نئے مالی سال کا آغاز پٹرولیم مصنوعات‘ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافوں سے ہوا ہے اور عام بندہ سوچ رہا ہے کہ پتا نہیں آگے کیا ہو گا؟ یہ واقعی سوچنے کی بات ہے کہ ہر سال بجٹ کے موقع پر عوام وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے توقعات باندھتے ہیں جو پوری نہیں ہوتیں۔ عوام ریلیف کے خواہاں ہوتے ہیں لیکن اُلٹا ان پر براہِ راست یا بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے۔ وہ معاملات اور وہ مسائل جو عوام اور ملک کے لیے مالی دشواریوں کا باعث بنتے ہیں ان کی طرف توجہ دینے کی کبھی کسی نے شاید ضرورت محسوس نہیں کی۔ ہمیں دوسرے ملکوں سے قرض کیوں لینا پڑتا ہے؟ بار بار آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک کیوں دینا پڑتی ہے؟ ٹیکسوں میں اضافے یا نئے ٹیکس لگانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے؟ یہ وہ سوال ہیں جو پاکستانی عوام کے ذہن میں کلبلاتے رہے ہیں اور وہ ان کے جوابات بھی جانتے ہیں لیکن پھر بھی خاموش رہتے ہیں کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کی شنوائی نہیں ہونے والی۔ ہمیں آئی ایم ایف کے سامنے بار بار دستِ طلب اس لیے دراز کرنا پڑتا ہے کہ ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر بار بار کم ہو جاتے ہیں۔ کیوں کم ہو جاتے ہیں؟ یہ بڑھتے کیوں نہیں؟ اس کی کئی وجوہات ہیں‘ جیسے حد سے زیادہ سمگلنگ‘ عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی متغیر قیمتیں‘ بلند گراف والی کرپشن‘ اقربا پروری‘ رشوت‘ سفارش‘ بددیانتی اور بجلی اور گیس کے لائن لاسز۔ یہی ساری وجوہات ہیں جن کے باعث ہمارے ملک میں درآمدات اور برآمدات کے طے کردہ اہداف کبھی پورے نہیں ہوتے۔ ہم سب دیکھتے ہیں کہ کس طرح ایک طرف ایک ایک ارب ڈالر کے لیے عالمی اقتصادی اداروں کی عوام کو تکلیف دینے والی شرائط تسلیم کی جاتی ہیں اور دوسری جانب یہی ڈالر پانی کی طرح بہا دیے جاتے ہیں جیسے ان کی کوئی وقعت ہی نہ ہو‘ جیسے ان کے حصول کی خاطر عوام نے تکلیف بالکل نہ سہی ہو۔ میں کیا کہنا چاہتا ہوں اس کا اندازہ ذیل کی چند مثالوں سے لگائیے۔
پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف مارکیٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کو سمگلنگ کی وجہ سے سالانہ تین کھرب 40 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے جس کی وجہ حکومت کی کمزور اور ناقص معاشی پالیسیاں ہیں جبکہ 340 ارب کے سالانہ نقصان میں سے 30فیصد افغان تجارتی راہداری کے ناجائز استعمال کی وجہ سے پہنچ رہا ہے۔ یعنی ملک کو روزانہ کے حساب سے غیر قانونی تجارت اور سمگلنگ کی وجہ سے ٹیکس محصولات میں لگ بھگ ایک ارب روپے کمی کا سامنا ہے۔ اس سمگلنگ اور غیرقانونی تجارت سے ملک کے دیگر کاروبار اور تجارتی اداروں کو مشکلات کا سامنا ہے جبکہ حکومت محصولات کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے عوام پر ٹیکس بڑھاتی جا رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں پٹرول کے علاوہ ادویات‘ سگریٹ‘ عام استعمال کی اشیا اور دیگر سامان غیر قانونی طور پر سمگل کیا جاتا ہے جس کا اثر لامحالہ ملک کے دیگر سیکٹرز کی سالانہ کارکردگی پر پڑ رہا ہے۔ سمگلنگ اور غیرقانونی تجارت قومی معیشت کو کتنا متاثر کر رہی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ غیرقانونی تجارت کے انڈیکس میں 158ملکوں کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 101واں ہے۔
حال ہی میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ سرکاری ملکیتی اداروں کے نقصانات 5800 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق گزشتہ مالی سال جولائی سے دسمبر تک سرکاری ملکیتی اداروں کے نقصانات میں 342 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ اس طرح یہ ادارے روزانہ کی بنیاد پر 1.9 ارب روپے کا نقصان کر رہے ہیں۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق پاور اور گیس سیکٹر کا گردشی قرضہ 4900 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے اور حکومت نے گزشتہ مالی سال جولائی تا دسمبر سرکاری ملکیتی اداروں کے نقصانات کی مد میں 600 ارب روپے جھونک دیے تھے۔ ابھی تین روز پہلے وزیراعظم شہباز شریف نے بتایا کہ ملک بھر میں سالانہ 500 ارب روپے کی بجلی چوری اور پیداوار کے مقابلے کھپت میں کمی توانائی کے شعبے کے سب سے بڑے چیلنجز ہیں۔ حکومت نے حال ہی میں اپنا میٹر‘ اپنی ریڈنگ منصوبے کا باضابطہ اجرا کیا ہے لیکن سوال اٹھ رہے ہیں کہ اس ایپ سے بجلی کی پیداوار‘ ترسیل‘ تقسیم اور استعمال سے متعلق سبھی مشکلات کا ازالہ ہو سکے گا؟
بڑے بوجھ تو ہٹائے نہیں جاتے لیکن چھوٹے چھوٹے بوجھ ہٹانے کے معاملے میں تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ تازہ خبر یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے ملک بھر میں تمام یوٹیلیٹی سٹورز 10 جولائی سے مکمل طور پر بند کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔ وزیراعظم کی ہدایت پر یوٹیلیٹی سٹورز کے پانچ ہزار سے زائد ملازمین کو سرپلس پول میں شامل کر دیا گیا ہے‘ جبکہ رضاکارانہ علیحدگی پیکیج کی منظوری بھی دے دی گئی ہے۔ اس سارے منظر نامے میں ایک اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان اور امریکہ کی ٹرمپ انتظامیہ نے تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دینے پر اتفاق کر لیا ہے۔ سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کے معدنیات سیکٹر میں 500 ملین ڈالر سے ایک ارب ڈالر تک سرمایہ کاری کے لیے رضا مندی کا اظہار کیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان پر 29 فیصد ٹیرف عائد کر رکھا ہے۔ پاکستان کا امریکہ کے ساتھ تجارتی حجم تین ارب ڈالرز سے زائد کا ہے۔ پاکستان ٹرمپ انتظامیہ کو ٹیرف میں کمی یا ٹیرف کے خاتمے پر رضامند کر سکے تو یہ پاکستان کی ایک بڑی کامیابی ہو گی اور اس کے درآمدات و برآمدات کے توازن پر اچھا اثر پڑے گا۔
اس لمبی چوڑی بحث یا تمہید کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ پیندے میں سوراخ ہو تو بالٹی میں جتنا بھی پانی ڈالتے جائیں وہ ٹھہرے گا نہیں‘ بہہ جائے گا۔ قومی وسائل اور زر مبادلہ کے ذخائر کا حجم بڑھانے کے سلسلے میں حکومت کی کاوشیں یقینا سراہے جانے کے قابل ہیں لیکن جب تک وسائل کا ضیاع ختم نہیں کیا جائے گا‘ خسارے کے بجٹوں کے سوا کچھ ممکن نہ ہو گا۔ سب سے پہلے تو اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ جب حالات اور وقت کا تقاضا چادر کے مطابق پاؤں پھیلانے کا ہے تو پھر ہمارے حکمران خسارے کا بجٹ کیوں پیش کرتے ہیں؟ اب یہ ضروری بلکہ ناگزیر ہو چکا ہے کہ نہ صرف سمگلنگ روکی جائے بلکہ بجلی چوری اور بجلی و گیس کے لائن لاسز بھی کم کیے جائیں‘ تجارتی خسارے پر قابو پا کر اس کا توازن ملک کے حق میں کیا جائے۔ تبھی ملک کو حقیقی ترقی کی منزل کی طرف لے جایا جا سکے گا۔ حکمرانوں کے معاشی ترقی کے دعوؤں پر لوگوں کو یقین ہو گا اور اتنے وسائل دستیاب ہو سکیں گے کہ عوام کو کچھ ریلیف دیا جا سکے۔ یہاں برسر اقتدار آنے والی ہر حکومت کی جانب سے سادگی اپنانے اور سادگی مہم شروع کرنے پر زور دیا گیا لیکن اب تک اس سلسلے میں تسلی بخش اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ یہ بھی قومی وسائل کے ضیاع کا باعث ہیں۔ یہ بھی تو بالٹی کے پیندے میں سوراخ جیسا ہی ایک مظہر ہے۔ قومی ترقی کے لیے ضیاع کے سوراخوں کو بند کرنا ضروری ہے‘ ورنہ تو اس سے دوگنا ٹیکس بھی مالی خسارے کے عفریت کا پیٹ نہیں بھر سکیں گے۔