"IYC" (space) message & send to 7575

زود پشیمانی

کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
مرزا غالب کا یہ شعر مجھے جرمن چانسلر فریڈرک مرز کی جانب سے کیے گئے اس اعلان کے بعد مسلسل یاد آ رہا ہے کہ جرمنی اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمد روک رہا ہے۔ جرمن چانسلر کا یہ فیصلہ اسرائیلی سکیورٹی کابینہ کی جانب سے وزیراعظم نیتن یاہو کی غزہ پر فوجی قبضے کی تجویز کی منظوری دینے کے ردِ عمل میں سامنے آیا ہے۔ ممکن ہے اس فیصلے کے پس منظر میں اسرائیلی وزیراعظم کے کچھ اور فیصلوں کا بھی عمل دخل ہو۔
دنیا بھر کے ممالک کی جانب سے اسرائیلی کابینہ کے اس فیصلے کی شدید مذمت کی جا رہی ہے اور اسے ظلم قرار دیتے ہوئے اسرائیل کو غزہ پر مکمل قبضہ کرنے سے باز رہنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اسرائیل سے اس منصوبے پر عملدرآمد فوری روکنے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر نے غزہ پر قبضے کے منصوبے کو غلط قرار دیتے ہوئے اسرائیلی حکومت سے فیصلے پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا ہے۔ آسٹریلیا نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ وہ اس راستے پر نہ چلے جو صرف غزہ میں انسانی المیے کو مزید بدتر کرے گا حتیٰ کہ اسرائیلی فوج کے سربراہ ایال زمیر نے غزہ شہر پر قبضے کے منصوبے کی مخالفت کی اور کہا ہے کہ اس سے باقی ماندہ مغویوں کی جان خطرے میں پڑ جائے گی‘ جن میں سے تقریباً 20کے زندہ ہونے کا یقین ہے‘ اور یہ اقدام اسرائیلی فوجیوں کو تھکا دے گا جبکہ اسرائیل کی بین الاقوامی ساکھ کو بھی نقصان پہنچے گا۔ رپورٹ کے مطابق ایال زمیر نے اس کے بجائے غزہ کی پٹی کے گرد اضافی محاصرہ کرنے کی تجویز دی‘ لیکن سوال یہ ہے کہ نیتن یاہو نے اس سے پہلے کس کی تلقین سنی ہے جو اَب وہ عالمی برادری کی بات مان جائے گا؟
غزہ سلگ رہا ہے۔ اس کی عمارتوں اور گلی‘ محلوں سے بارود‘ دھوئیں‘ جلی کٹی لاشوں اور ہر طرف پھیلے خون کی بُو اٹھ رہی ہے۔ یہاں کے باشندے خوراک نہ ملنے کی وجہ سے ہڈیوں کے ڈھانچے بنتے جا رہے ہیں۔ ہزاروں بھوک کی شدت کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو چکے ہیں اور باقی منتظر ہیں کہ انہیں کہیں سے پیٹ میں ڈالنے کے لیے چند نوالے ہی میسر آ جائیں۔ اسرائیل نے غزہ کا پورا علاقہ تاخت و تاراج کر دیا۔ تباہی و بربادی کی ایسی داستان رقم کر دی کہ اگر ہٹلر‘ چنگیز خان اور ہلاکو خان بھی سنیں تو حیران رہ جائیں کہ اتنی سفاکیت کا مظاہرہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ العربیہ اردو نیوز کے مطابق غزہ میں اسرائیل کی بائیس ماہ کی جنگ نے اس قدر تباہی مچائی ہے کہ غزہ کی پٹی اب محض ملبے کا ڈھیر اور تاریکی کا گھر بن چکی ہے۔ اندازہ یہ ہے کہ غزہ کے فلسطینیوں کے گھروں‘ دکانوں‘ سکولوں‘ مسجدوں اور ہسپتالوں کے ملبے کا مجموعی حجم 53.5ملین ٹن ہو چکا ہے۔ 70 فیصد عمارتوں کو اسرائیلی فوج نے بمباری کر کے مکمل تباہ کر دیا ہے۔ اسی تباہی کے نتیجے میں غزہ کے بیس لاکھ سے زائد فلسطینی بے گھر ہو کر بار بار نقل مکانی پر مجبور ہو رہے ہیں۔ غزہ کے تقریباً سارے ہی حصوں میں سول انفراسٹرکچر ہدف بنا کر برباد کیا گیا ہے۔ اسرائیلی فوج کی بمباری اور فائرنگ کے نتیجے میں اب تک 59ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور جو باقی بچے ہیں وہ اپاہج ہیں‘ بھوکے ہیں اور بے گھر ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق دس ہزار سے زائد فلسطینیوں کی لاشیں اسی 53ملین ٹن ملبے کے نیچے دبی ہیں کیونکہ اس ملبے کو ہٹانے کا کوئی بندوبست ہے اور نہ ان دس ہزار لاپتہ ہو چکے فلسطینیوں کے بارے میں کوئی دوسری اطلاع ہے۔
یہ سب کچھ عالمی برادری اور یورپی ممالک کی آنکھوں کے بالکل سامنے رونما ہوا اور یہ لوگ اس اسرائیل کو اسلحہ اور بارود فراہم کرتے رہے جو ناجائز طور پر فلسطینی علاقوں پر قابض ہو چکا ہے اور مزید بھی ہو رہا ہے۔ نہ کسی کو یہ تباہی نظر آئی‘ نہ کسی کو بلکتے بچے نظر آئے‘ نہ کسی کو پیدا ہونے والے انسانی المیوں کا خیال آیا لیکن اب جبکہ غزہ مکمل طور پر تباہ و برباد ہو چکا ہے اور اس کی بحالی کا کوئی امکان باقی نہیں رہا تو مغربی ممالک کو خیال آ رہا ہے کہ اسرائیل کو اسلحہ کی فراہمی ترک کر دینی چاہیے اور فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لینا چاہیے۔ کون سی فلسطینی ریاست؟ وہ ریاست جہاں تباہی و بربادی کے سوا کہیں کچھ نظر نہیں آتا؟ جہاں نصف لاکھ سے زیادہ لوگ اپنی جانوں کی بازی ہار چکے ہیں اور جو زندہ ہیں وہ بھی زندہ کہاں ہیں‘ زندہ لاشیں ہیں۔ اس فلسطین کو تسلیم کرنے جا رہے ہیں یہ لوگ؟ یہ خیال اس وقت پیدا کیوں نہیں ہوا جب اسرائیل کی جانب سے غزہ کی انسانی آبادیوں کو توپوں کے گولوں اور راکٹوں سے نشانہ بنایا جا رہا تھا؟ اس وقت اگر اسرائیل کو اسلحہ کی فراہمی بند کر دی جاتی تو شاید اتنی تباہی نہ پھیلتی‘ شاید اتنے لوگ بلکتے نظر نہ آتے۔ ہمارے مذہب اسلام میں تو یہ کہا گیا ہے کہ ایک انسان کا ناجائز قتل پوری انسانیت کے قتل کے برابر ہے۔ وہ جنہوں نے غزہ کی پوری آبادی کو شہید کر دیا‘ عمارتوں کو ملیامیٹ کر دیا‘ ان کے لیے پتا نہیں کون سا عذاب اللہ تعالیٰ نے تیار کر رکھا ہو گا اور پتا نہیں ان پر کب یہ عذاب نازل ہو گا۔
امریکہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف لائی جانے والی ہر قرارداد کو ویٹو کیا جاتا ہے۔ امریکہ کی جانب سے کھلم کھلا یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ وہ اسرائیل کا حامی ہے اور اس کی ہر طرح سے مدد کر رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ اس کو اسلحہ بھی فراہم کیا جائے گا اور اس کی مالی مدد بھی کی جائے گی۔ اب تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس دوڑ میں اتنے آگے جا چکے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کو ابراہم معاہدے کا حصہ بننے یعنی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ہدایت دے رہے ہیں۔ اس کے باوجود عالمی برادری پتا نہیں کس معجزے کے انتظار میں ہے کہ وہ رونما ہو‘ یہودیوں کو سزا ملے اور غزہ کی تباہی بحال ہو جائے۔ اس زود پشیمانی کو کیا نام دیا جائے جس کا مظاہرہ مغربی ممالک کر رہے ہیں۔ اس جدید دنیا میں اگر اس طرح کھلم کھلا غنڈہ گردی سے دوسرے ممالک کے علاقوں پر قبضہ کیا جاتا رہا تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آنے والے کل کی دنیا کیسی ہو گی اور ہمارے بچوں کا مستقبل کیسا ہو گا؟
مجھے تو مشرق وسطیٰ میں گریٹر اسرائیل بننے کے تمام لوازمات پورے ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اسرائیل نے وہاں وہاں تک اپنے پاؤں پھیلا لیے ہیں جہاں تک اس کی فوج کی پہنچ ہو سکتی تھی۔ حماس کی صورت میں اس کے راستے میں ایک مزاحمت اب تک موجود ہے۔ یہ مزاحمت ختم ہو گئی تو مشرق وسطیٰ کے ممالک کو یہودیوں کی ریشہ دوانیوں سے بچانے والا کوئی نہ ہو گا۔ اب آپ کو سمجھ آ رہی ہو گی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بار بار غزہ سے وہاں کے باشندوں کے انخلا کی بات کیوں کی جا رہی تھی۔ وہ دراصل غزہ کو مکمل قبضے میں لینے کا منصوبہ تھا۔ غزہ کے لوگ ایک بار اپنا علاقہ چھوڑ دیتے تو دوبارہ ان کو وہاں کس نے بسنے دینا تھا۔ اس بربادی کا ذمہ دار امریکہ تو ہے ہی‘ مغرب کے دوسرے ممالک بھی کم ذمہ دار نہیں ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں