کسے معلوم تھا کہ مئی کا مہینہ پاکستان کی تاریخ میں اتنی اہمیت اختیار کر جائے گا کہ اس میں ہمیں بہت سے دن قومی دن کے طور پر منانا پڑیں گے اور بہت سے دنوں کو افسوس اور تاسف کے ساتھ یاد کرنا پڑے گا۔
شروع کرتے ہیں ماہِ رواں پیش آنے والے معرکۂ حق سے۔ بھارتی حکومت نے 22اپریل 2025ء کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر ہونے والے ایک حملے کا الزام‘ یہ سانحہ رونما ہونے کے چند منٹ بعد ہی پاکستان پر عائد کر دیا اور اس پروپیگنڈا کو بنیاد بنا کر یکطرفہ اقدامات کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا‘ جبکہ بھارت میں موجود پاکستانی شہریوں کو حکم دیا گیا کہ وہ ملک سے نکل جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارتی حکمرانوں نے پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دیں۔ پاکستان کی جانب سے ان بھارتی اقدامات کا فوری جواب دیا گیا اور پاکستان میں موجود بھارتی شہریوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ بھارت کے ساتھ تجارت فوری معطل کر دی گئی اور واضح کیا کہ اگر سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاؤں کا پانی بند کیا گیا تو جنگ کے سوا کوئی چارہ نہ بچے گا۔ بھارت کی جانب سے معاملہ دھمکیوں تک ہی محدود نہ رہا بلکہ اس نے چھ اور سات مئی کی درمیانی شب پاکستان کے چھ مختلف مقامات پر 24 حملے کیے جن کے نتیجے میں درجنوں معصوم شہری شہید ہوئے۔ زخمیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی۔ پاکستان بھارت کی جانب سے ایسی شر انگیزی کے لیے بالکل تیار تھا؛ چنانچہ اس نے فوری جوابی کارروائی کرتے ہوئے دشمن کے چھ جہاز تباہ کر دیے جن میں وہ مشہورِ زمانہ رافیل طیارے بھی موجود تھے جن پر بھارت کو بڑا ناز تھا اور جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ رافیل طیاروں نے برصغیر میں فضائی طاقت کا توازن تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ اگلے روز بھارت نے پاکستان پر ڈرونز کے ذریعے حملہ کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ بھارت نے ڈرونز پاکستانیوں کو خوفزدہ کرنے‘ مشتعل کرنے اور پاکستان کی تیاریوں کا جائزہ لینے کے لیے بھیجے تھے۔ زیادہ تر ڈرون گرا دیے گئے۔ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے نو مئی کے روز بتایا کہ لاہور‘ راولپنڈی‘ کراچی‘ گوجرانوالہ سمیت مختلف شہروں میں دراندازی کرنے والے 30 بھارتی ڈرون گرا دیے گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اسرائیلی ساختہ ہیروپ ڈرون کے حملوں میں تین معصوم شہریوں کی شہادت ہوئی‘ چار جوان زخمی ہوئے۔ اس سے ثابت ہوا کہ پاکستان پر حملے کے سلسلے میں بھارت کو اسرائیل کی مکمل تائید و حمایت حاصل تھی۔ بھارت کی جانب سے پاکستان بھیجے جانے والے کل ڈرونز کی تعداد ایک سو کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔
پاکستان کی جانب سے بھارت کے اس جارحانہ اور اشتعال انگیز اقدام کا منہ توڑ جواب دینے کی تیاریاں جاری تھیں کہ 9 اور 10 مئی کی درمیانی رات بھارت نے ایک بار پھر پاکستان پر حملہ کیا اور پاکستان کی ایئر بیسز کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جسے ناکام بنا دیا گیا۔ اس مقصد کے لیے جوابی کارروائی کی تیاریاں پہلے ہی مکمل کی جا چکی تھیں؛ چنانچہ جب دیکھا گیا کہ بھارت کی جارحیت رکنے میں نہیں آ رہی تو 10مئی کی صبح نمازِ فجر کے بعد آپریشن 'بنیانٌ مرصوص‘ کے تحت پاک فوج نے بھارتی فورسز اور فوجی اڈوں کا وہ حشر کیا کہ انڈیا والے رہتی دنیا تک اسے یاد رکھیں گے۔ اس آپریشن کے تحت بھارت کے اندر فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ پاک فضائیہ نے بھارت کے اندر کارروائی کی اور دشمن کو بھاری نقصان پہنچایا۔ بھارت کا اینٹی ایئر کرافٹ سسٹم S-400 تباہ کر دیا گیا جبکہ انٹرنیٹ کے تحت مختلف اہم دفاعی تنصیبات کو ہیک کر کے جام کر دیا گیا تھا۔ دشمن کو پتا ہی نہ چل سکا کہ حملہ ہو گیا ہے۔ پاکستان کے میزائلوں نے دشمن کو بے خبری میں جا لیا۔ یاد رہے کہ پہلگام سانحہ کو ایک مہینے سے زیادہ وقت گزر جانے کے باوجود اس کے آفٹر شاکش تا حال جاری ہیں۔ یہ واقعہ اتنا اہم ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اعلان کیا کہ اب ہر سال 10مئی کو یوم معرکۂ حق کے طور پر منایا جائے گا۔
آج سے 27سال قبل پاکستان نے 1998ء میں بلوچستان کے علاقے چاغی کے پہاڑوں میں پانچ دھماکے کیے تھے۔ مجھے یاد ہے وہ 28مئی تھا‘ جمعرات کا دن اور سخت گرمی کا موسم۔ پاکستان نے سہ پہر 3:40 پر یکے بعد دیگرے پانچ ایٹمی دھماکے کرکے ہمسایہ ملک بھارت کی برتری کا غرور خاک میں ملا دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان ایٹمی صلاحیت کا حامل دنیا کا ساتواں اور عالم اسلام کا پہلا ملک بن گیا تھا۔ اس سے پہلے 11اور 13 مئی 1998ء کو بھارت نے پانچ ایٹمی دھماکے کر کے اپنے ایٹمی طاقت ہونے کا اعلان کیا تھا۔ بھارت نے ان ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کی سلامتی اور آزادی کے لیے خطرات پیدا کر دیے تھے اور جنوبی ایشیا خصوصاً برصغیر میں طاقت کا توازن تبدیل ہونے سے بھارت کے جارحانہ عزائم کی تکمیل کی راہ ہموار ہو گئی تھی۔ آج بھی کچھ لوگ اس خیال کے حامل ہیں کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو ایٹمی دھماکے نہیں کرنے چاہئیں تھے‘ لیکن اگر بھارتی انتہا پسند حکمران ایٹمی صلاحیت ہونے کے باوجود پاکستان کو مطعون کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان ایٹمی طاقت نہ ہوتا تو اس کا کیا حشر کیا جا چکا ہوتا۔ آج جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں تو 28 مئی کا ہی دن ہے اور قوم 28واں یومِ تکبیر پورے ولولے اور جوش کے ساتھ منا رہی ہے۔
پھر 2007ء کا 12 مئی بھی یاد رکھنے کا دن ہے۔ اُس روز ملک کے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو سندھ ہائیکورٹ میں وکلا سے خطاب کرنا تھا۔ اسی مقصد کے لیے وہ کراچی پہنچے تھے۔ اس دن ان کی کراچی آمد کے موقع پر شہر قائد میں جلاؤ گھیراؤ اور فائرنگ کے متعدد واقعات رونما ہوئے جن کے نتیجے میں 50 سے زائد معصوم شہری اپنی جانیں گنوا بیٹھے تھے۔ وکلا تحریک کے نتیجے میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری تو اپنی سیٹ پر بحال ہو گئے لیکن اس بحالی مہم کے دوران بہنے والا خون لوگ اب تک نہیں بھولے ہیں۔ ان بے گناہ شہریوں کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ انصاف کے طلب گار تھے۔
نو مئی 2023ء کا دن بھی بھولنے والا نہیں ہے۔ اُس روز پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو مالی بد عنوانی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تو ان کی سیاسی جماعت کے کارکنوں کی جانب سے ملک کے مختلف شہروں میں بہت سی ایسی تنصیبات اور عمارات پر حملے کیے گئے جو فوج کی ملکیت تھیں یا ان کی حیثیت غیرفوجی املاک کی تھی۔ ان پُرتشدد واقعات میں کم ا زکم آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ نو مئی کے واقعات کے دوران فوجی تنصیبات پر حملوں کو سب سے بڑا چیلنج قرار دیا گیا تھا۔ اسی پس منظر میں پارٹی رہنما عمران خان کو ان خونریز واقعات کے سلسلے میں دہشت گردی کے الزامات کا سامنا ہے۔ پی ٹی آئی کے کئی کارکنوں اور حامیوں کو نو مئی کے کیسز میں سزائیں مل چکی ہیں جبکہ باقیوں کے مقدمات جاری ہیں۔