"IYC" (space) message & send to 7575

غزہ کے ہولوکاسٹ کا ذمہ دار کون؟

اقوام متحدہ کے لیے فلسطین کے سفیر ریاض منصور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سامنے غزہ میں بچوں کی ناقابلِ برداشت تکلیف کا ذکر کرتے ہوئے رو پڑے۔ دوسری جانب مشرق وسطیٰ کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی کوآرڈینیٹر سگرید کاگ (Sigrid Agnes Maria Kaag) نے سلامتی کونسل کو بتایا ہے کہ جب سے غزہ میں جھڑپیں دوبارہ شروع ہوئیں ہیں وہاں عام شہریوں کی پہلے سے نہایت خراب حالت مزید تباہی کی جانب جا رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ غزہ کا صحت کا نظام ایک مسلسل فوجی مہم کے ذریعے منظم طریقے سے تباہ کیا جا رہا ہے‘ موت فلسطینیوں کی ساتھی بن چکی ہے اور اب جو امداد آ رہی ہے وہ جہاز ڈوبنے کے بعد دی گئی لائف بوٹ کے برابر ہے۔ کاگ نے خبردار کیا کہ مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن اسرائیل فلسطین تنازع کے حل کے بغیر ممکن نہیں۔
دنیا کا کوئی ایسا فرد بتا دیں جسے درج بالا سطور کی حقیقتوں کا علم نہ ہو۔ کیا دنیا اسرائیل کی حقیقت سے واقف نہیں؟ کیا دنیا اس بات سے آگاہ نہیں ہے کہ اسرائیل جہاں قائم کیا گیا تھا‘ یہودیوں نے اس سے آگے کے علاقوں پر قبضہ کیا اور کرتے ہی چلے گئے۔ فلسطینی زمین پر یہودی بستیاں بسائی جا رہی ہیں اور یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس جارحانہ توسیع پسندی کو کیا نام دیا جائے؟ جب فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل نامی ریاست قائم کی گئی تھی تو کسی نے سوچا تھا کہ وہاں کے مقامی باشندوں یعنی فلسطینیوں کا کیا بنے گا؟ وہ کہاں جائیں گے؟ کس حال میں رہیں گے؟ اسرائیل نامی ریاست قائم کرنے والوں نے کبھی یہ سوچا تھا کہ اگر ان کے ملک‘ ان کی اپنی ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ایک میں ایک نئی ریاست قائم کر دی جائے تو اس کے جذبات اور ان کی سوچیں کیا ہوں گی؟ اور اگر فلسطینی سرزمین پر اسرائیل نامی ریاست قائم کر ہی دی گئی تھی تو اس کو مقرر کی گئی حدود کے اندر رکھنے کی ذمہ داری کس کی تھی؟
جب بھی اسرائیل کے قیام کی بات ہوتی ہے ہولو کاسٹ کا ذکر ضرور کیا جاتا ہے۔ ہولو کاسٹ انسائیکلوپیڈیا میں لکھا ہے کہ ہولو کاسٹ سے پہلے یورپی یہودیوں نے کئی صدیوں کی سام دشمنی (یہودی روایات کے مطابق حضرت نوحؑ اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر جہاز بناتے ہیں اور وہ اور ان کے بیٹے اپنی بیویوں کے ساتھ جہاز میں چڑھتے ہیں اور طوفان سے بچ جاتے ہیں۔ جو سب سے اچھا اور نیک بیٹا تھا وہ سام تھا جس سے تمام یہودی ہیں) کو برداشت کیا تھا۔ یورپ بھر میں حکومتوں اور گرجا گھروں نے یہودیوں پر پابندیاں عائد کر رکھی تھیں۔ مثال کے طور پر انہوں نے یہودیوں کو زمین کے مالک بننے سے روک دیا اور یہ بھی محدود کر دیا کہ وہ کہاں رہ سکتے ہیں اور کون سی ملازمتیں کر سکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہولوکاسٹ کے دوران نازیوں اور ان کے اتحادیوں نے چھ ملین (60 لاکھ) یہودی مردوں‘ خواتین اور بچوں کو قتل کیا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نسل کشی‘ جسے ہولوکاسٹ کا نام دیا جاتا ہے‘ کے بعد ہی بچ جانے والے یہودیوں نے محسوس کیا کہ انہیں اپنے ملک کی ضرورت ہے جہاں وہ حفاظت اور آزادی کے ساتھ رہ سکیں۔
مئی 1948ء میں جب اسرائیلی ریاست کا قیام عمل میں آیا تو ہولوکاسٹ سے بچ جانے والے بہت سے یہودیوں نے اس کا ایک ایسے وطن کے طور پر خیرمقدم کیا جہاں وہ اب ایک کمزور اقلیت کے طور نہیں رہیں گے‘ لیکن کسی نے بھی یہ نہیں سوچا ہو گا کہ ایک روز فلسطینی والے خود اپنے ملک میں ایک کمزور اور بے بس اقلیت بن کر رہ جائیں گے۔ پھر یہودیوں کے قتلِ عام پر ان کے ساتھ ہمدردی کرنے والوں اور ان کے لیے الگ وطن کے قیام میں ان کی مدد کرنے والوں نے یہ بھی نہیں سوچا ہو گا کہ آخر وہ کون سی وجوہات تھیں جن کی بنا پر یہودیوں کا قتلِ عام ہوا؟ دنیا میں دیگر درجنوں مذاہب کے کروڑوں لوگ رہتے ہیں۔ ان کا اس طرح قتلِ عام کیوں نہیں ہوا؟ پھر اس حقیقت کو کیسے تسلیم کر لیا جائے کہ صدیوں سام دشمنی کرنے والوں نے ہی یہودیوں کو ایک الگ وطن کے قیام میں مدد فراہم کی۔
ان سوالات کے جواب اگر آج کا عالمی معاشرہ نہ دے سکا تو تاریخ دے گی۔ تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیویٹ نے جمعرات کو بتایا تھا کہ اسرائیل نے غزہ کے لیے امریکہ کی تازہ ترین جنگ بندی کی تجویز پر دستخط کر دیے ہیں‘ جس کے بعد نئی تجویز فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس کو بھیجی گئی۔ حماس نے اس کے ردِعمل میں کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے منظور کردہ جنگ بندی کی امریکی تجاویز اس کے مطالبات پر پورا نہیں اُترتیں۔ حماس کے سینئر رہنما سمیع ابو زہری کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کی شرائط اسرائیلی مؤقف کی عکاسی کرتی ہیں اور ان میں جنگ کے خاتمے‘ اسرائیلی افواج کی واپسی یا امداد کی فراہمی جیسے حماس کے مطالبات کی کوئی ضمانت شامل نہیں ہے۔ حماس کے سیاسی بیورو کے رکن باسم نعیم نے کہا کہ نئے مسودے کا مطلب قتل و قحط کا سلسلہ جاری رکھنا ہے۔ پتا چلا ہے کہ امریکی تجویز کے ابتدائی مرحلے میں 60دن کی جنگ بندی اور غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی شامل ہے‘ اور اس کے پہلے ہفتے کے دوران فلسطینی قیدیوں کے بدلے 10زندہ یرغمالیوں اور 9لاشوں کی رہائی شامل ہے۔ تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ اسرائیل نے حماس کو دھمکی دی ہے کہ وہ پیش کردہ جنگ بندی تجاویز تسلیم کرے بصورت دیگر اسے نیست و نابود کر دیا جائے گا۔
سب سے پہلے تو 'جنگ بندی‘ کے لفظ پر ہنسی آ جاتی ہے کیونکہ جنگ بندی اس سے پہلے بھی ہوئی تھی اور اس کی جتنی پاسداری اسرائیل نے کی وہ سب کے سامنے ہے۔ مجھے یاد ہے اور اگر دنیا کمزور یادداشت کی مالک نہیں تو اسے بھی یاد ہو گا کہ رواں برس 19جنوری کو جنگ بندی ہوئی تھی تو اہلِ غزہ نے اپنوں کی ہزاروں شہادتوں کو بھلا کر جشن منایا تھا۔ پھر جب رمضان کا مہینہ آیا تو اہلِ غزہ نے اپنی کبھی عالیشان رہائشی عمارتوں کے ملبے پر افطاریوں کا اہتمام کرکے دنیا کو دکھایا تھا کہ وہ ایک غیور‘ غیرت مند اور حوصلہ مند قوم ہیں۔ عیدالفطر پر بھی اہلِ فلسطین نے اپنے چھلکتے آنسوؤں اور بہتے زخموں کے کرب کو چھپا کر جشن منایا تھا۔ یہ سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ چند ہفتے پہلے جنگ بندی کا جشن منانے والوں میں سے ہزاروں اب اس دنیا میں موجود نہیں ہیں۔ شہید کر دیے گئے۔ تو جناب کیسی تجاویز اور کیسی جنگ بندی؟ پورا غزہ ملبے کا ڈھیر بن گیا۔ 54ہزار سے زیادہ نہتے مسلمان اسرائیلی فوج کے بموں اور میزائلوں کا نشانہ بن گئے۔ دنیا غزہ کے رستے زخموں کو دیکھتی رہی لیکن ان کی اشک شوئی کو آگے نہ بڑھ سکی۔ اب وہ جنگ بندی کی تجاویز پیش کر رہے ہیں جو اسرائیل کو گولہ و بارود فراہم کرتے رہے اور ہر حملے کے بعد اس کی ہلہ شیری کرتے رہے۔ جنگ بندی؟ کیسی جنگ بندی؟ غزہ میں اب بچا ہی کیا ہے جسے بچانے کے لیے جنگ بندی کی جائے گی اور وہ بھی یہودیوں کی شرائط پر؟ حماس پیش کردہ تجاویز کا جائزہ لے رہی ہے اور وہی جنگ بندی پر راضی ہونے یا نہ ہونے کا حتمی فیصلہ کرے گی‘ لیکن جنگ بندی ہو یا نہ ہو‘ غزہ کے باقی نفوس زندہ رہیں یا نہ رہیں‘ ایک بات طے ہے کہ تاریخ جب بھی ہولوکاسٹ کا ذکر کرے گی تو دو ہولوکاسٹ کا ذکر ہو گا۔ ایک وہ جو مسیحیوں کے ہاتھوں یہودیوں کا ہوا اور دوسرا وہ جو یہودیوں کے ہاتھوں غزہ کے مسلمانوں کا ہوا۔ تاریخ اور کچھ کرے یا نہ کرے‘ یہ ضرور سوچے گی کہ جب غزہ کو تباہ و برباد کیا جا رہا تھا تو اس دوران امن پسند کہاں تھے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں