سردیوں کا مختصر سا دن ہو یا دہکتی گرمیوں کا طویل‘ سورج کو غروب ہونا ہی ہوتا ہے۔ تین سال ہوں یا توسیع یافتہ چھ برس‘ ایک دن وردی اتار کر آبنوسی چھڑی نئے سپہ سالار کے حوالے کرنا ہی ہوتی ہے۔ سو ! جنرل قمر جاوید باجوہ‘ اقتدارِ کُلّی کے قصرِپُرشکوہ سے نکل کر‘ ریٹائرڈ جرنیلوں کے حجرۂ بے آب و رنگ میں جابیٹھے ہیں۔ جاتے جاتے وہ آبنوسی چھڑی کے ساتھ ساتھ پہاڑ جیسا چیلنج بھی سید عاصم منیر کے سپرد کرگئے۔ اپنے آخری رسمی خطاب میں انہوں نے غیرمبہم الفاظ میں‘ قدرے تفاخر کے ساتھ اعلان کیا کہ موسمِ بہار 2021ء کے بعد سے فوج 'apolitical‘ ہوگئی ہے اور اب اُس کا سیاست سے کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ اس سے قبل ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل بابر افتخار اور ڈی جی آئی ایس آئی‘ جنرل ندیم انجم یہی بات اپنی مشہورِ زمانہ پریس کانفرنس میں زیادہ وضاحت اور تفصیل سے کرچکے ہیں۔ واضح کیاگیا کہ یہ کوئی جُزوقتی‘ لمحاتی یا انفرادی نہیں بلکہ ادارہ جاتی فیصلہ ہے جو طویل داخلی مباحثے کے بعد کیاگیا ہے۔ مزید کہاگیا کہ آئندہ بارہ پندرہ برس تک آنے والی فوجی قیادت بھی اس فیصلے میں شریک ہے۔ ایک خلیجی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے جنرل باجوہ نے یقینِ کامل کے ساتھ اعلان کیا کہ اب پاک فوج صرف اپنے آئینی پیشہ ورانہ کردار تک محدود رہے گی۔
فیصلے اور اعلان کی حد تک یہ ہماری تاریخ کی بہت بڑی پیش رفت ہے لیکن اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک مؤثر‘ واضح اور قابلِ عمل پالیسی تراشنا اور قوم کے دل وماغ میں راسخ ہوجانے والے تصور کو کھرچ ڈالنا‘ کارِ آساں نہیں۔ نئے آرمی چیف کے لیے ایک تاریخ ساز ایجنڈا طے کردیاگیا ہے اور اس ایجنڈے کی تکمیل‘ اُن کی کارکردگی جانچنے کا سب سے بڑا پیمانہ ہوگی۔ ایک بات طے ہے۔ پاکستان کے لوگ فطرتاً اپنی فوج سے محبت کرتے ہیں۔ اپنے شہیدوں اور غازیوں کو اپنا محسن سمجھتے ہیں۔ فوج کی دفاعی صلاحیتوں کو مستحکم بنانے کے لیے ہر قربانی کے لیے تیار رہتے ہیں۔ فوج اور عوام کے مابین اگر فاصلے بڑھے ہیں تو اس کے اسباب ڈھکے چھپے نہیں۔ ان اسباب ومحرکات کے تدارک کے لیے فوج جس فیصلے پر پہنچی ہے‘ اس پر عمل درآمد کے دو پہلو ہیں۔ ایک داخلی اور دوسرا خارجی۔ نئے سپہ سالار کو اپنے رفقا کے تعاون سے جائزہ لینا ہوگا کہ فوج کے اندرونی نظام کی کون سی چُولیں کسنے کی ضرورت ہے۔ کون سی باتیں فوج کے وقار کو مجروح کرتی اور چوپالوں کا موضوع بنتی ہیں۔ ریٹائرمنٹ پر وسیع زمینی رقبوں کا تحفہ اور ایسے معاملات اور مفادات کا جائزہ لینا ہوگا جن کا دوسرے جمہوری ممالک میں کوئی تصور نہیں۔ شہداء‘ غازیوں اور جوانوں کی فلاح وبہبود کے منصوبوں کو خصوصی استثنا دیا جاسکتا ہے۔
اصلاحِ احوال کا دوسرا اور نہایت اہم پہلو خارجی نوعیت کا ہے جسے ہم سیاسی بھی کہہ سکتے ہیں۔ بلاشبہ تخلیقِ پاکستان سے ہی اس کا آغاز ہوگیا تھا۔ ایوب خان کا طویل مارشل لاء‘ یحییٰ خان سے ہوتا ہوا سقوطِ ڈھاکہ پر منتج ہوا۔ سات دہائیوں پر مشتمل سول ملٹری تعلقات کے عدم توازن نے آج تک پولیو زدہ جمہوریت کو اپنے قدموں پر کھڑا نہیں ہونے دیا۔ مجھے نہیں معلوم فوج کے نزدیک‘ غیرسیاسی ہونے کا مفہوم کیا ہے؟ قرینِ قیاس یہی ہے کہ آئندہ ہم کسی سیاسی جماعت کی حمایت وسرپرستی نہیں کریں گے‘ کوئی سیاسی بُت نہیں تراشیں گے‘ انتخابات میں دخل نہیں دیں گے‘ حکومتوں کے جوڑتوڑ سے لاتعلق رہیں گے اور معاملاتِ قوم وملک کی صورت گری عوام کے منتخب نمائندوں کی حکومت پر چھوڑ دیں گے۔ یہ انتہائی اہم اور نہایت ہی خوش آئند اقدامات ہوں گے۔ لیکن جمہوری حکومت یعنی عوام کے منتخب نمائندوں پر مشتمل نظام کو پُر وقار بنانے کیلئے یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ مہذب ممالک کی روایات کیا ہیں؟ کیا وہاں سفارتی نمائندے آرمی چیف سے مسلسل اور تواتر کے ساتھ ملاقاتیں کرتے ہیں؟ کیا بیرونِ ملک سے آنے والے عمائدین صدر‘ وزیراعظم کے علاوہ آرمی چیف سے بھی ملتے ہیں؟ کیا مشاورت کے دائرے سے آگے نکل کر کوئی سپہ سالار اپنی مرضی کی خارجہ پالیسی وضع کرسکتا ہے؟ کیا وہاں فوج کا سربراہ میڈیا میں ریاست وحکومت کے سربراہ جیسی (یا اُن سے بڑھ کر) تشہیر پاتا ہے؟ کیا وزیراعظم یا صدر کی طرح ہر موقع پر آرمی چیف کی طرف سے بھی بیانات جاری ہوتے ہیں؟ یہ فہرست خاصی طویل ہے۔
بہت دور جانے کی ضرورت نہیں۔ گزشتہ بارہ‘ چودہ سال میں جو کچھ ہوا‘ اُس نے عملاً سارے دستوری ڈھانچے کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ نامطلوب افراد کے خلاف مطلوب فیصلے لینے کے لیے وہ کچھ ہوا کہ عدلیہ پر مشرف کا برہنہ حملہ بھی گردِ پا ہوگیا۔ ماضی میں شاید ہی یہ تاثر اتنا قوی رہا ہو کہ کہیں اور کے فیصلے کسی اور کے کنجِ لب سے پھوٹتے ہیں۔ صحافت کو ایسے بے ننگ ونام تجربوں کی لیبارٹری بنادیاگیا کہ قرطاس وقلم کی آبرو جاتی رہی۔ سیاست کے بعد ایک بت کدہ صحافت میں بھی سجایا گیا۔ بیوروکریسی کبھی اتنی توانا نہیں رہی کہ دستوری نظام اور جمہوری اقدار کی پاسبانی کرتی۔ اس دور میں تو وہ بالکل ہی کاٹھ کا گھوڑا بن کر رہی گئی۔ ریاست کے سبھی عناصر ِ ترکیبی ناتواں اور منتشر ہوگئے۔ نہیں کہا جاسکتا یہ زنجیریں کب اور کیسے کٹیں گی۔ محسن داوڑ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امورِ خارجہ کا چیئر مین ہوتے ہوئے بھی ملک سے باہر نہیں جاسکتا۔ پیچ دَر پیچ مقدمات میں جکڑے علی وزیر کی خطا معاف ہونے میں نہیں آرہی۔ لاپتا افراد کا سراغ پانا محال ہے۔ اس سارے بکھرائو کو سمیٹنے کے لیے خاصی ریاضت مقصود ہے۔
فوج کے سیاست میں ملوث ہونے کا سب سے زیادہ نقصان خود فوج کو ہوتا ہے۔ لاتعداد ناکردہ گناہ بھی اس کے کھاتے میں لکھ دیے جاتے ہیں۔ زیرسرپرستی قائم ہونے والی نااہل حکومتوں کی نااہلیت بھی فوج کے نامۂ اعمال کی سیاہی بن جاتی ہے۔ سیاست کی آلائشوں سے پاک‘ اپنے حلف‘ آئینی تقاضوں اور پیشہ ورانہ فرائض سے جڑی فوج پر انگلی اٹھانے والوں سے عوام خود نبٹ لیں گے۔
کیا نئے آرمی چیف‘ جنرل سید عاصم منیر یہ سب کچھ کرپائیں گے؟ فوج پہلے ہی ایک فیصلہ کرچکی ہے‘ اسی لیے انہیں یقینا اپنی سپاہ سے بھرپور تعاون ملے گا۔ عوام اور جمہوری فکر کے حامل سیاستدان اُن کے شانہ بہ شانہ رہیں گے۔ میڈیا کی توانائیاں اُن کا دست وبازو بنیں گی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے تین سال بعد وہ ایک ایسے سپہ سالار کے طور پر رخصت ہوں گے جو تاریخ میں دیر تک زندہ رہے گا۔ یہ تین سال سید عاصم منیر کا ''عہد‘‘ قرار پائیں گے۔ خدا نخواستہ ایسا نہ ہوا تو وہ سولہویں کے بعد محض سترہویں کے طور پر جانے جائیں گے اور ایک دن ریٹائرڈ جرنیلوں کے حجرۂ بے آب ورنگ میں جابیٹھیں گے۔