سیلاب میں ڈوبے لوگوں کا دکھ کتنا گہرا‘ کتنا شدید ہے یہ صرف وہی جانتے ہیں جو سیلاب زدہ ہیں۔ اس حقیقت کا انکشاف گزشتہ روز اپنے ٹی وی پروگرام کی آؤٹ ڈور ریکارڈنگ کے دوران لوگوں کی آہیں سن کر اور آنسو دیکھ کر ہوا۔ اس انکشاف کے باوجود ہم سیلابی پانی سے محفوظ حدوں میں رہنے والے لوگ صرف ایک حد تک ہی سیلاب زدگان کی تکالیف‘ مشکلات اور دکھوں کا احساس کر سکتے ہیں۔
جس تن لاگے سو تن جانے اور نہ جانیں لوگ
من کی پیڑا جانے جس کے جی کو لاگا روگ
اس ضرب المثل یا محاورے کا خالق کون ہے یہ تو میں نہیں جانتا لیکن جس نے یہ بات کی ہے بالکل درست کی ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ سیلاب زدگان کے گھر پانی میں بہہ چکے ہیں‘ املاک تباہ ہو چکی ہیں اور دیہات میں رہنے والوں کے مویشیوں کا کچھ پتا نہیں کہ وہ کس حالت میں ہیں۔ سیلاب آنے پر جب کوئی بندہ گھر میں سارا سامان چھوڑ کر اپنے خاندان والوں کو لے کر باہر نکلتا اور کسی محفوظ جگہ کی راہ لیتا ہے تو وہی جانتا ہوتا ہے کہ اس کے دل پر کیا بیت رہی ہے۔ جب کوئی گاؤں والا اپنے کئی کئی لاکھ کے مویشیوں کے گلے میں سے رسی اتارتا ہے تاکہ وہ جانور سیلابی پانی سے خود کو بچا سکیں تو وہی جانتا ہے کہ لاکھوں کے اس نقصان پر اس کا دل کس طرح خون کے آنسو رو رہا ہوتا ہے۔ وہ نہیں جانتا ہوتا ہے کہ اس کے مویشی اسے پھر مل سکیں گے یا نہیں۔ وہ نہیں جانتا ہوتا کہ جب وہ واپس لوٹے گا تو اس کا گھر سلامت بھی ہو گا یا نہیں اور اس کی زندگی بھر کی جمع پونجی محفوظ بھی ہو گی یا نہیں‘ اس نے اپنے خاندان کی سال بھر کی ضروریات کے لیے جو غلہ محفوظ کیا تھا وہ انہیں کھانا نصیب بھی ہو سکے گا یا نہیں۔ اس کے باوجود وہ دل کڑا کر کے‘ اللہ کا نام لے کر گھر سے نکلتا ہے کہ زندگی تو بچائی جا سکے۔ زندگی رہے تو نقصانات کا ازالہ بھی ممکن ہو جاتا ہے۔
یہ حقیقت دل کو تقویت دیتی ہے کہ اس گئے گزرے دور میں بھی جب چار سُو نفسانفسی کا عالم ہے اور ہر بندہ سماجی اور معاشرتی رویوں کا شکوہ کرتا نظر آتا ہے‘ انسانیت ابھی زندہ ہے‘ چنانچہ مشاہدے میں آتا ہے کہ ہم پاکستانی اپنے ہم وطنوں کا دکھ دور کرنے اور درد بٹانے کے لیے ہر دم تیار رہتے ہیں۔ یہ جذبہ 2005ء کے تباہ کن زلزلے کے بعد نظر آیا تھا اور 2010ء کے سپر سیلاب کے دوران بھی۔ پھر جب 2022ء میں سیلابی پانی نے وسیع رقبوں کو غرقاب کر دیا تھا تو اس وقت بھی پاکستانی عوام نے بڑھ چڑھ کر اپنے مصیبت زدہ ہم وطنوں کی ہر طرح سے مدد کی تھی۔ اب ایک بار پھر امتحان کی گھڑی آئی ہے‘ پہلے صوبہ خیبر پختونخوا‘ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں سیلابی ریلوں نے تباہی مچائی اور اب شدید بارشوں اور بھارت کی جانب سے روکا گیا پانی چھوڑے جانے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سیلابی صورتحال نے سب کو الرٹ کر دیا ہے اور لوگ ہر طرح سے سیلاب زدگان کی مدد کر رہے ہیں۔
سیلاب زدگان کو راشن‘ رہنے سہنے کی جگہ‘ مالی و طبی مدد کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔ فلاحی اداروں کی جانب سے ان کی مقدور بھر مدد کی جا رہی ہے‘ لیکن وہ ایک حد سے زیادہ مدد نہیں کر سکتے۔ یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ متاثرین کی ہر ممکن مدد کو یقینی بنائے۔ سیلاب سے محفوظ عوام پر بھی اپنے پریشان ہم وطنوں کی مدد فرض ہو جاتی ہے۔ سیلاب زدگان کو کھانے پینے کی ایسی اشیا کی ضرورت ہے جو آگ کے بغیر کھانے کے قابل بنائی جا سکیں کیونکہ سیلاب زدہ علاقوں میں چولہا اور برتن وغیرہ کی دستیابی ناممکن ہوتی ہے۔ یہ چیزیں دستیاب ہوتی بھی ہیں تو محدود۔ پکے پکائے کھانے کا سیلاب متاثرین کو زیادہ فائدہ نہیں ہوتا۔ یہ کھانا ان تک پہنچانا مشکل ہوتا ہے۔ اگر پہنچ بھی جائے تو اس کھانے کو زیادہ دیر کے لیے رکھا نہیں جا سکتا‘ یہ خراب ہو جاتا ہے۔ انہیں نقد پیسے دینا بھی سیلاب زدگان کے لیے فائدہ مند نہیں ہے کیونکہ وہ اس قابل نہیں ہوتے کہ ان پیسوں سے کھانے پینے کی چیزیں خرید سکیں‘ کہیں کوئی مارکیٹ یا دکان وغیرہ بھی نہیں ہوتی کہ وہ خریداری کر سکیں۔ بہتر طریقہ یہی ہے کہ این ڈی ایم اے یا پی ڈی ایم ایز کو کھانے پینے کی چیزیں پہنچائی جائیں تاکہ وہ انہیں سیلاب زدگان تک پہنچا سکیں۔
اب سوال یہ ہے کہ سیلاب زدگان کو کون سی چیزیں پہنچائی جانی چاہئیں؟ ترپال یا خیمے متاثرین کی بنیادی اشیا میں شامل ہیں۔ بے گھر ہونے والے خاندانوں کے لیے اوّلین مسئلہ سر چھپانے کا انتظام ہوتا ہے۔ خیمے اتنے سائز کے ہونے چاہئیں جن میں آٹھ سے دس افراد رہ سکیں۔ خوراک میں بسکٹ‘ گڑ یا چنے وغیرہ یعنی خشک خوراک بھجوانی چاہیے۔ کچے چاول‘ دالیں‘ کوکنگ آئل‘ چینی اور خشک دودھ وغیرہ بھی بھجوائے جا سکتے ہیں لیکن ان علاقوں میں جہاں کھانا پکانے کے انتظامات اور لوازمات ہوں۔ کوشش کریں تمام کھانے کی چیزوں کو اچھی طرح پیک کیا جائے۔ پینے کا صاف پانی سیلاب متاثرین بے گھر افراد کے لیے اشد ضروری چیز ہے۔ کھانے کے بغیر ایک انسان ایک دو دن زندہ رہ سکتا ہے‘ پانی کے بغیر کوئی بھی زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ بوتلوں میں بند منرل واٹر سیلاب متاثرین کی ضروریات کو خاصی حد تک پورا کر سکتا ہے۔ امدادی سامان میں پانی کو صاف کرنے والی گولیاں شامل کر دی جائیں تو سیلاب متاثرین پینے کے پانی میں انہیں ڈال کر استعمال کر سکتے ہیں۔ اس طرح وہ آلودہ پانی سے لگنے والی بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں گے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے اس لیے ہیضے‘ پیچش‘ بخار وغیرہ کی ادویات ان کو بھجوائی جا سکتی ہیں۔
یہ ساری باتیں اور یہ سارے اقدامات اپنی جگہ اہمیت و افادیت کے حامل ہیں لیکن معاملہ یہیں تک محدود نہیں ہے۔ ہمارا ملک موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں آنے والے دس بڑے ممالک میں شامل ہے اور حالات کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے طرزِ عمل میں تبدیلی لائیں اور عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کم کرنے کے سلسلے میں ہونے والی منصوبہ بندی میں تیزی لانے کی ضرورت پر زور دیں۔ گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ ایک بڑا ڈیم ناگزیر ہو چکا ہے۔ اس سے ملک کی پانی کی ضروریات پوری ہوں گی‘ سستی بجلی پیدا کی جا سکے گی اور ظاہر ہے کہ سیلابوں سے بچاؤ بھی ممکن ہو سکے گا‘ جو اَب زیادہ کثرت اور شدت کے ساتھ آنے لگے ہیں۔ اس سلسلے میں کالاباغ ڈیم کا نام بار بار سامنے آ جاتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر اگر کوشش کریں تو اس ڈیم کی تعمیر کی راہ استوار کی جا سکتی ہے۔ پھر کہوں گا‘ یہ ڈیم بن جائے تو پاکستان کے آدھے سے زیادہ معاشی مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ عالمی بینک نے اپنی کنٹری کلائمیٹ اینڈ ڈویلپمنٹ رپورٹ میں پاکستان کے دو بڑے شہروں‘ لاہور اور کراچی کو ملک کے سب سے زیادہ ماحولیاتی خطرے سے دوچار شہر قرار دیا اور کہا ہے کہ لاہور اور کراچی میں ماحولیاتی خطرات انسانی جانوں اور معیشت کے لیے شدید نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے ملک کا ہر شہر لاہور اور کراچی کی طرح ہی عزیز ہے۔ کسی بھی تباہی اور کسی بھی شہر میں خرابی دیکھی نہیں جا سکتی۔ ان کو بچانے میں جتنا کردار ہم ادا کر سکتے ہیں‘ وہ تو ادا ہونا چاہیے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے موسمیاتی تبدیلیوں سے بروقت نمٹنے کے لیے اعلیٰ سطح کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ دیکھتے ہیں اس مجوزہ اجلاس کی پٹاری سے کیا نکلتا ہے۔