جمعہ کی رات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ فلسطینی گروپ حماس نے ان کے 20نکاتی امن منصوبے پرزیادہ تر مثبت ردِعمل ظاہر کیا ہے‘ اور یہ کہ گروپ امن کے لیے تیار ہے‘ لہٰذا تل ابیب فوری طور پر غزہ پر بمباری بند کر دے۔ اس وقت سے اب تک میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اس پیش رفت پر خوش ہوا جائے یا افسوس اور تاسف کا اظہار کیا جائے۔ اس گومگو والی کیفیت کی کئی وجوہات ہیں۔
پہلی بات یہ کہ حماس نے ٹرمپ کے پلان کوAs it is قبول نہیں کیا‘ اس پر جزوی آمادگی ظاہر کی ہے۔ فلسطینی گروپ کے جواب میں اس کے ہتھیار ڈالنے (غیر مسلح ہونے) کے اہم مسئلے کا ذکر نہیں کیا گیا‘ لیکن اس نے کہا کہ وہ ثالثوں کے ذریعے فوری طور پر امن مذاکرات میں شامل ہونے کے لیے تیار ہے۔ ٹرمپ کے منصوبے کے مطابق حماس تین دنوں میں باقی 48یرغمالیوں کو چھوڑے گی اور اپنے ہتھیار بھی ڈالے گی۔ اسرائیل اپنی فوجی کارروائی روک دے گا‘ قیدیوں کو رہا کرے گا اور انسانی امداد کی اجازت دے گا۔ حماس نے کہا ہے کہ وہ یرغمالیوں کی رہائی پر راضی ہے لیکن دوسرے مسائل پر فلسطینیوں کے درمیان مزید بات چیت ضروری ہے۔ خاص طور پر حماس کا ہتھیار ڈالنا ابھی مشکوک ہے اور یہ بھی واضح نہیں کہ اسرائیل غزہ کے شہریوں پر حملے روکے گا یا نہیں۔ لہٰذا اس وقت کا ایک بڑا سوال یہ ہے کہ آیا معاملات مکمل آمادگی تک پہنچ سکیں گے؟ دوسری وجہ یہ ہے کہ اسرائیل نے ٹرمپ کا حملے بند کرنے کا مطالبہ نظر انداز کر دیا۔ اس کی جانب سے غزہ کے علاقوں پر بمباری جاری ہے جس کے نتیجے میں آج (بروز ہفتہ) مزید سات فلسطینی شہید کر دیے گئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اگر اب تک اسرائیلی حملے بند نہیں کرا سکے تو وہ غزہ میں مکمل جنگ بندی کا اہتمام کیسے کر سکیں گے؟ تیسری وجہ یہ ہے کہ اکتوبر 2023ء سے آج چار اکتوبر 2025ء تک دو برسوں میں اسرائیل کی غزہ پر مسلط کردہ جنگ میں 66ہزار 288فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ جنگ بندی کے جو اقدامات اب کیے جا رہے ہیں‘ کیا وہ اس وقت نہیں کیے جا سکتے تھے جب غزہ کی جنگ ابھی شروع ہوئی تھی اور اتنی زیادہ قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع نہیں ہوا تھا؟ چوتھی وجہ یہ ہے کہ اس بات کی کسی جانب سے کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ اپنے یرغمالی رہا کرا لینے کے بعد اسرائیل دوبارہ غزہ کو تاخت و تاراج نہیں کر ے گا۔ اس احتمال کو اس لیے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اسرائیل اور نیتن یاہو اب تک انسانی‘ سیاسی‘ اخلاقی‘ جنگی اور ہر طرح کی دوسری خلاف ورزیوں کا مرتکب ہوا ہے۔ یہ مسئلہ اس قدر گمبھیر شکل اختیار نہ کرتا اگر اپنے قیام کے بعد اسرائیل توسیع پسندانہ اقدامات کے تحت فلسطینی علاقوں پر قابض نہ ہوتا۔ پانچویں وجہ یہ ہے کہ فلسطینیوں کی طرح میں بھی اس شش و پنج میں ہوں کہ جنگ بندی کے اعلان پر خوش ہوا جائے یا بیٹھ کر ان مرے ہوؤں کو رویا جائے جو اس جنگ کا ایندھن بن گئے۔ ظہیرکاشمیری یاد آرہے ہیں:
موسم بدلا رت گدرائی اہلِ جنوں بے باک ہوئے
فصلِ بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے
دل کے غم نے دردِ جہاں سے مل کے بڑا بے چین کیا
پہلے پلکیں پُرنم تھیں‘ اب عارض بھی نمناک ہوئے
کتنے الہڑ سپنے تھے جو دورِ سحر میں ٹوٹ گئے
کتنے ہنس مکھ چہرے‘ فصلِ بہاراں میں غمناک ہوئے
ایک جنگ بندی امسال جنوری میں بھی ہوئی تھی‘ تب غزہ کے بچوں نے بے پناہ خوشی کا اظہار کیا۔ وہ امید کر رہے تھے کہ وہ بھی دنیا کے دوسرے بچوں کی طرح اپنے بچپن کا لطف اٹھا سکیں گے‘ سکول جا سکیں گے‘ تعلیم حاصل کر سکیں گے اور کھیل کود سکیں گے۔ جنگ بندی کے اعلان پر غزہ کے ہزاروں فلسطینیوں نے جشن منایا تھا اور تب غزہ کی گلیاں اور مرکزی چوک خوشی سے گونج اٹھے تھے۔ غزہ کے لوگوں نے اپنے دکھوں اور غموں پر قابو پاتے ہوئے نعرۂ تکبیر اور قومی نغموں کے ساتھ جشن منایا تھا۔ آج جب ایک اور جنگ بندی کی امید پیدا ہوئی ہے تو دس ماہ پہلے والی جنگ بندی کا جشن منانے والے بہت سے بچے اور بڑے اس دنیا میں ہی نہیں ہیں۔
لیکن چلیں ہم ساری منفی سوچوں کو ایک طرف رکھ کر یہ سوچتے ہیں کہ جنگ بندی بعد ازاں مکمل جنگ بندی میں تبدیل ہو جائے گی اور فلسطین اور اسرائیل کے نام سے دو الگ ریاستیں قائم ہو جائیں گی‘ لیکن کیا کوئی ضمانت دے سکتا ہے کہ تب ہی یہودی فلسطین کے مسلمانوں کو سکون سے جینے دیں گے؟ بہرحال اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جب اپنے اندر بہت سی کمزوریاں ہوں تو کئی معاملات پر کمپرومائز کرنا ہی پڑتا ہے۔ میں پہلے بھی کہتا رہا ہوں اور اب بھی کہوں گا کہ اگر حماس کے پاس اسرائیل کے ساتھ لڑنے کی مکمل تیاری نہ تھی تو اسے اسرائیل پر حملے جیسا بڑا اقدام کرنا ہی نہیں چاہیے تھا۔
دوسری جانب یوکرین جنگ بھی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوتی نظر آ رہی ہے۔ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے کہا ہے کہ امریکہ یوکرین کی جانب سے طویل فاصلے تک مار کرنے والے ٹوماہاک میزائل فراہم کرنے کی درخواست پر غور کر رہا ہے۔ ٹوماہاک میزائل کی رینج تقریباً 2500کلو میٹر ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ ماسکو جیسے روسی اہداف کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ روس کی جانب سے ایسے کسی بھی اقدام کو یقینی طور پر جنگ میں خطرناک شدت کے اضافے کے طور پر دیکھا جائے گا۔ ماضی میں ٹرمپ نے یوکرین کو ایسے میزائل فراہم کرنے کی مخالفت کی تھی لیکن لگتا ہے کہ اب وہ روسی صدر ولادیمیر پوتن کی جانب سے امن معاہدے سے انکار پر مایوسی کا اظہار کر چکے ہیں۔ لیکن امریکہ کی جانب سے اس پیش رفت پر روس خاموش تماشائی تو نہیں بنا رہے گا۔ روسی پارلیمانی کمیٹی کا کہنا ہے کہ یوکرین کو ٹوماہاک میزائل دیے گئے تو امریکی اہلکاروں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ یہ بالکل واضح ہے کہ امریکہ کے اس اقدام کے نتیجے میں روس یوکرین جنگ کا دائرہ پھیل جائے گا اور اور یہ جنگ پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ حالات اس قدر خرابی کی جانب جا رہے ہیں کہ روس کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیشِ نظر فرانس نے اپنی فوجی تیاریوں میں تیزی لاتے ہوئے بدترین صورتحال یعنی یورپ اور روس کی درمیان ممکنہ جنگ کے لیے اقدامات شروع کر دیے ہیں۔
یہ سب کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر ایک جنگ ختم ہونے کے قریب ہے تو دوسری جنگ کے شعلوں کو ہوا ملنے والی ہے اور اس حقیقت سے تو سبھی واقف اور آگاہ ہیں کہ آج کے اس گلوبل ویلیج دور میں جنگ دنیا کے کسی بھی کونے میں لڑی جا رہی ہو‘ اس سے متاثر پوری دنیا ہوتی ہے۔ روس اور یورپ کی جنگ ہوئی تو یہ بات طے ہے کہ اس جنگ کو پھر عالمی جنگ بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ کیا انسانیت تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے؟