عالی مرتبت چیف جسٹس پاکستان‘ مسٹر جسٹس عمر عطابندیال نے فیصل واوڈا مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ تاحیات نا اہلی کا قانون ایک کالا قانون ہے۔ جمعرات کو اسی مقدمے کی سماعت کے دوران انہوں نے مزید فرمایا کہ ''کسی عوامی نمائندے کو تا حیات نااہل قرار دینا اتنا آسان کام نہیں‘ آرٹیکل 62 ون ایف کا ڈیکلریشن صرف مجاز عدالت ہی ٹرائل کورٹ کی طرف سے شواہد قلمبند کرنے کے بعد جاری کر سکتی ہے‘ اس کے بغیر کسی کو بھی بددیانت اور بے ایمان نہیں کہا جا سکتا۔ صادق اور امین کا تعین کوئی آٹومیٹک تصور نہیں‘ یہ باقاعدہ مکینیکل پراسیس ہے‘‘۔
اس بحث میں نہیں پڑتے کہ نواز شریف کو تاحیات نا اہل قرار دینے کیلئے کون سی ٹرائل کورٹ نے چھان بین کی تھی؟ کون سا ''مکینیکل پراسیس‘‘ بروئے کار آیا تھا؟ کس طرح ایک ''آٹومیٹک مشین‘‘ نے ایک شخص کو سزا دیتے ہوئے اپیل کے حق سے بھی محروم کر دیا تھا؟
جہاں تک میری فرومایہ معلومات کا تعلق ہے‘ دستورِ پاکستان‘ ضابطۂ فوجداری اور مجموعۂ قوانین میں کوئی ایسی شق‘ کوئی ایسا ضابطہ اور کوئی ایسا قانون موجود نہیں جو کسی شخص کو تاحیات نااہل قرار دینے کی طرف اشارہ بھی کرتا ہو‘ خاص طور پر ایسی ''صفاتِ کردار‘‘ کی بنا پر جن کی جانچ پرکھ کا کوئی معتبر پیمانہ وضع نہیں کیا جا سکا۔ 62ون ایف بھی تاحیات نا اہلی کے تصور سے ناآشنا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آرٹیکل 62اور اس کی تمام ذیلی شقوں کا تعلق‘ منتخب ہونے سے قبل کسی امیدوار کی شرائطِ اہلیت سے ہے۔ اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ یہ آرٹیکل اُن ارکان کیلئے نہیں جو منتخب ہو کر ایوان میں پہنچ چکے ہیں۔ آئین میں آرٹیکل 62کا عنوانِ جلی ہے ''Qualification for Membership of Majlis-e-Shoora (Parliament)‘‘ یعنی ارکانِ مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کی اہلیت۔ آسان الفاظ میں کہا جائے تو یہ آرٹیکل ایسی چھلنی ہے جس سے گزر کر کوئی امیدوار انتخاب لڑنے کا اہل ہوتاہے۔ آرٹیکل 63کا عنوان ہے۔ ''Disqualification for Members of Majlis-e-Shoora (Parliament)‘‘ یعنی ارکانِ مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کی نااہلیت۔ دونوں شقیں واضح طور پر بتاتی ہیں کہ ایک کا تعلق قبل از انتخاب کے مرحلے سے ہے اور دوسری کا بعد از انتخاب سے۔ آرٹیکل 62کا آغاز ہی ان الفاظ سے ہوتا ہے: کوئی شخص مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کا رکن منتخب ہونے یا چُنے جانے کا اہل نہیں ہوگااگر۔ اسی طرح آرٹیکل 63کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ کوئی شخص مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے رکن کے طور پر منتخب ہونے یا چنے جانے اور رکن رہنے کیلئے نا اہل ہوگا اگر۔ آئین کے الفاظ اور ان کی روح کو دیکھا جائے تو آرٹیکل 62کی کسی ذیلی شق کے تحت‘ کسی رکنِ پارلیمنٹ کو نا اہل نہیں کیا جا سکتا۔ا اس کیلئے آپ کو آرٹیکل 63سے رجوع کرنا پڑے گا جو مجلسِ شوریٰ میں موجود ارکان کی نااہلیت سے بحث کرتا ہے۔اب آئیے 62ون ایف کی طرف جس کا ترجمہ‘ وزارتِ قانون و انصاف کے طبع شدہ آئین میں یوں کیا گیا ہے ''کوئی شخص مجلس شوریٰ(پارلیمنٹ) کا رکن منتخب ہونے یا چُنے جانے کا اہل نہیں ہوگا اگر وہ سمجھدار‘ پارسا نہ ہو اور فاسق ہو اور ایماندار اور امین نہ ہو اور عدالت نے اس کے برعکس قرار نہ دیا ہو‘‘۔
اس شق میں صرف دو باتوں کا ذکر ہے ''منتخب ہونے یا چُنے جانے۔ اس کا مفہوم کسی ابہام کے بغیر واضح کر رہا ہے کہ اس کا تعلق قبل از انتخاب‘ امیداوار کی اہلیت سے ہے۔ آرٹیکل 63میں منتخب ہونے اور چُنے جانے کے ساتھ اور رکن رہنے کے الفاظ یہ وضاحت کر رہے ہیں کہ اس کا اطلاق موجود ارکان پر ہوگا۔ اب اگر قبل از انتخابات کی شرائط کا اطلاق بعد از انتخابات کی صورتحال پر کیا جا رہا ہے اور کسی رکن پارلیمان کو بعد از انتخاب کی کسوٹی (آرٹیکل63) پر پرکھنے کے بجائے قبل از انتخاب (آرٹیکل62) کی میزان میں تولا جا رہا ہے تو اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ایسا متعدد عدالتی فیصلوں کی بنا پر ہو رہا ہے جن کی رو سے اہلیت اور نا اہلیت کی دونوں شقوں (62اور63) کو ایک دوسرے میں ضم کرکے پڑھا جا رہاہے۔
ارکانِ پارلیمان کی اہلیت اور نا اہلیت کی شقیں 1956ء اور 1962ء کے دساتیر میں بھی موجود تھیں لیکن یہ شرائط واضح اور ابہام سے پاک تھیں۔ انہیں کسی عدالتی تاویل و تعبیر کی حاجت نہ تھی مثلاً امیدوار کی عمر‘ ووٹر لسٹ میں نام کا درست اندارج‘ شہریت‘ مالی بدعنوانی جیسے معاملات‘ ان سب کیلئے صرف دستاویزی شواہد کافی تھے۔ 1973ء کے آئین میں بھی اہلیت و نا اہلیت کی وہی شقیں رکھی گئیں جن کی جانچ پرکھ کے واضح پیمانے موجود تھے۔ جنرل ضیا الحق نے احیائے آئین 1973ء کے فرمان مجریہ 1985ء کے تحت آئین کے 67آرٹیکلز اور280 ذیلی شقوں میں ترامیم کر دیں۔ آرٹیکل62 میں پانچ اور 63میں بارہ نئی شقوں کا اضافہ کر دیا گیا۔ یہی تصرف آج کی سیاست کا ایک بڑا نزاعیہ بن چکا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت جمہوریت کے پرچم بردار سیاست دانوں نے بھی ان شقوں کو متبرک قرار دیتے ہوئے برقرار رکھا۔ 2018ء میں تاحیات نااہلیت کے حوالے سے کوئی سترہ پٹیشنز سپریم کورٹ میں لگیں۔ ان میں وہی کچھ کہا گیا تھا جو آج جناب چیف جسٹس فرما رہے ہیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار‘ جسٹس عظمت سعید شیخ‘ جسٹس عمر عطا بندیال‘ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل بینچ نے ان درخواستوں کی سماعت کی۔ عدالتِ عظمیٰ نے قرار دیا کہ: Disqualification of any member of Parliament or a public servant under Article (62) (1) (f) in FUTURE will be permanent ''آرٹیکل62 ون ایف کے تحت کسی بھی رکن پارلیمان یا عوامی عہدیدار کی نا اہلیت مستقبل میں ہمیشہ کیلئے ہوگی‘‘۔ اس حکم نامے سے صاف ظاہر ہے کہ آئین‘ قانون یا 62ون ایف کے تحت تاحیات نا اہلی کا پہلے سے کوئی تصور موجود نہیں تھا۔
بلاشبہ آئین کی تشریح و تعبیر کی مقدس ذمہ داری عدلیہ ہی کی ہے۔ عدلیہ کے جج صاحبان کو اپنی دانش و بصیرت بروئے کار لاتے ہوئے یہ رہنمائی کرنی چاہیے کہ 62ون ایف کے تحت طے کی گئی صفات کا تعین کس طرح کیا جائے؟ کس پیمانے سے جانچا جائے کہ کوئی شخص کتنا سمجھدار ہے؟ کس کسوٹی پر پرکھا جائے کہ کون کس قدر پارسا ہے؟ کس ترازو میں تول کر اندازہ لگایا جائے کہ کوئی فاسق ہے یا نہیں؟ اور اگر ہے تو کس قدر؟ کس مفتیٔ اعظم سے کسی کے ایماندار ہونے کا فتویٰ لیا جائے اور کسی کے امین ہونے کا ٹیسٹ کون سی مستند لیبارٹری سے کرایا جائے؟
سچ یہ ہے کہ ماضی بعید اور خاص طور پر ماضی قریب میں بعض عدالتی فیصلوں کے نتیجے میں آئین و قانون کی گتھیاں سلجھنے کے بجائے الجھی ہیں۔ ایسی ایسی گرہیں پڑی ہیں کہ دانتوں سے بھی نہیں کھل پا رہیں۔ 62ون ایف قابلِ نفاذ بننے کے بجائے مزید پیچیدہ اور متنازع ہو گیا ہے۔ حال ہی میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے قرار دیا ہے کہ جج کسی بھی وقت اپنی پرانی رائے بدل سکتا ہے۔ اس اصول کے تحت عدلیہ کو وسیع مراجعت کا اہتمام کرنا ہوگا‘ کہ آئین و قانون کی تشریح نظریۂ عدل کے تحت کی جائے‘ ورنہ ''لغتِ قانونِ سیاہ‘‘ ''(Black's Law Dictionary)‘‘ کو بروئے کار لایا جائے تو اچھا خاصا ''گورا چٹا‘‘ قانون بھی ''کالا قانون‘‘ بن جاتا ہے اور اس کی کوکھ سے کالے فیصلے ہی جنم لیتے ہیں۔