"IYC" (space) message & send to 7575

یہ جو پبلک ہے‘ یہ سب جانتی ہے!

عوام کے احتجاج نے ایک اور وزیراعظم کو مستعفی ہونے اور ہیلی کاپٹر پر فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔ اس بار ملک ہے نیپال‘ اور عوام کے احتجاج کی وجہ حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر لگائی گئی پابندی تھی۔ لوگوں کو حکومت کا یہ فیصلہ پسند نہ آیا اور انہوں نے دارالحکومت کٹھمنڈو میں مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ سرکاری مشینری کے ذریعے احتجاجیوں کو منتشر کرنے کی کوشش کی گئی تو معاملہ پُر تشدد ہو گیا۔ کٹھمنڈو سمیت دیگر شہروں میں ہونے والے احتجاج کے دوران پولیس اور مظاہرین میں شدید جھڑپیں ہوئیں اور مختلف واقعات میں 19افراد ہلاک ہو گئے۔ پُر تشدد ہجوم نے وزیراعظم کے پی شرما اولی اور صدر رام چندرا پاؤڈل کی ذاتی رہائش گاہوں کو آگ لگا دی‘ اور توڑ پھوڑ کی۔ مشتعل افراد نے سابق وزرائے اعظم پشپا کمل دہال (پرچنڈا) اور شیر بہادر دیوبا کے گھروں سمیت وزیر توانائی دیپک کھڑکا کی رہائش گاہ کو بھی نقصان پہنچایا جبکہ پارلیمنٹ ہاؤس کو بھی نذر آتش کر دیا۔ حکومت کی جانب سے ملک بھر میں کرفیو کے نفاذ کے باوجود احتجاج جاری رہنے پر کئی وزرا نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے کر حکومت سے لا تعلقی کا اظہار کر دیا۔ عوامی دباؤ بڑھنے پر وزیراعظم کے پی شرما اولی نے اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو طلب کر کے کہا ہے کہ پُر تشدد احتجاج کسی کے مفاد میں نہیں اور وہ مسائل کا حل بات چیت کے ذریعے تلاش کریں گے‘ تاہم احتجاج جاری رہنے پر وزیراعظم نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ نیپالی وزیر خزانہ کا مشتعل عوام نے جو حال کیا وہ بیان سے باہر ہے۔ مظاہرین بدعنوانی اور حکومتی اشرافیہ کے بچوں کو ملنے والے ناجائز فوائد نیپو کڈز اور نیپو بے بیز (Nepo Kids and Nepo Babies) کے خلاف بھی نعرے بازی کر رہے ہیں‘ ان کے ہاتھوں میں بینرز تھے جن پر لکھا تھا کہ ''بدعنوانی بند کرو‘ سوشل میڈیا نہیں‘‘۔
قبل ازیں گزشتہ سال بنگلہ دیش میں کرپشن اور اقربا پروری کے خلاف ہونے والے طلبہ احتجاج نے وزیراعظم حسینہ واجد کو ہیلی کاپٹر پر ملک سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ ایسی اور بھی مثالیں ڈھونڈی اور پیش کی جا سکتی ہیں۔ بنگلہ دیش میں بھی پہلے سے جاری احتجاج کو دبانے کے لیے جب انٹرنیٹ بند کیا گیا تو اس نے حکومت مخالف احتجاج کے شعلوں کو مزید ہوا دینے کا کام کیا۔ وائس آف امریکہ نے اپنی 19جولائی 2024ء کی ایک رپورٹ میں لکھا تھا: بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف طلبہ کے ہنگامہ خیز احتجاج کے باعث صورتِ حال بدستور کشیدہ ہے جب کہ ملک بھر میں نیوز چیلنجز‘ موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس معطل ہے۔
اس ساری تمہید کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ حکمران (چاہے وہ کسی بھی ملک کے ہوں) اگر آج کے عوام کو لا علم اور جاہل سمجھتے ہیں تو یہ ان کی سب سے بڑی بھول اور غلطی ہے۔ لوگ بولیں یا نہ بولیں‘ اظہار کریں یا نہ کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ سب کچھ جانتے ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ‘ وہ کچھ بھی جانتے ہوتے ہیں جو حکمران سمجھتے ہیں کہ وہ نہیں جانتے۔ وہ دور لد گئے جب عوام بھیڑ بکریوں کی طرح اپنے لیڈروں کی ہر بات پر اعتبار کر لیا کرتے تھے۔ یہ مواصلاتی رابطوں کا دور ہے۔ اس میں کسی سے کوئی بات چھپی رہنا یا کسی سے کوئی بات چھپائے رکھنا ناممکن ہے۔ یہ انٹرنیٹ‘ سوشل میڈیا اور سیٹلائٹ کونیکشنز کا دور ہے جس میں کسی کو ان نعمتوں سے محروم رکھنے کا سوچنا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں شمار ہو سکتا ہے۔
اقوام متحدہ نے 2016ء میں انٹرنیٹ تک رسائی کو ایک بنیادی انسانی حق قرار دیا تھا۔ کسی ملک کے ہر باشندے تک انٹرنیٹ کی رسائی کو ممکن بنانا اقوام متحدہ کے سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز (Sustainable Development Goals) میں بھی شامل ہے‘ مگر دنیا کی ساری حکومتیں اور حکمران اقوام متحدہ کی اس سوچ سے متفق نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وقتاً فوقتاً مختلف ممالک میں انتظامیہ کی جانب سے انٹرنیٹ کی بندش یا اس کی رفتار سست کرنے جیسے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ ان حکومتوں اور حکمرانوں کا خیال ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا عوامی رابطے کا تیز ترین ذریعہ ہے اور یہ ان کے خلاف عوامی جذبات کو انگیخت کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا بھر کی حکومتیں انٹرنیٹ کی بندش کو عوامی جذبات کو دبانے کے لیے استعمال کر رہی ہیں‘ جیسا کہ گزشتہ دنوں نیپال میں کیا گیا اور اس پر شدید عوامی ردعمل آیا۔ اگست 2019ء میں ایتھوپیا کے وزیراعظم آبی احمد (Abiy Ahmed Ali) نے اعلان کیا تھا کہ انٹرنیٹ پانی یا ہوا نہیں ہے اور اسے شٹ ڈاؤن کرنا قومی سلامتی کو یقینی بنانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ نئی دہلی نے گزشتہ برس 121مرتبہ انٹرنیٹ بند کیا۔ ان بندشوں میں سے 67فیصد کا اطلاق کشمیر کے مقبوضہ علاقے میں کیا گیا اور وہاں سے مودی حکومت کو شدید رد عمل کا سامنا بھی کرنا پڑا‘ لیکن حالات پھر بھی بہت زیادہ تبدیل نہیں ہوئے۔
حالات جس نہج تک پہنچ چکے ہیں اس کے بعد یہی کہا جا سکتا ہے کہ نیپال ہو یا بھارت‘ کسی بھی حکومت کو انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا کی بندش کے بارے نہیں سوچنا چاہیے ورنہ ان کا حال بھی نیپالی وزیراعظم کے پی شرما اولی اور وزیر خزانہ بشنو پاؤڈل جیسا ہو سکتا ہے۔ عوام جب اپنے حقوق کے لیے بپھر جائیں تو انہیں روکنا محال نہیں ناممکن ہو جاتا ہے۔ لوگوں کے جائز حقوق کو دبایا جائے تو پھر بھی تند سیلاب بن جاتے ہیں۔ سب کچھ بہا لے جاتے ہیں۔ میری نظر میں اس مسئلے کا سب سے اچھا حل یہی ہے کہ ایک تو ہر ملک کے حکمران عوام کے ساتھ بلف کھیلنا بند کر دیں اور صرف سچی بات ہی کریں کیونکہ اب جھوٹ فوراً پکڑا جاتا ہے۔ ہر بندے کے ہاتھ میں موبائل فون ہے جس میں ڈیٹا نکالنا چند سیکنڈز کا عمل ہے‘ اور وہ ایک منٹ میں جھوٹ بولنے والے کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیتے ہیں۔ دوسرے ہر ملک کے حکمرانوں کو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو پابند کرنے یا اپنی طاقت استعمال کرتے ہوئے رابطوں کے ان سلسلوں کی رفتار سست کرنے کے بجائے اپنی گورننس بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ لوگ اب بے سر پیر کے دعووں اور وعدوں پر یقین کرنے کے لیے ہرگز تیار نہ ہوں گے۔ گزشتہ برس جو کچھ بنگلہ دیش میں ہوا اور جو کچھ اب نیپال میں ہوا ہے‘ اس کے بعد کیا مودی حکومت میں اتنی جرأت ہو سکتی ہے کہ اپنے ہاں سوشل میڈیا پر پابندی لگائے اور انٹرنیٹ کی رفتار محض اس لیے سست کرے کہ عوام کی سماجی رابطوں کی ایپس تک رسائی کو محدود کیا جائے؟ بنگلہ دیش اور نیپال میں جو کچھ ہوا وہ نوشتہ دیوار ہے ان لوگوں کے لیے جو عوام کے رابطوں کے حوالے سے حقوق کو کسی بھی طرح دبانے کا سوچ رہے ہیں کیونکہ یہ جو پبلک ہے‘ یہ سب جانتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں