"IYC" (space) message & send to 7575

غزہ کے ہولو کاسٹ کا ذمہ دار کون؟ … (2)

یہودی ہولوکاسٹ کا ذکر کرتے ہوئے خود کو بڑا مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ دغا بازی‘ فریب‘ جھوٹ‘ وعدہ خلافی اور ظلم اس قوم کا وتیرہ ہے۔ انسان تو انسان یہودیوں نے تو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کی قدر بھی نہ کی اور اس کے ساتھ بھی وعدہ خلافی کرتے رہے۔ یہ وہ قوم ہے اللہ تعالیٰ نے جس پر بہت سے انعامات کیے لیکن ہر بار یہ لوگ اپنی باتوں‘ اپنے وعدوں سے پھر جاتے رہے۔ لا ریب قرآن پاک کلام اللہ ہے اور لا ریب تمام کائناتوں کا مالک سچا ہے۔ سورۃ البقرہ (آیات: 49 تا 52) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (معنی و مفہوم) اور جب ہم نے تمہیں (یہودیوں کو) فرعونیوں سے نجات دی جو تمہیں بدترین عذاب دیتے تھے جو تمہارے لڑکوں کو مار ڈالتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو چھوڑ دیتے تھے‘ اس نجات دینے میں تمہارے رب کی بڑی مہربانی تھی۔ اور جب ہم نے تمہارے لیے دریا چیر (پھاڑ) دیا اور تمہیں اس سے پار کر دیا اور فرعونیوں کو تمہاری نظروں کے سامنے اس میں ڈبو دیا۔ اور ہم نے (حضرت) موسیٰ سے 40راتوں کا وعدہ کیا‘ پھر تم نے اس کے بعد بچھڑا پوجنا شروع کر دیا اور ظالم بن گئے لیکن ہم نے باوجود اس کے تمہیں معاف کر دیا‘ تاکہ تم شکر کرو۔
اسی سورۃ میں ارشاد ہوا: (مفہوم) اور جب تم نے کہا اے موسیٰ! ہم سے ایک ہی قسم کے کھانے پر ہرگز صبر نہ ہو سکے گا‘ اس لیے اپنے رب سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں زمین کی پیداوار ساگ‘ ککڑی‘ گیہوں‘ مسور اور پیاز دے۔ آپؑ نے فرمایا: بہتر چیز کے بدلے ادنیٰ چیز کیوں طلب کرتے ہو؟ اچھا شہر میں جاؤ وہاں تمہاری چاہت کی یہ سب چیزیں ملیں گی۔ ان پر ذلت اور مسکینی ڈال دی گئی اور اللہ تعالیٰ کا غضب لے کر وہ لوٹے‘ یہ اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے تھے اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے‘ یہ ان کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا نتیجہ ہے۔
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو اللہ کا پیغام سناتے تھے تو وہ اس پر فضول استفسار اور بحث کرتے تھے‘ اللہ کے پیغمبر کے ساتھ ضد بازی کرتے تھے اور ان سے اپنی بے جا باتیں منواتے تھے۔ یہی وہ قوم ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابوں میں تحریف کی اور ان کے معنی تبدیل کرنے کی مذموم کوشش کی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب انہیں کسی مہم پر جانے کا کہتے تو وہ بزدلی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ یہ وہ قوم ہے جس نے تفرقہ بازی پیدا کی اور لوگوں کو آپس میں لڑایا۔ نبیوں کو قتل کرنے والی یہودی قوم اللہ تعالیٰ کے ساتھ بے ادبی کرتی رہی۔ جھوٹ بولنا اور سود کھانا یہودیوں کی خصلت بن چکا تھا جبکہ دھوکہ اور خیانت ان کی روزمرہ زندگی میں عام تھا۔ یہودیوں کے دل غرور اور تکبر سے بھرے ہوئے اور پتھر سے زیادہ سخت تھے‘ اور اب بھی ہیں جس کا اندازہ گزشتہ پونے دو برسوں سے غزہ میں جاری کارروائیوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ فلسطین کے سرکاری میڈیا آفس کی امسال مارچ میں جاری ہونے والی تفصیلات کے مطابق ڈیڑھ سال کے عرصے میں غزہ میں 61ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں سے 47ہزار 487ہسپتالوں میں لائے گئے جبکہ 14ہزار 222شہدا ملبے تلے دبے ہیں یا سڑکوں پر لا پتا ہیں۔ زخمیوں کی تعداد ایک لاکھ 11ہزار 558سے تجاوز کر چکی ہے۔ قابض یہودیوں کے ہاتھوں گرفتار ہونے والوں کی تعداد چھ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان گرفتار شدگان کو انتہائی گھناؤنے تشدد اور بدسلوکی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے درجنوں قیدی شہید ہو چکے ہیں۔ جبری طور پر بے گھر کیے گئے فلسطینیوں کی تعداد 20لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔ سرکاری میڈیا کی رپورٹ بتاتی ہے کہ جنگ کے ڈیڑھ سالوں میں ساڑھے چار لاکھ رہائشی عمارتوں کو نقصان پہنچا۔ ان میں سے ایک لاکھ ستر ہزار عمارتیں اور مکانات مکمل طور پر تباہ‘ جبکہ اسی ہزار بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ غزہ میں نسل کشی کی اس جنگ میں گھروں کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ 25ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ یہ اعداد و شمار تین ماہ پہلے کے ہیں۔ ان تین مہینوں میں اہلِ غزہ پر کیا کیا قیامت نہ ٹوٹی۔ تازہ انسانی المیہ بھوک کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ فلسطینی عوام غزہ کی پٹی میں جاری جنگ کے ظالمانہ ترین مرحلے سے گزر رہے ہیں‘ غزہ کی پٹی میں جاری اسرائیلی بمباری اور عسکری کارروائیوں کے باعث لاکھوں فلسطینی شدید غذائی قلت‘ پینے کے پانی کی کمی اور بنیادی طبی سہولیات کی عدم دستیابی کا شکار ہیں۔ اطلاع یہ ہے کہ جنوبی غزہ میں خان یونس اور رفح کے علاقوں سے لاکھوں افراد نقل مکانی کر چکے ہیں اور کئی خاندان کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
ویسے تو یہ جاننے کے لیے یہ ساری مثالیں ہی کافی ہونی چاہئیں کہ ہٹلر نے یہودیوں کا قتلِ عام کیوں کیا۔ جو قوم اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کر سکتی ہے وہ انسانوں کے ساتھ کیا کیا نہ کرتی ہو گی؟ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر افنان اللہ خان نے 31اکتوبر 2023ء کو غزہ میں اسرائیلی مظالم پر اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا کو اب سمجھ آ جانی چاہیے کہ ہٹلر نے یہودیوں کو کیوں مارا تھا۔ تب غزہ پر اسرائیلی حملے شروع ہوئے محض تین ہفتے ہی ہوئے تھے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ ہٹلر اپنی ابتدائی زندگی میں پیش آنے والے بعض واقعات کی وجہ سے یہودیوں سے نفرت کرتا تھا۔ پہلی عالمی جنگ میں جرمنی کی شکست نے اس نفرت کو فیصلہ کن حد تک بڑھا دیا تھا۔ اسے پتا چلا کہ 1918ء میں جرمنوں کو شکست دشمنوں سے میدانِ جنگ میں ہونے والے مقابلوں میں نہیں بلکہ گھر کے اندر موجود آستین کے سانپوں کی وجہ سے ہوئی تھی جن میں یہودی‘ سوشل ڈیموکریٹ اور کمیونسٹ شامل تھے۔ یہی وہ اسباب تھے جن کی وجہ سے ہٹلر جب سیاست میں داخل ہوا تو مکمل طور پر ریڈیکلائز (Radicalise) ہو چکا تھا اور اینٹی یہودی اور اینٹی کمیونسٹ بن چکا تھا۔ ہٹلر سیاسی نظام کی ہر کمزوری‘ جرمنوں کی بربادی اور جرمنوں کی ہر میدان میں شکست کا ذمہ دار یہودیت کو سمجھتا تھا اسی وجہ سے اس نے یہودیوں کو خوب نشانہ بنایا۔ دوسرے لفظوں میں یہودیت کی معروف دھوکے بازی‘ فریب اور غداری جرمنی میں ان کے اپنے ہولو کاسٹ کا باعث بنی۔
مئی 1948ء میں فلسطین میں اپنا ملک قائم ہونے کے باوجود یہودیوں نے دھوکہ دہی اور فریب کا سلسلہ جاری رکھا۔ انہوں نے نہ صرف تفویض کردہ حدود سے تجاوز کرتے ہوئے فلسطین کے حصے میں آنے والے علاقوں میں تجاوز کیا اور وہاں نئی یہودی بستیاں قائم کیں بلکہ ان توسیع پسندانہ اقدامات کے خلاف منظور ہونے والی اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ماننے سے بھی انکار کیا۔ اب بھی دیکھ لیں کہ کس طرح پوری دنیا اسرائیل کو غزہ میں نہتے مسلمانوں کے خلاف اقدامات سے روکنے کی ضرورت پر زور دے رہی ہے لیکن اسرائیل کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی اوردیکھتے ہی دیکھتے اس نے غزہ کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ ایسی جانبداری بظاہر مخالفین کے غیظ و غضب کو بڑھانے کا ہی باعث بنتی ہے۔
ہر سال 27 جنوری کوInternational Holocaust Remembrance Day یعنی یہودیوں کے قتلِ عام کی یاد میں دن منایا جاتا ہے۔ دنیا فلسطین‘ خصوصاً غزہ میں یہودیوں کے ہاتھوں ہزاروں مسلمانوں کے ہولوکاسٹ کے لیے پتا نہیں کون سی تاریخ مختص کرے گی؟ (ختم)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں