صوبہ خیبر پختونخوا میں سینیٹ کی خالی نشستوں پر کل‘ یعنی 21جولائی کو انتخابات ہونے جا رہے ہیں‘ لیکن بار بار یہ سوال ذہن میں آ رہا ہے کہ انتخابات کرانے کی یہ کوشش کامیاب ہو پائے گی یا نہیں؟ اور اس سوال کے ذہن میں آنے کی کئی وجوہات ہیں۔ سننے میں آیا ہے کہ خیبر پختونخوا کے سینیٹ انتخابات کے سلسلے میں تمام امیدوار بلا مقابلہ منتخب کر لیے گئے ہیں اور یہ انتخاب حکومت اور اپوزیشن کی باہمی رضا مندی سے ہوا ہے اور پی ٹی آئی کے تمام کَورنگ امیدواروں نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی واپس لے لیے ہیں۔ ذرائع کے حوالے سے سامنے آنے والی معلومات کے مطابق سینیٹ کی چھ نشستیں پی ٹی آئی اور پانچ نشستیں اپوزیشن کو ملیں گی۔ ان پانچ میں سے پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) کو دو دو جبکہ مسلم لیگ (ن) کو ایک نشست ملے گی۔
قارئین کو بتاتا چلوں کہ الیکشن کمیشن نے خیبر پختونخوا میں سینیٹ کے انتخابات دو اپریل 2024ء کو منعقد کرانے کی کوشش کی تھی‘ جب باقی صوبوں میں سینیٹ کے انتخابات ہوئے تھے‘ لیکن اراکینِ صوبائی اسمبلی کے تب تک حلف نہ اٹھانے کی وجہ سے مؤثر الیکٹورل کالج نہ بن سکا تھا جس کے باعث انتخابات مؤخر کر دیے گئے تھے۔ اب مؤثر الیکٹورل بننے پر یہ الیکشن کرائے جا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ پارلیمان کے ایوانِ بالا کی اس صوبے سے سات عام‘ دو خواتین کے لیے مخصوص اور دو ٹیکنوکریٹ/ علما کی نشستیں ہیں‘ یعنی مجموعی طور پر گیارہ نشستوں کا فیصلہ ہونا ہے۔ اس کے علاوہ 31جولائی کو صرف ایک نشست (ثانیہ نشتر کی خالی کردہ نشست) کے لیے الگ سے انتخاب ہونا ہے۔
حکمران اربابِ بست و کشاد ہوتے ہیں۔ وہ گرہیں لگا بھی سکتے ہیں اور ان گرہوں کو کھولنے کا طریقہ بھی بس صرف انہی کو آتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض اوقات ایسی گانٹھیں یا گرہیں لگ جاتی ہیں جو ہاتھوں سے نہیں کھلتیں اور انہیں دانتوں سے کھولنا پڑتا ہے۔ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ خیبرپختونخوا میں سینیٹ کے انتخابات کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن میں اتفاقِ رائے ہو گیا ہے اور یہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے پا گیا ہے۔ عوام سمجھتے تھے کہ حکومت اور اپوزیشن دو الگ الگ چیزوں کا نام ہے اور یہ کبھی متفق نہیں ہو سکتیں‘ ان کے مفادات کبھی Overlap نہیں ہو سکتے‘ لیکن ہمارے حکمرانوں نے اس سوچ اور اس نکتے کو غلط ثابت کر دکھایا ہے۔ اگر اب ایسا ممکن ہو گیا ہے تو کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ جب بھی کسی الیکشن کا موقع آئے‘ اسی طرح کا ایک اتفاقِ رائے پیدا کر لیا جائے‘ یوں بغیر الیکشن کے نئی حکومتیں بن جائیں اور نئی کابینائیں وجود میں آ جائیں؟ پھر ایک اور سوال یہ ہے کہ اگر سینیٹ کے انتخابات میں حکومت اور اپوزیشن کا اتفاقِ رائے ہو سکتا ہے تو پھر باقی معاملات میں کیوں نہیں ہوتا؟
کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں‘ مثلاً جب موجودہ حکمران اپوزیشن کا کردار ادا کر رہے تھے اور پی ٹی آئی کی حکومت تھی تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر بہت احتجاج کیا جاتا تھا‘ لیکن اب جبکہ وہ اپوزیشن والے حکمران بن چکے ہیں تو انہیں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہوئے کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا۔ یہی صورتحال بجلی اور گیس کی قیمتوں کے معاملے پر بھی ہے۔ میں نے پہلے بھی کہیں لکھا تھا کہ حکومتوں اور حکمرانوں کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ صرف ان علاقوں میں کی جا رہی ہے جہاں سے پوری ادائیگیاں نہیں ہوتیں‘ لیکن مشاہدے میں آ رہا ہے کہ اب جبکہ ملک بھر میں بارشوں کا موسم ہے‘ ڈیم بھر چکے ہیں اور پانی سے زیادہ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے‘ روزانہ کئی کئی گھنٹے لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے اور ان علاقوں میں کی جا رہی ہے جہاں کوئی ایک بھی صارف کسی مہینے بل جمع نہ کرانے کا سوچ بھی نہیں سکتا‘ بل جمع نہ کرانا تو بڑی دور کی بات ہے۔ سوال یہ ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے حکمرانوں پر اور حکمرانوں کی جانب سے اپوزیشن پر تنقید تو کی جاتی ہے لیکن اتنی شدت سے کوئی اقدام ہوتا نظر نہیں آتا اور پھر اس سارے معاملے میں عوام کہیں نظر نہیں آتے۔ یہی پٹرولیم مصنوعات کا معاملہ لے لیں۔ جب حکمران اپوزیشن میں تھے تو اس وقت کی حکومت پر تنقید کرتے تھے۔ اب وہ والے حکمران اپوزیشن میں ہیں تو اس والی حکومت پر تنقید کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مسلسل بڑھائی جا رہی ہیں۔ عوام کا کسی نے نہیں سوچا‘ نہ حکومت نے نہ ہی اپوزیشن نے کہ وہ کس حال میں گزارا کرتے ہوں گے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہر اضافے کے بعد مہنگائی کی جو نئی لہر پیدا ہوتی ہے‘ گرانی کا جو نیا طوفان بپا ہوتا ہے اس کا عام آدمی پر کیا اثر پڑتا ہو گا‘ یہ کوئی نہیں سوچتا۔
اور حکمرانوں (حزبِ اختلاف والے بھی تو حکمران ہی ہوتے ہیں) کا اتفاقِ رائے صرف سینیٹ کے الیکشن میں ہی سامنے نہیں آیا‘ ایک اور موقع پر بھی حکومت اور اپوزیشن متحد نظر آتے ہیں اور وہ موقع ہوتا ہے ارکانِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافہ کرنے کا موقع‘ اور نجی سیکٹر میں کم سے کم ماہانہ اجرت کی حد میں اضافہ نہ ہونے دینے کا موقع۔ نہ کسی الیکشن میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر کوئی خوف محسوس ہوتا ہے کہ لوگ کیا سوچیں گے؟ عوام میں کیا تاثر جائے گا؟ اور نہ ہی اپنی تنخواہوں میں اضافے پر متفق ہوتے ہوئے کوئی احساس ہوتا ہے کہ اربوں ڈالر قرضوں میں جکڑے ہوئے ملک میں‘ جہاں عام آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی پوری کرنا بھی محال بلکہ ناممکن ہوتا جا رہا ہے‘ وہ اپنی تنخواہوں میں کئی کئی گنا اضافہ کیسے کر لیتے ہیں؟
ایک اور بات بھی سن لیجیے۔ فوجداری قوانین ترمیمی بل 2025ء منظور کیا گیا ہے جس کے تحت ریپ کے ملزمان کے لیے موت کی سزا ختم کر دی گئی ہے اور ایسے مجرم کو صرف عمر قید کی سزا ہو سکے گی۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر قانون کا کہنا ہے کہ سزا کی سنگینی جرائم نہیں روکتی۔ اگر وزیر قانون کے اسی نکتے کو بنیاد بنا لیا جائے تو پھر اس سوال کا جواب بھی تلاش کیا جانا چاہیے کہ ہیلمٹ نہ پہننے والے موٹر سائیکل سواروں‘ وَن وے کی خلاف ورزی کرنے والوں اور ٹریفک سگنل توڑنے والوں کے جرمانوں میں مسلسل اضافہ کیوں کیا جا رہا ہے؟ اگر سزا کی سنگینی جرائم نہیں روک سکتی تو پھر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ بھی نرمی کے ساتھ پیش آنا چاہیے‘ ان کی سزاؤں اور ان کے جرمانوں میں کمی کی جانی چاہیے۔ اور صرف ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے ہی نہیں‘ ہر شعبے میں قوانین کی جو خلاف ورزی ہو رہی ہے اور جو ضابطوں کو توڑا جا رہا ہے اور جو کرپشن ہو رہی ہے اور جو رشوت اور سفارش کا بازار گرم ہے اس کی بھی کھلی چھٹی دے دینی چاہیے‘ کیونکہ سزا کی سختی اور سنگینی جرائم کو نہیں روک سکتی۔ اس طرح تو لگتا ہے کہ کسی روز ملک میں جرائم کا دروازہ بالکل ہی کھول دینا پڑے گا کہ سزا کی سختی جرائم کو روک ہی نہیں پاتی۔