"IYC" (space) message & send to 7575

ایک اور سانحہ‘ ایک اور مرثیہ

''میں اپنے شہر ڈسکہ میں ہی موجود تھا کہ مجھے کسی نے بتایا کہ تمہارے ہم زلف محمد محسن کی فیملی کو سوات میں حادثہ پیش آ گیا ہے اور اس کے بچے دریا میں بہہ گئے ہیں۔ یہ بات سنتے ہی میں تو جیسے سکتے میں آ گیا کیونکہ محسن کی فیملی سوات کے اس ٹُور میں اکیلی نہیں تھی‘ ان کے ساتھ میری بیوی اور بچے بھی سیر کو گئے تھے۔ تھوڑی سی ہمت جمع کر کے میں نے پاگلوں کی طرح موبائل فون پر اپنے فیملی ممبرز کے نمبر ڈائل کرنا شروع کر دیے لیکن میرا اپنے بیوی بچوں سے کوئی رابطہ نہ ہو سکا‘‘۔
پنجاب کے ضلع سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ کے رہائشی عبدالسلام نے یہ باتیں میڈیا سے گفتگو کے دوران کیں جن کی اہلیہ‘ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا اپنے دیگر رشتے داروں کے ساتھ سوات اور دیگر پہاڑی مقامات کی سیر کو گئے ہوئے تھے جہاں دریائے سوات میں یہ تمام لوگ ڈوب گئے۔ عبدالسلام نے میڈیا کو بتایا کہ وہ روزگار کے سلسلے میں سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ ان دنوں وہ گھر کی تعمیر کے سلسلے میں چھٹیاں لے کر پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ سوات جانے سے پہلے ان کی بیٹیوں نے بہت زور لگایا کہ آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں ہمیں زیادہ مزہ آئے گا‘ لیکن میں نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ اگر میں بھی چلا گیا تو گھر کی تعمیر کا کام کون کروائے گا؟
دریائے سوات میں بہہ جانے والے بدقسمت خاندان کا تعلق ڈسکہ سے ہے۔ روانگی سے چند گھنٹے پہلے تک متاثرہ خاندان کا پروگرام ناران اور کاغان جانے کا تھا لیکن موت ان کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ رات کے تقریباً 11بجے وہ سب ناران کاغان جانے کے بجائے اپنا روٹ تبدیل کر کے سوات چلے گئے۔ حادثے کا شکار ہونے والے خاندان کو اپنے ساتھ لے جانے والے محمد محسن کے والد عبدالرحمن کا کہنا ہے کہ میرے خاندان کے کل 16افراد سیر کے لیے گئے تھے جن میں میرے بیٹے محسن کے کچھ دوستوں کے اہلِ خانہ بھی شامل تھے۔ صبح بیٹے محسن سے رابطہ ہوا تو اس نے بتایا وہ ناران کاغان کے بجائے سوات جا رہے ہیں۔ پھر کچھ دیر کے بعد میرا جب ان سے رابطہ ہوا تو انہوں نے بتایا کہ سب خیریت سے ہیں اور اس وقت وہ ناشتہ کر رہے ہیں۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد رابطہ ہوا تو بیٹی اور داماد رو رہے تھے‘ جنہوں نے بس اتنا بتایا کہ بچے دریا میں بہہ گئے ہیں۔ عبدالرحمن نے بتایا کہ سوات جانے والے لوگوں میں ان کی بہو اور اس کی چار بیٹیاں بھی شامل تھیں جو دریا میں بہہ گئیں۔ بہہ جانے والوں میں ان کی بیٹی اور اس کی چار بیٹیاں بھی شامل ہیں۔ بچ جانے والوں میں ان کا داماد اور چار بیٹیاں شامل ہیں۔
ریسکیو سروسز کے ترجمان کے مطابق اس حادثے میں مجموعی طور پر 16افراد سیلابی ریلے میں پھنسے جن میں سے تین کو بچا لیا گیا جبکہ تادم تحریر 11افراد کی لاشیں دریا سے نکالی جا چکی ہیں۔ سوات میں اس طرح حادثے کا شکار ہو کر اپنی جانیں کھو دینے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ابھی چند دن پہلے اسی مہینے کی 22تاریخ کو دریا میں کشتی ڈوبنے سے بھی پانچ افراد اپنی جانیں ہار گئے تھے۔ کالام کے خوبصورت علاقے شاہی باغ میں تفریحی کشتی انجن بند ہونے کے باعث دریا میں الٹ گئی تھی۔ کشتی میں ڈرائیور سمیت 10افراد سوار تھے۔ اس حادثے کے نتیجے میں پانچ افراد جاں بحق ہوئے‘ جن میں دو خواتین اور تین بچے تھے‘ جبکہ دیگر پانچ افراد کو زخمی حالت میں ریسکیو اہلکاروں نے فوری طبی امداد فراہم کر کے ہسپتال منتقل کر دیا تھا۔
ہمارا ماضی گواہ ہے کہ جب کبھی بھی اس طرح کا کوئی حادثہ ہوتا ہے تو انکوائری کمیٹیاں بن جاتی ہیں اور کچھ سرکاری اہلکاروں کو معطل بھی کر دیا جاتا ہے لیکن عملاً سب کچھ ویسے کا ویسا ہی رہتا ہے کیونکہ اصلاحِ احوال کے جو بھی دعوے کیے جاتے ہیں وہ محض لفظی جمع خرچ تک محدود ہوتے ہیں۔ چونکہ ان دعووں کو کبھی عملی شکل دینے کی کوشش نہیں کی گئی اس لیے کچھ عرصہ کے بعد پھر بالکل ویسا ہی سانحہ پیش آ جاتا ہے جیسا سانحہ پیش آنے کے بعد اصلاحِ احوال کے دعوے کیے جاتے ہیں۔ اس بار بھی بالکل ایسا ہی ہوا ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سے لے کر چیف سیکرٹری تک سب کی طرف سے بڑے بڑے دعوے اور بڑی بڑی باتیں تو کی جا رہی ہیں لیکن کیا عملاً بھی کچھ ہو گا‘ اس بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ڈپٹی کمشنر سوات سمیت چند افسروں کی معطلی کیا معاملات کو سلجھا دے گی؟ حادثے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق دریائے سوات کے ارد گرد اور اس کے اندر بنے ان ہوٹلوں کے مالکان بااثر سیاسی اور سرکاری شخصیات ہیں‘ جہاں سیر و تفریح کے لیے جانے والے ٹھہرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان کے خلاف کوئی کارروائی ہو پائے گی؟ ایسا ہی ایک سانحہ 2022ء میں مری میں پیش آیا تھا جب 23معصوم جانیں بے سبب ضائع ہو گئی تھیں۔ کسی نے سوچا کہ ان بچوں اور ان خاندانوں پر کیا گزری ہو گی جن کے پیارے رات بھر برف میں دب کر اور زہریلی گیس کے باعث اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ سیاحت کے لیے جانے والوں کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے۔ سانحہ مری کے ذمہ داران کا تعین ہوا؟ ان کو سزا دی گئی؟ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی کہ آئندہ ایسا سانحہ پیش نہ آئے؟ تب بھی بلند بانگ دعوے کیے گئے تھے۔ عملی طور پر کچھ کیا گیا ہوتا تو ممکن ہے سوات کا سانحہ پیش نہ آتا۔
اس زمینی حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان کو قدرت نے انتہائی خوبصورت پہاڑوں‘ وادیوں اور لینڈ سکیپ سے نواز رکھا ہے۔ یہ علاقے اتنے دل کش‘ دل آویز اور دل ربا ہیں کہ کسی کو بھی اپنی طرف کھینچ سکتے ہیں۔ شمالی علاقہ جات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہماری حکومتیں اگر سیاحت کو فروغ دینے اور اسے ریونیو بڑھانے کا ذریعہ بنانے کے دعوے وعدے یا ارادے کرتی ہیں تو وہ حق بجانب ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ان دعوؤں کی حیثیت بھی دوسرے دعوؤں جیسی ہی ہوتی ہے یعنی محض باتیں‘ عملاً کچھ بھی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غیر ملکی سیاح جب پاکستان آتا ہے تو مناسب سہولتوں کے نہ ہونے کا شکوہ کرتا نظر آتا ہے۔ اچھے اور سستے ہوٹل نہیں ہیں۔ سیاحتی مقامات پر تفریحی سہولتیں اور پکنک پوائنٹس نہیں ہیں۔ حتیٰ کہ سیاحوں کو پُر پیچ پہاڑی راستوں سے گزار کر شمالی علاقوں کی آخری حدود تک پہنچانے کا بھی مناسب اور محفوظ انتظام نہیں ہے۔ لوگ وہاں جاتے ہیں تو اپنی زندگیاں داؤ پر لگا کر‘ صرف اپنی ہمت کے بل پر۔ میں اگر یہ کہوں کہ گزشتہ روز سوات میں پیش آنے والا سانحہ سیاحتی سہولتوں کی کمی کی وجہ سے پیش آیا تو کیا غلط ہو گا؟ وہاں انتظامیہ کا کوئی بندہ ہوتا تو گلیشیر پگھلنے اور بارشیں برسنے کے اس موسم میں سیر کے لیے آنے والوں کو دریا کے بیچوں بیچ جانے سے منع کرتا اور کہتا کہ ناشتے کو انجوائے کرنا ہے تو یہاں دریا کے کنارے پر کہیں بیٹھ کر کر لو۔ لیکن انتظامیہ کو بڑے افسروں کی چاپلوسی سے فرصت ملے تو وہ عوام کے بارے میں سوچے۔
جیسا کہ عرض کیا اصلاحِ احوال کا شور ایک بار پھر بلند ہے۔ یہ کر دیں گے‘ وہ کر دیں گے۔ یہ ہو جائے گا‘ وہ ہو جائے گا۔ میں بھی سن رہا ہوں‘ آپ بھی سنیے۔ صرف باتیں بنانے میں کوئی لاج نہیں تو سننے میں کیا مضائقہ ہے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں