اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو نظرِ بد سے بچائے‘ ایک کے بعد ایک کامیابیوں نے پاکستان کا نام پوری دنیا میں روشن اور قوم کا سر بلند کر دیا ہے۔ امسال مئی میں ہم نے اپنے دیرینہ دشمن اور بدخواہ بھارت کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا۔ ایسی دھول چٹائی کہ مودی سرکار اور بھارتی افواج‘ دونوں اب تک اپنے زخم چاٹ رہی ہیں۔ وہ کیسا روح پرور منظر تھا جس میں عوام بھی سکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ بھارت کے بھیجے ہوئے ڈرون گرانے میں مصروف رہے۔ بھارتی ڈرون حملوں کو زندہ دلانِ پاکستان نے ہنسی کھیل کا ذریعہ بنا لیا تھا۔ اس واضح برتری اور کامیابی کے بعد چہار دانگ عالم پاکستان کا نام گونجنے لگا۔ پوری دنیا پاکستان کی جانب لپکی کہ ہمیں بھی رموزِ کار زار بتلا‘ سمجھا اور سکھلا دیں۔ کچھ لڑاکا‘ حربی آلات اور ضروری گولہ بارود ہمیں بھی عنایت کر دیں کہ اپنے اپنے غنیم کے سر پر پھوڑ سکیں۔
اس معرکے سے فارغ ہوئے تو اسرائیل اور بعد ازاں امریکہ کے ایران پر حملوں کا آغاز ہو گیا۔ ادھر ادھر دوڑ دھوپ کر کے اس جنگ کو رکوایا اور جنگ بندی ممکن بنائی تو غزہ میں انسانیت اسرائیل اور نیتن یاہو کی بے شرمیوں اور سفاکیت کی وجہ سے بھوک سے کسمساتی اور پیاس سے بلکتی نظر آئی۔ اس قحط کو دور کرنے کے لیے کاوشیں ابھی جاری تھیں کہ اسرائیل نے قطر پر حملہ کر دیا جس کے بعد تمام عرب ممالک اس خدشے میں مبتلا ہو گئے کہ ان کے ہاں قائم امریکہ کی ایئر بیسز اور امریکہ کا وضع کردہ سکیورٹی نظام‘ دونوں انہیں تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں اور ناکام رہیں گے۔ اس تشویش کے تحت سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ ایک جامع دفاعی معاہدے کا اہتمام کر لیا جس میں یہ طے پایا کہ دونوں میں سے کسی ایک ملک پر حملہ دونوں ملکوں پر حملہ تصور کیا جائے گا اور دونوں اتحادی اس حملے کا مل کر بھرپور جواب دیں گے۔ یہ معاہدہ سعودی عرب کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی دوہری شیلڈ فراہم کرتا ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے مابین پہلے بھی ہمیشہ دوستانہ اور برادرانہ تعلقات رہے ہیں۔ سعودی عرب کا شمار ان اولین ممالک میں ہوتا ہے تقسیم ہندوستان کے بعد جنہوں نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ تعلقات مستحکم سے مستحکم تر ہوتے رہے ہیں۔ پاکستان نے ہر سرد گرم صورت حال میں ہمیشہ سعودی عرب کی تائید و حمایت کی جبکہ سعودی عرب نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی‘ چاہے وہ مالی ضرورت ہو‘ تیل کی طلب ہو یا دفاعی ضروریات پوری کرنے کی خواہش۔
اور تازہ ترین فروغ یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے کم و بیش ڈیڑھ گھنٹہ نہایت بامقصد اور بارآور بات چیت کی جس کے فوری اثرات بھی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے امریکی کمپنیوں کو پاکستان میں فوری سرمایہ کاری کرنے کی ہدایت دی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ امریکہ نے پاکستان میں آئی ٹی‘ توانائی‘ زراعت اور معدنیات کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی آمادگی ظاہر کی ہے۔ وزیراعظم کے مطابق ان کی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی بہتری کے لیے نہایت مفید اور اہم رہی‘ صدر ٹرمپ امن چاہتے ہیں اور ماضی میں پاک بھارت جنگ بندی کے قیام میں بھی ان کا کردار قابلِ تعریف رہا ہے۔
اور تازہ ترین پیش رفت یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے بھارت کو ایک بار پھر مذاکرات کی پیشکش کر دی ہے۔ یہ پیشکش اس حقیقت کے باوجود کی گئی ہے کہ مئی میں بھارت کے ساتھ ہونے والی جنگ پاکستان جیت چکا ہے‘ لیکن چونکہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے اس لیے جنگ جیتنے کے باوجود وہ بھارت کے ساتھ امن کا خواہاں ہے۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے باوصف پاکستان کے دیرینہ دوست اور خیرخواہ چین کے ساتھ تعلقات میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ابھی گزشتہ روز ہی سی پیک فیز ٹو کے باضابطہ آغاز کا اعلان کیا گیا اور وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی‘ ترقی و خصوصی اقدامات احسن اقبال نے کہا ہے کہ سی پیک صرف ایک ترقیاتی منصوبہ نہیں بلکہ یہ پاک چین آہنی دوستی کی علامت ہے۔ جے سی سی اجلاس پاکستان اور چین کے مشترکہ ویژن کی ازسرنو توثیق اور سی پیک فیز ٹو کے لیے ایک پُرعزم روڈ میپ کی تشکیل ہے۔
قدرت نے مستقبل میں پاکستان کے لیے کیا لکھا اور رکھا ہے یہ تو پروردگارِ عالم ہی جانتا ہے لیکن ماضی قریب کی کامیابیوں پر ایک نظر ڈالیں تو مجھے اپنا ملک ترقی کی نئی منزلوں کی جانب گامزن نظر آتا ہے۔ بھارت سے معرکہ حق میں کامرانی اللہ کی نصرت سے ممکن ہوئی اور تمام کائناتوں کے مالک کی یہی نصرت شاملِ حال رہی تو ماضی کی قومی کمیوں‘ سقموں اورکوتاہیوں کا ازالہ بھی ممکن ہو جائے گا۔ جناب سرفراز شاہ صاحب یاد آتے ہیں۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے کے ایک پروگرام میں وہ میرے ٹی وی شو میں بطور مہمان شریک ہوئے تھے۔ ان سے کئی سوالات کیے گئے‘ جن کے انہوں نے تسلی اور تشفی بخش جواب دیے۔ پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ امسال اگست کے بعد‘ ستمبر اکتوبر میں پاکستان کو ایسے مواقع میسر آئیں گے کہ یہ ملک تیزی سے ترقی کرے گا اور اقوام عالم کے شانہ بشانہ ترقی کرے گا۔ میرا خیال ہے کہ ان کی پیش گوئی سچ ثابت ہو رہی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت حاصل مواقع سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے۔ سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدہ ہو یا صدر ٹرمپ کے ساتھ ایک گھنٹہ بیس منٹ طویل بات چیت‘ ہر پاکستانی بس ایک سوال کرتا نظر آتا ہے کہ اس سے پاکستان کو کیا معاشی فائدہ ہو گا۔ عوام یہ سوال اٹھانے میں حق بجانب نظر آتے ہیں کہ بڑھتے ہوئے ٹیکسوں اور روز افزوں مہنگائی نے ان کی قوتِ خرید کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ حاصل مواقع سے معاشی فائدے ہی اس صورتحال کو پلٹ سکتے ہیں۔ عوام توقع کرتے ہیں کہ عالمی سطح پر ہونے والی پیش رفتوں کا کچھ فائدہ ان تک بھی پہنچنے دیا جائے گا۔
عنوان باندھنے کے سلسلے میں مَیں نے جب موسلادھار کے معنی تلاش کیے تو اے آئی اوور ویو نے از خود جو تفصیلات میرے سامنے رکھ دیں وہ اس طرح ہیں: موسلادھار کا مطلب ایسی بارش ہے جو موٹے قطروں کی صورت میں تیزی سے اور کثرت سے گرے۔ اس کا اطلاق انسانوں کی تقریر یا کسی بھی چیز پر بھی ہو سکتا ہے جو تیز رفتاری اور شدت کے ساتھ بہے۔ یہ سنسکرت کے لفظ ''موسل‘‘ سے ماخوذ ہے‘ جس کا مطلب ہے ایک بھاری اور لمبا ڈنڈا یا ہتھیار جس سے اناج کو کوٹا جاتا تھا۔ پھر میں نے موسلادھار کو لے کر کالم کا عنوان باندھ ہی دیا کہ ویسے بھی تو کامیابیاں موسلا دھار ہیں اور اگر نہیں تو ہمارے دشمنوں کے لیے یقینا موسلادھار ثابت ہو رہی ہیں۔