"IYC" (space) message & send to 7575

افغان رجیم کے مسئلے کا واحد حل

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان اور افغان طالبان نے مشترکہ طور پر دوحہ میں ہونے والی بات چیت کے اختتام تک جنگ بندی میں توسیع پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔ اس بات چیت کا مقصد بدھ کے روز ہونے والی جنگ بندی پر غور اور کشیدگی میں کمی لانا ہے۔ پاکستان اور افغان طالبان کے مابین سرحدی کشیدگی اور جھڑپوں کے بعد دونوں ملکوں نے 48 گھنٹے کی جنگ بندی کا اعلان کیا تھا جو جمعہ کو شام چھ بجے ختم ہو گئی تھی۔ جنگ بندی کے وقت میں توسیع اس امر کی غماز ہے کہ پاکستان اور افغان طالبان کے مابین کسی نہ کسی سطح پر بات چیت ہوئی۔ جنگ بندی میں توسیع یوں تو ایک اچھی اور مثبت پیش رفت ہے لیکن ظاہر ہے کہ جنگ بندی پیدا ہونے والے تناؤ اور کشیدگی کا مکمل حل نہیں ہے۔ مستقل حل تو سرحدوں پر پائیدار امن ہے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ پائیدار امن کیسے قائم ہو سکتا ہے؟ اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے دوحہ میں مذاکرات ہو رہے ہیں۔ ممکن ہے یہ سطور شائع ہونے تک کوئی فیصلہ سامنے آ چکا ہو‘ اور یہ بھی ممکن ہے کہ معاملات طے کرنے اور کسی نتیجے پر پہنچنے میں ابھی مزید چند روز لگ جائیں۔
تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ افغانستان ایک شورش زدہ علاقہ رہا ہے۔ یہاں سے طالع آزما ہندوستان پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں۔ یہ سرگرمیاں صدیوں سے جاری ہیں۔ یہاں سے دوسرے خطوں میں شورشیں برپا ہوتی رہیں تو ظاہر ہے کہ اس کے اپنے حصے میں بھی سکون والا پائیدار امن نہیں آ سکا۔ آپ نے علامہ محمد اقبال کا وہ شعر تو پڑھا ہی ہو گا:
آسیا یک پیکرِ آب و گل است
ملتِ افغاں در آں پیکر دل است
از فسادِ او فسادِ آسیا
از کشادِ او کشادِ آسیا
ترجمہ: ایشیا پانی مٹی کا ایک وجود ہے‘ ایشیا کے وجود کے اندر افغان دل کی ماند ہے۔ افغانستان کے فساد میں مبتلا ہونے سے ایشیا فساد میں ہے‘ اور اس کی اصلاح میں ایشیا کی اصلاح ہے۔
شاید ہمارے دشمنوں نے علامہ کا یہ شعر کہیں پڑھ لیا تھا جو افغانستان کو ہی مسلسل نشانہ بنایا جاتا رہا۔ پہلے برطانیہ‘ پھر سوویت یونین اور حال ہی میں یعنی ربع صدی پہلے امریکہ نے افغانستان میں شورش برپا کی۔ تاریخ اس بات کی بھی گواہی دے گی کہ ان ساری جنگوں میں پاکستان نے اپنے افغان بھائیوں کا پوری طرح ساتھ دیا۔ افغانستان کا کوئی لیڈر یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر پاکستان ان جنگوں میں افغانستان کا ساتھ نہ دیتا تو بھی وہ جیت جاتا۔ پاکستان نے حربی ہی نہیں‘ مالی حوالوں سے بھی ہمیشہ افغانستان کی مدد کی۔ اس کے باوجود مغربی سرحدوں سے پاکستان کو کبھی ٹھنڈی ہوا نہیں آئی‘ ہمیشہ ایک تکلیف دہ اور صبر آزما صورتحال کا سامنا رہا۔
اس سارے عمل کے دوران افغانستان میں قیامِ امن اور وہاں ایک مستحکم حکومت کے قیام کی کئی کوششیں کی گئیں جیسے دسمبر 2011ء میں جرمنی کے شہر بون میں افغانستان کی جنگ شروع ہونے کے 10سال کے بعد وہاں مستقبل کے معاملات کے تعین کے لیے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں 80سے زیادہ ممالک کے نمائندوں نے 2014ء تک افغانستان سے تمام اتحادی افواج کی واپسی کے بعد کے لائحہ عمل پر غور کیا۔ اس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی نے کہا کہ افغانستان کو سالانہ 10ارب ڈالرز امداد کی ضرورت ہو گی۔ اس کانفرنس میں افغانستان کے لیے ایک روڈ میپ تو دیا گیا لیکن بعد ازاں اس پر عملدرآمد نہ کیا جا سکا۔
اسی طرح قطر کے شہر دوحہ میں 29فروری 2020ء کو امریکہ اور طالبان کے مابین ایک امن معاہدہ طے پایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ افغانستان سے امریکی افواج 14ماہ میں مکمل انخلا کریں گی اور امریکہ اور افغانستان جامع امن معاہدے پر مل کر کام کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔ امن معاہدہ چار نکات پر مشتمل تھا: افغان سرزمین امریکہ اور اتحادیوں پر حملے کے لیے استعمال نہیں ہو گی‘ امریکہ اور اتحادی افواج کے انخلا کی ٹائم لائن دی جائے گی‘ افغانستان میں بین الافغان مذاکرات کے ذریعے سیاسی استحکام لایا جائے گا‘ طالبان اور افغانستان کی شمولیتی مذاکراتی ٹیم کے درمیان مذاکرات ہوں گے‘ افغانستان میں مستقل اور وسیع البنیاد جنگ بندی ہو گی۔ افسوس یہ اہداف بھی پورے نہیں کیے جا سکے تھے۔
جب افغانستان میں بین الاقوامی طاقت آزمائی کا کھیل جاری تھا تو ایک کھلاڑی خاموشی سے افغان سرزمین پر اپنے پنجے گاڑتا رہا‘ وہاں ترقیاتی کاموں کے نام پر اپنے مذموم عزائم کی تکمیل میں لگا رہا۔ یہ بھارت تھا جس نے نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان میں بھی دہشت گردی کے بیج بوئے‘ وہاں دہشت گردی کی تربیت کے ادارے قائم کیے اور دونوں ملکوں کو آگ اور خون میں نہلا دیا۔ پاکستان میں ٹی ٹی پی نے جنم لیا تو بھارتی دہشت پسندوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ یہی ٹی ٹی پی والے اس وقت ٹی ٹی اے کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کا امن تباہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں‘ لیکن ان کے یہ عزائم کبھی پورے نہیں ہوں گے کیونکہ پاکستانی قیادت اس ملک کے ایک ایک انچ کا دفاع کرنے کا عزم و ارادہ کیے ہوئے ہے۔
ابھی آج ہی (بروز ہفتہ) فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے پاکستان ملٹری اکیڈمی (پی ایم اے) کاکول میں پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کو متنبہ کیا ہے کہ جوہری ماحول میں جنگ کی کوئی گنجائش نہیں‘ ہم آپ کی دھمکیوں سے نہ تو خوفزدہ ہوں گے اور نہ ہی دباؤ میں آئیں گے‘ اور کسی بھی معمولی اشتعال انگیزی کا بلا کسی تردد فیصلہ کن جواب دیں گے۔ انہوں نے مزید خبردار کیا کہ کسی بھی ممکنہ کشیدگی کا بوجھ‘ جو پورے خطے میں اور اس سے آگے تباہ کن نتائج لا سکتا ہے‘ مکمل طور پر بھارت کے سر ہوگا۔ امید تو نہیں کہ اس انتباہ کے بعد بھارت پاکستان کے خلاف مِس ایڈونچر کی غلطی کرے گا‘ لیکن اگر اس نے کی تو یہ واضح ہے کہ بھارت کو اس بار سنبھلنے کا موقع نہیں ملے گا۔
میری نظر میں افغان طالبان کے مسئلے کا ایک ہی حل ہے۔ وہی جو پچھلے دنوں پاکستان نے کیا اور جس کے بعد افغان رجیم پاکستان سے جنگ بندی کے ترلے کرتی نظر آئی۔ ٹھیک ہے دوحہ میں مذاکرات ہو رہے ہیں۔ دعا ہے کہ یہ کامیاب ہو جائیں اور دونوں ملک باہمی طور پر امن کے رہنے کا کوئی لائحہ عمل تلاش کر لیں‘ لیکن خدانخواستہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر ڈنڈے کا استعمال ہی واحد راستہ بچتا ہے۔ یہی اس مسئلے کا واحد بھی نظر آتا ہے‘ اور ایسا کرتے ہوئے اگر دو چار تھپڑ اور لپڑ بھارت کو بھی پڑ جائیں تو اس کے کئی طبق بھی روشن رہیں گے اور ممکن ہے وہ دہشت گردی کو بڑھانے کے اپنے مذموم ارادوں سے باز آ جائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں