ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اس انکشاف کے بعد کہ اسرائیل کے خلاف حملوں میں روس اور شمالی کوریا کے ایران کو مدد فراہم کرنے کے شواہد ملے ہیں‘ ایران اسرائیل تنازع کے ایک بین الاقوامی مسئلہ بن جانے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ امریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ ممکنہ طور پر یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ایران اسرائیل تنازع میں انہیں مزید اقدام کرنے چاہئیں تاکہ ایران یورینیم افزودگی کا عمل ختم کرے۔ یہ طے ہے کہ امریکہ نے ایران اسرائیل تنازع میں براہِ راست مداخلت کی تو پھر دوسرے ممالک کو میدانِ جنگ میں کودنے سے روکنا ناممکن ہو جائے گا کیونکہ امریکہ اگر اسرائیل کے لیے سافٹ کارنر رکھتا ہے تو ایران کی حامی بہت سی اقوام بھی اسی روئے ارض پر موجود ہیں۔ ویسے مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ امریکی صدر کو روس اور شمالی کوریا کی جانب سے ایران کی مدد کرنے پر اعتراض کیا ہے؟ امریکہ بھی تو پہلے غزہ کی جنگ میں اور اب ایران کے خلاف جنگ میں اسرائیل کی ہر طرح کی مدد کرتا رہا ہے اور اب بھی کر رہا ہے۔ روسی نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کو امریکہ کی براہِ راست فوجی مدد مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال کو شدید عدم استحکام کا شکار بنا سکتی ہے۔ روسی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماریہ زاخارووا نے کہا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ نہ صرف کشیدگی میں اضافہ کر رہا ہے بلکہ خطے اور دنیا کے لیے براہِ راست خطرہ بن چکا ہے۔ایران کو پُرامن جوہری تنصیبات رکھنے کا حق حاصل تھا‘ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
امریکی صدر کی جانب سے ایران پر ایٹمی معاہدہ غیرمشروط قبول کرنے کے دھمکی آمیز دباؤ کے بعد ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ ایران کبھی سرنڈر نہیں کرے گا‘ امریکہ کی کسی بھی فوجی کارروائی کے سنگین اور ناقابلِ تلافی نتائج ہوں گے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی شہریوں کو تہران خالی کرنے کی وارننگ دی تھی جسے ایرانی قیادت نے مسترد کر دیا جبکہ چین نے تہران سے شہریوں کے فوری انخلا کے بیان پر سخت ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ تنازع کو ہوا دینے کے بجائے کشیدگی میں کمی کے لیے کام کرے‘ آگ پر تیل ڈالنے‘ دھمکیاں دینے اور دباؤ بڑھانے سے صورتحال میں بہتری نہیں آئے گی۔
کون نہیں جانتا کہ مشرقِ وسطیٰ میں کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے؟ غزہ کو کیوں تاخت و تاراج کیا گیا؟ وہاں 60 ہزار نہتے‘ بے گناہ شہریوں کو شہید کیا گیا‘ بلند و بالا عمارتیں ملبے کا ڈھیر بنا دی گئیں۔ کس لیے؟ کون ہے جو علی الاعلان اسرائیل کے غزہ پر حملوں کی حمایت کرتا رہا‘ اسے مالی امداد اور ہر طرح کا اسلحہ دیتا رہا؟ کون ہے جو عالمی برادری کی آواز کو مسترد کرکے اقوام متحدہ کے فورم پر اسرائیل کے خلاف لائی جانے والی درخواستوں کو ویٹو کرتا رہا؟ پھر وہ کون ہے جو غزہ سے فلسطینیوں کے وقتی انخلا کے منصوبے پیش کرتا رہا تاکہ تعمیر نو کی جا سکے؟ کیا یہ سادگی کی انتہا نہیں اگر یہ سمجھا جائے کہ تعمیر نو کے بعد فلسطینیوں کو واقعی واپس ان کے وطن میں بسایا جانا تھا؟ اگر کسی نے غزہ کے عوام کو ان کے علاقوں میں بسانا ہوتا تو وہ انہیں اسرائیل کے ہاتھوں تباہ ہوتے نہ دیکھتا رہتا اور اسرائیل کو ہلہ شیری نہ دیتا رہتا۔ اسرائیل کے قیام کے اقوام متحدہ کے فیصلے کو اگر تسلیم کر بھی لیا جائے تو پھر یہ سوال بنتا ہے کہ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف لائی جانے والی قراردادوں کو کون مسترد کرتا رہا؟
اگر کسی کو ان ساری باتوں کا علم نہیں تو اس سے بڑا بھی غافل ہو گا؟ ایسا بھی کوئی اندھا ہو گا جسے نظروں کے بالکل سامنے چمکتے سورج کی طرح عیاں‘ بے پردہ و بے نقاب حقائق بھی نظر نہ آتے ہوں اور وہ ایسی تجزیہ کاری کرے جیسے اسرائیل یا اسرائیلی وزیراعظم اپنے مہربانوں کی بات نہیں مان رہا۔ جس کی معیشت اور معاشرت ہی دوسرے ممالک کی امداد اور حمایت کی مرہونِ منت ہو وہ من مانی کر سکتا ہے؟ اب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا ہے تو ویسی ہی بے تکی باتیں کی جا رہی ہیں۔ یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر صدر ٹرمپ کے علم میں تھا کہ اسرائیل ایران پر حملہ کرنے والا ہے تو انہوں نے اس حملے کو روکنے یا رکوانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ اس کا جواب میں دے دیتا ہوں‘ اس لیے کہ وہ خود چاہتے تھے کہ اسرائیل ایران پر حملہ کرے تاکہ ایرانی قیادت کو ایٹمی معاہدے کی طرف لایا جا سکے۔ پتا نہیں حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے۔ میری بات کا یقین نہیں تو صدر ٹرمپ کا 17جون کا یہ بیان ملاحظہ فرمائیں: اس وقت میں ایران کے ساتھ بات چیت کرنے کے موڈ میں نہیں ہوں‘ کسی بھی شکل یا صورت میں ایران سے امن مذاکرات کے لیے رابطہ نہیں کیا‘ ایران کو وہ معاہدہ قبول کر لینا چاہیے تھا جو میز پر موجود تھا۔ بروز منگل کینیڈا میں منعقدہ جی سیون اجلاس کے موقع پر ایک صحافی کی جانب سے کیے گئے ایک سوال کے جواب میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ ایران کشیدگی کم کرنا چاہتا ہے‘ وہ بات کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن یہ انہیں پہلے کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم ہمیشہ سے اسرائیل کی حمایت کرتے آئے ہیں‘ بہت مضبوطی سے‘ ایک طویل عرصے سے‘ اور اس وقت اسرائیل بہت اچھا کر رہا ہے۔ اب بتائیے کہاں گیا وہ تھیسس کہ اگر ٹرمپ کو معلوم تھا تو انہوں نے اسرائیل کو ایران پر حملے سے روکا کیوں نہیں؟ تاریخ کو مسخ کرنے والے یعنی جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بیان کرنے والے دنیا میں بہت ہیں۔ کم از کم ان کو ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں جن سے سب کو سچ کی توقع اور امید ہے۔ یہ جنگ جس نے شروع کرائی ہے وہ مناسب وقت پر جنگ بندی بھی کرا دے گا اور مناسب وقت وہ ہو گا جب اسرائیل شکست کھا رہا ہو گا‘ خدانخواستہ ایران کے پسپا ہونے کی صورت میں ہو سکتا ہے وہ جنگ بندی کی ضرورت محسوس نہ کرے۔
ایک کشمکش مشرقِ وسطیٰ میں چل رہی ہے‘ ایک کشمکش ایران اسرائیل تنازع پر عالمی برادری میں چل رہی ہے‘ اور ایک کشمکش اسی جنگ کو لے کر امریکہ کے اپنے اندر بھی چل رہی ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق اگرچہ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے سے صرف چند ماہ کی دوری پر تھا‘ لیکن امریکی انٹیلی جنس اداروں کے تازہ ترین جائزے کے مطابق ایران نہ تو اس وقت جوہری بم بنانے کی سرگرم کوشش کر رہا تھا اور نہ ہی وہ اس قابل تھا کہ وہ فوری طور پر ایسا ہتھیار تیار کر سکے۔ رواں برس مارچ میں نیشنل انٹیلی جنس ڈائریکٹر تُلسی گیبرڈ نے قانون سازوں کو بتایا تھا کہ خفیہ ایجنسیاں اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ ایران ایٹمی ہتھیار نہیں بنا رہا۔ سپریم لیڈر خامنہ ای نے 2023ء میں معطل کیے گئے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کی اجازت نہیں دی‘ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلیٰ انٹیلی جنس مشیر کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ تہران ایٹمی ہتھیار بنانے کے 'بہت قریب‘ تھا۔ لو کر لو بات! اپنے ہی ادارے کی رپورٹ پر یقین نہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ ایران اسرائیل تنازع میں جانبدارانہ بیانات اور اقدامات کا سلسلہ جاری رہا تو اس جنگ کو تیسری عالمی جنگ بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ ایران اسرائیل تنازع پر خود امریکہ کے اندر کشمکش کے بڑھنے کے امکانات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔