کئی علاقے چین کے ہیں جن پر بھارت نے ناجائز قبضہ جما رکھا ہے اور جیسا کہ چین نے نا صرف اروناچل پردیش کا نام تبدیل کر دیا ہے بلکہ اس کے کئی علاقوں کے نام بھی از سر نو رکھے ہیں‘ تو بھارت کو جان جانا چاہیے کہ اسے یہ ناجائز قبضہ بھی ایک نہ ایک دن ختم کرنا پڑے گا۔
آج کا نیو نارمل یہ ہے کہ پاک بھارت چپقلش کے دوران پاکستان کے تو کئی حامی اور دوست ممالک سامنے آئے اور انہوں نے کھل کر پاکستان کی حمایت کی لیکن بھارت کے حق میں پڑوس کے کسی ملک کی جانب سے بھی کوئی میسج سامنے نہیں آیا‘ حتیٰ کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی آئی فون بنانے والی کمپنی کو بھارت میں اپنا کاروبار ختم کرنے کے لیے کہا ہے۔ خبر یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے آئی موبائل فون بنانے والی کمپنی سے بھارت میں اپنے فون تیار نہ کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ امریکی صدر کے مطابق انہوں نے اس کمپنی کے چیف ایگزیکٹو ٹم کک سے کہا ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ ٹیکنالوجی کمپنی اپنی پروڈکٹس بھارت میں تیار کرے۔ یہ اس لیے ہو رہا ہے کہ امریکی صدر کو بھی بھارتی حکومت پر اعتبار نہیں رہا چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ آج کا نیو نارمل بھارت کی عالمی برادری میں تنہائی ہے۔ یاد رہے کہ اس موبائل کمپنی کے بھارت سے نکل جانے سے مودی حکومت 500ارب روپے کی سرمایہ کاری سے محروم ہو جائے گی۔ ویسے آپ نے سوچا کہ ڈونلڈ ٹرمپ تو مودی کے بڑے حامی ہوا کرتے تھے‘ اب یک دم ان کے خلاف کیسے ہو گئے ہیں؟
اپنا ٹی وی شو کنڈکٹ کرتے ہوئے جو مختلف نقطہ ہائے نظر میرے سامنے آئے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ بھارت پاکستان کے خلاف جارحیت کا جو مظاہرہ کر رہا ہے اس کا نشانہ دراصل پاکستان نہیں بلکہ چین ہے۔ تو بھارت اگر چین کے خلاف اقدامات کر رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کو کہیں سے اس سلسلے میں ہلا شیری تو ملی ہو گی‘ اور یہ ہلا شیری امریکہ کے سوا کس کی ہو سکتی ہے؟ چنانچہ عین ممکن ہے کہ پہلگام ڈرامہ صحیح طریقے سے سٹیج نہ کرنے پر ڈونلڈ ٹرمپ مودی سرکار سے خائف ہو گئے ہوں۔ بہرحال اس بارے میں وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ یہ فی الحال ایک تھیوری ہے۔ محض ایک سوچ۔ آگے معاملات کیا رُخ اختیار کرتے ہیں‘ اسی سے ثابت ہو سکے گا کہ یہ تھیوری کتنی درست ہے اور کتنی غلط‘ لیکن چین کی جانب سے پاک بھارت کشیدگی کے دوران ہی اروناچل پردیش کے حوالے سے بڑے اور ٹھوس فیصلے کرنا ظاہر کرتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ گڑبڑ تو ضرور ہے۔ پہلگام ڈرامے کے تناظر میں اصل نشانہ چین کو بنانے کی تھیوری کہیں درست تو نہیں؟
ایک انٹرویو کے دوران بھارت کے سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا نے کہا ہے کہ آپریشن سندور ناکام ہو چکا ہے اور امریکی صدر کے سامنے بھارتی وزیراعظم نے سرینڈر کر دیا تھا۔ انہوں نے آپریشن سندور میں ناکامی کو مودی کے کیریئر کا سب سے بڑا دھبہ قرار دیا۔ مودی اگر چاہیں تو اسے بھی ایک نیو نارمل سمجھ لیں۔
مودی نے اپنی قوم سے خطاب میں ایک بار بھی رافیل طیاروں کا ذکر نہیں کیا۔ کیا کوئی وجہ بتا سکتا ہے؟ رافیل طیارے مکمل طور پر فیل ہوئے تھے‘ اس لیے ان کے ذکر کی گنجائش بنتی نہیں تھی البتہ مودی باقی معاملات پر بڑی بڑی بڑھکیں ضرور مارتے رہے۔ جب یہ طیارے خریدے گئے تھے تو انہیں 'بگ برڈز‘ کا نام دیا گیا تھا۔ یہ بگ برڈز اُڑنے سے پہلے ہی ٹھس ہو گئے۔ مودی اس پر بات کرتے تو کیا کرتے؟ آج کا نیو نارمل یہ ہے کہ دس برسوں میں پہلی بار مودی کی بھارتی پاور پولیٹکس پر گرفت کمزور ہوئی ہے اور ان کی اپنی پارٹی کے لوگ‘ ان کے اپنے فالورز ان پر تنقید کر رہے ہیں اور ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سوال اٹھا رہے ہیں۔ اور تو اور بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر سے بھی مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں بھارت کے اندر اور عالمی سطح پر بھی مودی پر ہونے والی تنقید میں اضافہ ہو گا‘ اس میں کمی نہیں آئے گی اور ان سے جس انداز میں مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے‘ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انہیں سیاست سے آئوٹ ہونا پڑ جائے۔ ایسا ہوا تو یہ ایک نیا نیو نارمل ہو گا۔