خبر یہ ہے کہ بھارتی ریاست کرناٹک میں 15ہزار ماہانہ تنخواہ وصول کرنے والا ایک سابق سرکاری ملازم 30کروڑ روپے کے اثاثوں کا مالک نکلا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق کرناٹک رورل انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ لمیٹڈ کے دفتر میں 72کروڑ روپے کی بدعنوانی کی تحقیقات کے سلسلے میں اسی ادارے میں ماضی میں بطور کلرک کام کرنے والے کالا کپہ نیگا گُندی کے گھر پر چھاپہ مارا گیا تو انکشاف ہوا کہ وہ 30کروڑ روپے مالیت کے اثاثوں کا مالک ہے جن میں 24مکانات‘ 6پلاٹ اور 40ایکڑ زرعی اراضی شامل ہیں۔ سابق ملازم کے گھر سے ایک کلو سے زائد سونا اور متعدد گاڑیاں بھی برآمد ہوئیں۔ حکام کے مطابق ملزم کے گھر سے کچھ جائیدادوں کے کاغذات بھی برآمد کیے گئے جو اس کی بیوی اور بھائی کے نام پر رجسٹرڈ تھیں۔
میرے نزدیک یہ کوئی حیرت انگیز‘ تعجب خیز یا معمول سے ہٹ کر کوئی خبر نہیں ہے کیونکہ ایسے کئی نمونے پاکستان میں بھی دریافت ہو چکے ہیں جن کی تنخواہ تو 40یا 50ہزار روپے ہوتی ہے لیکن جب ان کے اثاثوں کو چیک کیا جائے اور ان کے بینک بیلنس دیکھے جائیں تو وہ کروڑوں کے مالک نکلتے ہیں۔ یہ کروڑوں روپے کہاں سے آ جاتے ہیں ان کے پاس؟ عام بندہ یہ سوچ سوچ کر پھاوا ہو جاتا ہے لیکن اسے دولت اکٹھی کرنے کا راز نہیں مل پاتا۔ اس سلسلے میں چند مثالیں پیش خدمت ہیں‘ اس کے بعد اگلی بات کریں گے۔
اب پتا نہیں یہ خبر درست ہے یا غلط لیکن کئی بار میری نظروں سے گزری‘ اس لیے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ خبر کے مطابق کراچی میں ایک ڈپٹی کمشنر (غالباً سابق‘ یا ہو سکتا ہے حاضر سروس ہو) کے گھر پر چھاپہ مارا گیا تو دو لاکھ تنخواہ لینے والے اس اعلیٰ افسر کے گھر سے 10کروڑ ڈالر‘ 20کروڑ پاکستانی روپے‘ 500تولہ سونا نکلا۔ اس حوالے سے سامنے آنے والی پوسٹ میں لکھا گیا تھا کہ پاکستان کا ایک چوتھائی قرضہ ایک ڈپٹی کمشنر کے گھر سے برآمد ہوا ہے۔ سب کی جانچ پڑتال ہو تو آٹا بھی سستا ہو جائے گا۔
2016ء میں سیکرٹری خزانہ بلوچستان مشتاق رئیسانی کے گھر پر قومی احتساب بیورو (نیب) کی کارروائی کے دوران 73کروڑ روپے سے زائد نوٹ برآمد کیے گئے تھے جس کے بعد بلوچستان حکومت نے انہیں معطل کر دیا تھا۔ میڈیا کی خبر کے مطابق نیب ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ گھر سے برآمدہ ایک لاکر اور نوٹوں سے بھرے 14بیگ تحویل میں لے لیے گئے ہیں جبکہ نوٹوں کے علاوہ گھر سے کروڑوں روپے مالیت کا سونا‘ پرائز بانڈ اور سیونگ سرٹیفکیٹ بھی برآمد کیے گئے۔
2022ء میں یہ خبر سامنے آئی تھی کہ قومی احتساب بیورو نے بلوچستان ہی کے محکمہ صحت کے ایک گریڈ نو کے ملازم کی کروڑوں روپے کی مبینہ کرپشن کا سراغ لگاتے ہوئے کوئٹہ کی احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کر دیا تھا۔ نیب کے مطابق ملزم کے خلاف اپنی بیوی اور بزنس پارٹنر کے نام پر کوئٹہ‘ لاہور اور ساہیوال میں کمرشل پلازوں‘ گھر اور زرعی اراضی کا سراغ لگایا گیا تھا۔ اسی طرح اگست 2023ء میں اینٹی کرپشن کی تفتیشی ٹیم نے ایک گرفتار صدر پنجاب پیرا میڈیکل سٹاف کے خلاف تحقیقات کی تو پتا چلا کہ وہ کروڑوں کا مالک ہے۔ وہ درجہ چہارم میں بھرتی ہوکر جونیئرکلرک بنا تھا۔ بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات کے مطابق اس کی ماہانہ تنخواہ 57ہزار روپے تھی لیکن آٹھ ماہ کے دوران اس کے اکاؤنٹ میں سے ایک کروڑ 10لاکھ روپے کی ٹرانزیکشنز ہوئیں۔ اس کے نام پر کمرشل پراپرٹی‘ 18کنال‘ 18مرلے رقبہ اور بیوی کے نام دو مکان ہیں۔
کوہستان سکینڈل تو ابھی تازہ سکینڈل ہے۔ خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان میں مبینہ مالی بے ضابطگیوں کے کیس میں قومی احتساب بیورو نے 25ارب روپے سے زائد مالیت کے اثاثے برآمد اور منجمد کر لیے۔ نیب خیبر پختونخوا کی جانب سے پشاور ہائیکورٹ میں 25جون کو جمع کروائی گئی دستاویزات میں بتایا گیا کہ اس مالی سکینڈل میں اعلیٰ سطح پر کرپشن‘ عوامی وسائل کے غیر شفاف استعمال اور غیر قانونی مالی لین دین کے شواہد سامنے آئے ہیں جس پر انکوائری کو باضابطہ تحقیقات میں تبدیل کر دیا گیا۔
مجھے یہ نہیں معلوم کہ اس وقت ان کیسز کا سٹیٹس کیا ہے‘ ہو سکتا ہے ان میں سے کچھ کیسز کے فیصلے ہو چکے ہوں‘ میں نے یہ مثالیں محض کرپشن کے حوالوں کے طور پر دی ہیں۔ دراصل یہ سب کچھ کرپشن کے شاخسانے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی فرد سے اس کی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھانا۔ پچھلے کسی کالم میں ذکر کیا تھا کہ آپ کسی بھی سرکاری ادارے میں جا کر اپنے جائز کام بھی رشوت‘ کرپشن یا سفارش کے بغیر نہیں کروا سکتے۔ آپ جائز طریقے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے تو آپ کو قدم قدم پر رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آپ کی جانب سے پیش کی گئی درخواست پر طرح طرح کی اعتراضات اٹھائے جائیں گے۔ ایک کے بعد ایک کاغذات پورے کرنے کیلئے کہا جائے گا‘ چکر پر چکر لگوائے جائیں گے‘ اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک آپ کسی کلرک کی مٹھی گرم نہ کر دیں اور کلرک کی مٹھی گرم ہونے کا مطلب تو آپ سمجھتے ہی ہیں کہ نیچے سے لے کر اوپر تک سب کی مٹھی گرم ہونا۔ حکومت کی جانب سے بار بار فائلر اور نان فائلرز کی بات کی جاتی ہے‘ کرناٹک کے کلرک کی طرح مختلف شعبوں میں کام کرنے والے عام لوگوں خصوصاً کلرکوں کے اثاثوں کو اٹھا کر دیکھ لیں بہت سارے معاملات واضح ہو جائیں گے اور ساتھ ساتھ 14کے 14طبق بھی روشن ہو جائیں گے۔
اس سارے عمل میں زیادہ تر قصوروار وہی لوگ ہیں جو راتوں رات امیر بننے کی ہوس میں مبتلا ہیں‘ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ انہیں اس ہوس میں مبتلا کرنے والا کون ہے؟ ظاہر ہے یہ سسٹم جس میں طاقتور کے پاس سارے اختیارات ہیں اور بے اختیار کے پاس سوائے دوسروں کے احکامات بجا لانے کے کوئی راستہ باقی نہیں بچتا۔ پھر جس کے پاس کوئی راستہ باقی نہیں بچتا وہ کرپشن کا راستہ اختیار کرتا ہے تاکہ معاشرتی تقاضوں کو پورا کیا جا سکے‘ جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ یہ طے ہے کہ جب تک یہ سسٹم ٹھیک نہیں ہوتا رشوت‘ کرپشن اور سفارش کا چلن بھی ختم نہیں ہو سکے گا۔ پھر ایسی ہی خبریں سامنے آتی رہیں گی کہ فلاں کلرک کے کروڑوں کے اثاثے نکل آئے اور دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ ایمانداروں اور سفید پوشوں کے لیے اپنی ایمانداری اور سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا بھی مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ کرپشن کے خاتمے کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات تو کیے جاتے ہیں لیکن اس طرح کے کہ شہر میں داخلے کے راستوں پر کھڑے ہو کر دودھ چیک کر کے خراب دودھ کو ضائع کر دینا اور شہر کے ہر گلی بازار میں دکانوں پر 24گھنٹے دستیاب دودھ اور دہی کے معیار کو کبھی چیک نہ کرنا۔ کبھی یہ نہ دیکھنا کہ وہ اتنا دودھ کہاں سے حاصل کرتے ہیں۔ جہاں سے جعلی‘ نقلی‘ دو نمبر اور مشینوں کا بنا ہوا دودھ دکانوں کو سپلائی ہوتا ہے ان سوتوں کو اگر ختم کر دیا جائے تو گلی محلوں میں پیسے دے کر بیماریاں مول لینے کا سلسلہ بھی ختم ہو جائے‘ لیکن بند تو تب ہو کہ کوئی بند کرنا چاہے۔ دودھ کا معاملہ بھی وہیں ہے اور رشوت کا سلسلہ بھی وہیں۔ ہمارے اپنے ملک میں کئی کالا کپہ نیگا گُندی بیٹھے ہوئے ہیں‘ ہم بھارتی سسٹم کا مذاق کیسے اڑائیں؟