وزیراعظم محمد شہباز شریف کے دورۂ سعودی عرب کے دوران پاکستان اور سعودی عرب کے مابین جو باہمی سٹریٹجک دفاعی معاہدہ ہوا ہے‘ اسے اگر جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے لیے ایک حقیقی گیم چینجر قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ یوں تو معاہدہ محض یہ ہے کہ اگر سعودی عرب پر کوئی ملک حملہ کرے گا تو اسے پاکستان پر بھی حملہ تصور کیا جائے گا اور دونوں ملک مل کر اس کا دفاع کریں گے‘ اسی طرح پاکستان پر حملہ ہوا تو اسے سعودی عرب پر حملہ تصور کرتے ہوئے سعودی عرب پاکستان کی مدد کو پہنچے گا‘ لیکن وسیع تر تناظر میں اس کے معنی یہ ہیں کہ باقی دنیا کی نسبت سعودی عرب پاکستان پر سب سے زیادہ اعتماد کرتا ہے اور ایسے ہی جذبات پاکستان کے بھی ہیں۔
پاکستان اور سعودی عرب کے مابین ایک حقیقی عقیدت اور گہرے احترام کا رشتہ ہے کیونکہ امت ِمسلمہ کے مقدس ترین مقامات سعودی عرب میں واقع ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی سعودی عرب پر اپنی جان چھڑکتے ہیں اور ہمارے سعودی بھائی بھی پاکستان کو درپیش مشکلات میں اس کی مدد کو پہنچتے رہے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان کو تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں سعودی عرب بھی شامل تھا تاہم دونوں ملکوں کے باقاعدہ سفارتی تعلقات کا آغاز مارچ 1953ء میں ہوا جب پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل غلام محمد نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ 1965ء کی جنگ میں سعودی عرب نے پاکستان کا ساتھ دیا اور پھر 1969ء میں دونوں ملکوں نے پہلے دفاعی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ سقوطِ ڈھاکہ کے وقت بھی سعودی عرب نے پاکستان کی مکمل حمایت کی تھی اور بنگلہ دیش کو فوری طور پر تسلیم نہیں کیا تھا۔ 1970ء کی دہائی میں مشرق وسطیٰ میں روزگار کے بڑے اور وسیع مواقع پیدا ہوئے تو پاکستانی بڑی تعداد میں بغرضِ ملازمت سعودی عرب گئے ۔ اس وقت 20لاکھ سے زائد پاکستانی ورکرز سعودی عرب میں کام کر رہے ہیں۔ سٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ مالی سال سعودی عرب سے سب سے زیادہ‘ نو ارب 34کروڑ ڈالر کی ترسیلاتِ زر پاکستان بھجوائی گئیں۔ دو اگست 1990ء کو عراق نے کویت پر حملہ کیا اور سعودی عرب کو اپنی سرحدوں پر دفاعی خطرات کا سامنا کرنا پڑا تو پاکستان نے اپنی افواج سعودی عرب بھیجی تھیں۔ 1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد جب پاکستان معاشی پابندیوں کا شکار ہوا تو سعودی عرب نے کئی حوالوں سے پاکستان کی مدد کی ۔ حالیہ برسوں میں بھی سعودی عرب نے کئی بار مطلوبہ رقوم فراہم کر کے پاکستان کو معاشی بحران سے نکلنے میں مدد فراہم کی۔ فروری 2019ء میں ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان کے دورے پر آئے تو انہوں نے یہاں 20ارب ڈالر سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔
اتنے وسیع اور اتنے گہرے تعلقات کے ساتھ پاکستان اور سعودی عرب اگر ایک دوسرے کے مزید قریب آ گئے تو یہ اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ جب وزیراعظم محمد شہباز شریف معاہدے کی غرض سے سعودی عرب جا رہے تھے تو فضاؤں میں ہی ان کا استقبال شروع کر دیا گیا اور پھر جس طرح ان کی مہمان نوازی کی گئی وہ پاک سعودی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہے۔ ایسا اس سے پہلے کسی پاکستانی سربراہِ مملکت یا سربراہِ حکومت کے ساتھ نہیں ہوا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے کتنے قریب آ رہے ہیں۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کی اپنی سلامتی کو یقینی بنانے اور اس خطے اور باقی دنیا میں امن کے حصول کے لیے مشترکہ عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کو فروغ دینا اور کسی بھی جارحیت کے خلاف مشترکہ دفاع و تحفظ کو مضبوط بنانا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس دفاعی معاہدے کے وسعت اختیار کرنے کے امکانات موجود ہیں اور خطے کے دوسرے کئی مسلم ممالک اس میں شامل ہونے کے خواہش مند ہیں۔ میرے خیال میں اس طرح دو مسلم ممالک کے مابین طے پانے والا یہ معاہدہ نیٹو جیسے ایک وسیع تر معاہدے کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں پاکستان نے بہت سی مشکلات کا سامنا کیا اور بہت سے بحرانوں پر قابو پایا ہے۔ 2022ء کے سیلاب نے تباہی مچائی۔ ملک کو مختلف حوالوں سے 30ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ پاکستان معاشی قحط کا شکار ہوا اور اس کے دیوالیہ ہو جانے کی پیش گوئیاں کی گئیں۔ پاکستان کے اندر انڈین فنڈڈ دہشت گردانہ حملے ہوتے رہے۔ مغربی سرحد مسلسل فتنہ الخوارج کی مذموم سرگرمیوں کا مرکز بنی رہی۔ پاکستان کو کھیل کے میدان میں بھارت کی زر انگیزیوں کا سامنا کرنا پڑا اور بالآخر ہمارے اسی ہمسائے نے ایک فالس فلیگ آپریشن کو بنیاد بنا کر پاکستان پر ایک جنگ مسلط کرنے کی بھیانک کوشش کی۔ الحمدللہ پاکستان ان تمام مسائل‘ مشکلات اور بحرانوں سے سرخرو ہوا اور آج سربلند کھڑا ہے۔ ان کامیابیوں اور ثمربار کاوشوں کے پیچھے وزیراعظم محمد شہباز شریف کی شخصیت کارفرما نظر آتی ہے۔ بڑے وثوق کے ساتھ یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ کامیابیوں‘ کامرانیوں کا جو نیا سفر شروع ہوا ہے اور عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ جس طرح اجاگر ہوئی ہے‘ وہ سفر آئندہ بھی جاری رہے گا اور جلد پاکستان پوری دنیا کو عالمی سطح پر چمکتا نظر آئے گا۔ عالمی میڈیا اور بعض باخبر شخصیات پچھلے کچھ عرصے سے اکیسویں صدی کو مشرق کی صدی قرار دے رہے ہیں۔ پہلے تو مجھے یقین نہیں آتا تھا لیکن پاک سعودی سٹرٹیجک معاہدے کے بعد یقین آنے لگا ہے۔ علامہ اقبال یاد آتے ہیں:
کھول آنکھ‘ زمیں دیکھ‘ فلک دیکھ‘ فضا دیکھ
مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
اس جلوۂ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ
ایامِ جدائی کے ستم دیکھ‘ جفا دیکھ
بے تاب نہ ہو معرکۂ بیم و رجا دیکھ!
ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل‘ یہ گھٹائیں
یہ گنبدِ افلاک‘ یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ یہ صحرا‘ یہ سمندر یہ ہوائیں
تھیں پیشِ نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں
آئینۂ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ!
سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے
دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے
ناپید ترے بحرِ تخیل کے کنارے
پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے
تعمیرِ خودی کر‘ اثر آہِ رسا دیکھ!
خورشیدِ جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوسِ نظر میں
جنت تری پنہاں ہے ترے خونِ جگر میں
اے پیکرِ گل کوششِ پیہم کی جزا دیکھ!
نالندہ ترے عود کا ہر تار ازل سے
تُو جنسِ محبّت کا خریدار ازل سے
تُو پیرِ صنم خانۂ اسرار ازل سے
محنت کش و خوں ریز و کم آزار ازل سے
ہے راکبِ تقدیرِ جہاں تیری رضا، دیکھ!