صوبائی حکومت نے پنجاب کے تمام جنگلات کی کٹائی اور لکڑی کی نیلامی پر فوری پابندی عائد کر دی ہے۔ حکم نامے کے مطابق جدید ٹیکنالوجی اور میپنگ کی مدد سے نئے اور شفاف قواعد و ضوابط بنائے جائیں گے۔ جنگلات‘ جنگلی حیات اور ماہی پروری کے محکمے کے ڈائریکٹر جنرل کو حکم نامے پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے یہ اقدام صوبے کے جنگلات کے تحفظ اور زمین کو کٹاؤ سے محفوظ بنانے کے لیے کیا ہے۔ مستقبل میں نیلامی سے قبل اعلیٰ معیار کی وڈیوز اور فوٹوز بھی دی جائیں گی۔ یہ فیصلہ ہے تو اچھا لیکن محسوس ہوتا ہے کہ خاصا تاخیر سے کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ چند سال پہلے ہو جاتا تو شدید موسمیاتی اثرات کے حوالے سے حالات یقینا مختلف ہوتے۔ اب تو حالات شدید سیلابوں اور ان سے ہونے والی تباہ کاریوں تک پہنچ چکے ہیں۔ اس تباہی میں زیادہ قصور ترقی یافتہ ممالک کا ہے تو کچھ بربادی کے ذمہ دار ہم خود بھی ہیں۔
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں جنگلات کا رقبہ عالمی معیار سے کم ہی نہیں بلکہ بہت کم ہے۔ اس پر مستزاد جنگلات مافیا کی غیرقانونی سرگرمیاں اور دوسرے مقاصد کے لیے درختوں کا کاٹا جانا۔ ڈی ڈبلیو کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں جنگلات کا رقبہ نہایت محدود ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کی 2019ء میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف ایک کروڑ دس لاکھ ایکڑ کے لگ بھگ رقبہ جنگلات کے زیرِ اثر ہے جو ملک کی مجموعی زمینی حدود کا صرف پانچ فیصد بنتا ہے۔ یہ شرح نہ صرف عالمی اوسط یعنی 31فیصد سے بلکہ خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بھی انتہائی تشویشناک حد تک کم ہے۔ ملک میں کم ہوتے ہوئے جنگلات کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں درختوں کا کاٹنا‘ آگ کا لگنا یا لگا دیا جانا‘ ایندھن کے طور پر لکڑی کا استعمال اور ٹمبر مافیا پر حکومت کی کمزور گرفت شامل ہیں۔ نیلامی کے نام پر جنگلات کے درخت بے رحمی سے کاٹ لیے جاتے تھے اور پیسہ چند جیبوں میں چلا جاتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ پنجاب حکومت کی جنگلات کی کٹائی اور لکڑی کی نیلامی پر پابندی مکمل اور حقیقی پابندی ثابت ہو سکے گی؟
اس سوال کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے گا‘ فی الوقت پوری قوم کے پیشِ نظر ایک اور ایشو‘ ایک اور سوال ہے۔ یہ سوال کہ جو سیلاب آیا ہے اور اس نے جو تباہی مچائی ہے‘ اس کے ملکی معیشت‘ زرعی و صنعتی شعبے اور عام آدمی پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ سیلابی پانی کھیتوں کو اجاڑ دیتا ہے۔ گندم‘ مکئی‘ سبزیاں‘ پھل اور چارہ سب کچھ برباد ہو جاتا ہے۔ کسان جو پہلے ہی مہنگائی اور قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوتے ہیں‘ وہ سب سے بڑا نقصان اٹھاتے ہیں۔
سیلاب سے پیدا ہونے والی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ کاشتہ فصلیں سیلاب برد ہو جانے اور اجناس و خوراک کے ذخیرے ڈوب جانے کی وجہ سے منڈی میں کھانے پینے کی اشیا کی کمی واقع ہو گی۔ وفاقی وزارتِ خزانہ نے بھی کہا ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں مون سون بارشوں اور سیلاب کے نتیجہ میں ہونے والے نقصانات سے مالی دباؤ اور متاثرہ علاقوں میں اشیائے خوراک کی سپلائی چین میں رکاوٹیں پیش آ سکتی ہیں۔ پاکستان کی آبادی بہت زیادہ ہے۔ یہاں امیر طبقے کی قوتِ خرید بھی خاصی زیادہ ہے۔ اس لیے جب سپلائی کم اور ڈیمانڈ زیادہ ہو گی تو یقینی طور پر مہنگائی میں اضافہ ہو گا۔ مرغی‘ گوشت‘ مچھلی‘ آٹا‘ دالیں‘ سبزیاں اور دودھ تک کی قیمتیں بڑھ جانے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ سیلاب کی وجہ سے چارہ کم یاب ہو گا تو مہنگا ہو جائے گا جس کے نتیجے میں دودھ‘ گوشت اور پولٹری کی پیداوار متاثر ہو گی۔ سیلاب میں پولٹری اور لائیو سٹاک کی بڑی تعداد اور مقدار میں ہلاکتیں گوشت کی پیداوار اور سپلائی لائن کو متاثر کریں گی۔ مہنگائی کی وجہ سے ہر چیز کی پیداواری لاگت بڑھے گی اور عام آدمی کے لیے بنیادی خوراک کا حصول بھی شاید مشکل ہو جائے گا۔ اگر بروقت منصوبہ بندی اور دیانتداری نہ دکھائی گئی تو آنے والے دن سب پر بھاری ثابت ہو سکتے ہیں۔
سیلاب سے جہاں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے وہاں کچھ امید کی کرنیں بھی پھوٹی ہیں۔ کچھ ایسے علاقے بھی ہیں جہاں لوگ سیلاب سے فائدے کی توقع کر رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جہاں جہاں سے سیلاب کا پانی گزرا ہے وہاں زرخیز مٹی کی ایک تہہ بن گئی ہے جو اگلی فصلوں کی اچھی پیداوار کی ضامن ہے۔ میرے خیال میں یہ بعد کی باتیں ہیں۔ سب سے پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ سیلاب سے جو نقصان ہو چکا ہے اس کا ازالہ کیسے ممکن ہو گا؟ جہاں جہاں اجناس کے ذخائر موجود ہیں‘ ان کا فوری جائزہ لیا جائے اور اندازہ لگایا جائے کہ آیا یہ ملک کی اگلے چھ ماہ کی ضروریات کے لیے کافی ہیں؟ اگر کافی ہیں تو ٹھیک‘ بصورت دیگر اجناس کی مناسب مقدار میں درآمد کا انتظام کیا جانا چاہیے اور وقت رہتے کیا جانا چاہیے۔
خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے بعد ایک اور مرحلہ یہ درپیش ہو گا کہ سیلاب زدگان کو پھر سے کیسے بسایا جائے۔ جن لوگوں کے مال مویشی سیلاب میں بہہ گئے ہیں ان کو پھر سے نارمل زندگی گزارنے کے قابل کیسے بنایا جائے؟ میرے خیال میں سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے جو اقدامات بھی کیے جائیں ایسے ہونے چاہئیں کہ آئندہ اگر خدانخواستہ کبھی ایسا سیلاب آئے تو ان کا بچاؤ یقینی ہو جائے۔ اس کے لیے بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کی ضرورت ہو گی‘ کیونکہ وعدے اور دعوے 2005 ء کے جان لیوا زلزلے کے بعد بھی بہت کیے گئے تھے کہ بحالی کے اقدامات کے حوالے سے اب ایسے مکانات تعمیر کیے جائیں گے کہ اگر خدانخواستہ زلزلہ آئے تو وہ مکانات اس کے جھٹکے برداشت کر سکیں۔ اس کے لیے جاپان کی مثال دی گئی تھی جہاں سال بھر میں کم و بیش 1500زلزلے آتے ہیں اور جاپان والوں نے اب ایسے مکانات تعمیر کرنا شروع کر دیے ہیں جو وافر تعداد میں آنے والے زلزلوں کو سہہ سکتے ہیں۔ کوئی مجھے بتا سکتا ہے کہ زلزلہ پروف کتنے مکانات پاکستان میں تعمیر کیے گئے؟
دنیا کے بڑے ممالک کے قوانین اور پالیسیوں کے نتیجہ میں ہی پوری دنیا میں موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جن کے اثرات کئی ممالک بالخصوص پاکستان پر سب سے زیادہ مرتب ہو رہے ہیں۔ اس لیے ان تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے چھوٹے ممالک کے نقصانات کا ازالہ کرنے کی ذمہ داری انہی ممالک کی بنتی ہے جو موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہونے کے ذمہ دار ہیں۔ اس ذمہ داری کا ایک حصہ سیلاب زدگان کی بحالی پر خرچ کیا جانا چاہیے۔ 2022ء میں آنے والے سیلاب کے بعد کچھ ممالک نے پاکستان کی مالی مدد کی تھی۔ اہم سوال یہ ہے کہ آیا وہی ممالک ایک بار پھر پاکستان کی مدد کے لیے آگے آئیں گے؟ آگے آئیں گے تو پاکستان کو کتنی مدد مل سکے گی اور اگر وہ آگے نہیں آتے تو اس صورت میں حکومت سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے کیا کرے گی؟ جناب وزیراعظم شہباز شریف ان دنوں چین کے دورے پر ہیں۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ ان کی وطن واپسی کے بعد ایک آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے اور تمام سیاسی و معاشی سٹیک ہولڈرز سے پوچھا جائے کہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ کوئی نہ کوئی اچھا مشورہ ضرور آئے گا۔